• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا ملٹی کلچرل ازم ناکام ہوچکا ہے؟

تحریر:سردار عبدالرحمٰن …بریڈفورڈ
یوں تو بیرونی ممالک سے ہجرت کرکے یورپ میں آنے والوں کی تاریخ بہت پرانی ہے، مگر جتنے تارکین وطن ساٹھ کی دہائی کے بعد یورپ میں آنا شروع ہوئے اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد یورپ میں مزدوروں کی انتہائی کمی واقع ہوئی، یورپین اقوام نے اپنےنو آبادیاتی طور پر قابض ممالک سے مزدوروں کو منگوانا شروع کر دیا۔ یورپین ممالک تقریباً پورے یورپ پر پھیلے ہوئے تھے اور اس وجہ سے باقی دنیا سے امیر ترین خطہ زمین بن چکے تھے، دولت کی ریل پیل تھی اور وسائل پر قابض تھے انگریزی، ترویخ اور سپینش زبانیں حکمرانوں کی زبانیں تھیں، نو آباد یاتی ممالک کے لوگ یورپین زبانیں، لباس، فیشن، اچھی تعلیم اور کلچر ترقی کا زینہ سمجھ کر سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ عالمی جنگ دوم کے بعد انڈسٹریل یورپ میں پہلے سے بھی زیادہ قحط الرجال واقع ہوا اور مزدوروں کی طلب تیزی سے بڑھنے لگی۔ نو آبادیاتی ممالک سے مزدور اور مہمان ورکرز یورپ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے زیادہ تعداد میں آنا شروع ہوئے۔ لیکن 70کے عشرے کے بعد یورپ میں تارکین وطن کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی، یورپین ممالک نے اتنی بڑی تعداد میں مزدوروں کی آمد کی کوئی تسلی بخش منصوبہ بندی نہیں کررکھی تھی، تارکین وطن کو فیکٹریوں، پلوں، ٹرانسپورٹ اور ہر قسم کے غیر ہنر مند کام تو ملتے رہے لیکن ان کے رہن سہن اور ویلفیئر کی طرف سٹیٹ نے توجہ نہ دی اور تارکین وطن مشکل سے اپنی خود انحصاری سے پسماندہ علاقوں میں رہائش پذیر ہونے لگے پھر جو تارکین وطن یورپ میں آچکے تھے انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو بلوانا شروع کر دیا۔ یورپ میں تارکین وطن کی آنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ یورپ انتہائی آسودہ اور امیر خطہ ارض ہے جس کی تشہیر پسماندہ ممالک میں میڈیا کی طرف سے ہوتی ہے۔ تھرڈ ورلڈ ممالک کے لئے یورپ مقناطیس کی طرح پر کشش ہے اور پھر وہاں کے لوگ سر دھڑ کی بازی لگا کر یورپ میں پہنچتے ہیں۔ ایشیا افریقہ اور مڈل ایسٹ میں خانہ جنگی، دہشت گردی، ڈکٹیٹر شپ کے مظالم اور سپر پاورز کی سازشوں سے تنگ آکر لوگ یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یورپین اقوام تارکین وطن کو اپناتے تو ہیں لیکن کوئی باقاعدہ انتظام اور منصوبہ بندی نہیں  ہے یہی وجہ ہے کہ اب یورپین ممالک میں تارکین وطن کے خلاف مہم جوئیاں ہو رہی ہیں۔ جب تارکین وطن نے لاکھوں کی تعداد میں بحری جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے مختلف ممالک سے یورپ کی طرف رخ کیا اور یورپ کے سمندر کے ساحلوں پر بے یارو مددگار پہنچانا شروع کیا تو یورپی عوام میں خوف وخطر اور نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔ ان کے پاس اتنے بڑے ہجوم کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہ تھی۔ ان لوگوں کی رہائش کا انتظام نہ تھا اس لئے یہ لوگ عارضی طور پر پلوں کے نیچے، ویران اور اجاڑ جھاڑیوں کے درمیان اور شہروں کے کونے کھدروں میں رہنے لگے کچھ خوش قسمت تارکین وطن کو ٹوٹے پھوٹے گھر بھی ملے، تارکین وطن کی برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، بلجیم، سویڈن، ناروے، اٹلی اور دوسرے یورپین ممالک میں آمد بلاتطہیر تھی۔ کئی دائیں بازو کے قومیت پرست، نسل پرست کھلے عام تارکین وطن کے خلاف زہر اگلنے لگے۔ 70اور 80کی دہائیوں میں یورپین حکومتوں نے تین اصلاحتیں یا ڈاکٹرائن متعارف کرائیں جن کا مقصد تارکین وطن کا معاشرے میں مدغم کرنا، مل جل کر رہنا یا الگ معاشرے رکھتے ہوئے باہمی تعاون ایک دوسرے کی قدر، برداشت اور سمجھوتہ تھا، پہلا نقطہ یا اصلاح (Ossimilation) تھا۔ اس پالیسی کے تحت تارکین وطن کو میزبان معاشرے میں مدغم کرکے بڑے بنیادی معاشرے میں جذب کروانا تھا گویا جس معاشرے سے تارکین وطن آئے ہیں وہ معاشرہ ان کو ترک کرنا پڑے گا اور ان کو نئے سرے سے اخلاقیات، رواج، لباس، قوانین، آئین اور زبان کو سیکھنا اور اپنانا پڑے گا اور اس طرح وہ میزبان معاشرے کا جزو اور حصہ بن جائیں گے۔ ملٹی کلچرل ازم کو یورپین حکومتوں نے سپورٹ کیا اور یہ پالیسی سٹیٹ کی سرپرستی میں متعارف کرائی گئی۔ اس کے تحت مختلف ممالک سے آنے والے تارکین وطن کے ثقافتی ورثوں کو قائم رکھتے ہوئے انہیں قائم رکھنے کی ضرورت کو مانا گیا اور ان کی شناخت اپنی اپنی جگہ اہم سمجھی گئی۔ لیکن بعد میں سیاستدانوں میزبان کمیونٹیز، صحافیوں اور مفکروں نے ملٹی کلچرل ازم کو حرف تنقید بنایا۔ سوشیالوجسٹ نے نقائص بیان کئے۔ ان مخالفین نے کہا کہ ملٹی کلچرل ازم متوازی کلچرل کو فروغ دیتا ہے جو ملک کے لئے نقصان دہ اور اختلاف پیدا کرتا ہے۔ ایک ملک کے اندر صرف ایک ہی بنیادی کلچر ہوتا ہے اور (Core)کلچر کہلاتا ہے۔ ایک ہی ملک میں بسنے والے مختلف تارکین وطن ایک دوسرے کے علاقوں  میں جانے سے خوف زدہ ہیں، ملٹی کلچرل ازم معاشرے کی تقسیم کا باعث بن رہا ہے۔ اب اس حقیقت کا اعتراف خود حکمران کر رہے ہیں۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ایک تقریر میں کہا کہ بے شک ہماری تجویز اور کوشش یہ تھی کہ کثیر الثقافتی معاشرے کے ذریعے مختلف کمیونٹیز ایک دوسرے کے پہلو با پہلو رہ کر ہنسی خوشی سے رہیں لیکن یہ کاوش ناکام ہوچکی ہے بلکہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے جو لوگ جرمن سوسائٹی میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کو جرمن قوانین اور آئین پر عمل کرنا چاہیے اور جرمن زبان بولنا سیکھنی چاہئے۔ یورپ کے باقی ماندہ ممالک کو بھی احساس ہونے لگا کہ ملٹی کلچرل ازم کی پالیسی ایک ایسا پروگرام ثٓابت ہوا جس نے تارکین وطن کو میزبان میں معاشرے ادغام کے بجائے متوازی معاشرے پیدا کرانا شروع کردیئے۔ اس دوران برطانیہ کے وزیراعظم نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ملٹی کلچرل ازم کی سٹیٹ ڈاکٹرائن کے تحت ہم نے مختلف ثقافتوں کو مقامی بڑے کلچر سے الگ رہنے کی حوصلہ افزائی کی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹے کلچرز ایک دوسرے سے بھی الگ اور مقامی کلچر سے الگ ہونے لگے جس سوسائٹی میں وہ رہتے ہیں ہم اس سوسائٹی کا نقطہ نظر اور کلچر ان کو دینے میں ناکام ہوگئے۔ ہم نے علیحدگی میں رہنے والی کمیونٹیز کو برداشت کیا جو ہماری اقدار کے بالکل برعکس کام کرتی ہیں جو لوگ بیرونی ممالک سے ترک وطن کرکے آئے تھے ظاہر ہے وہ اپنے ساتھ اپنا کلچر ساتھ لائے تھے۔ ان کے لئے یکمشت یہ طرز زندگی ترک کرکے میزبان معاشرے میں جذب ہونا انتہائی مشکل کام تھا۔ اس نئے مقامی کلچر سے ٹکرائو کی صورت حال پیدا ہوئی، اسی دوران آسٹریلیا کے وزیراعظم جان ٹاورڈ، سپین کے وزیراعظم جو سے ماریہ ازسز کور کئی دوسرے سیاست دانوں، یورپین صحافیوں، دائیں بازوں کے نسل پرستوں اور اخباروں نے ملٹی کلچرل ازم کو ہدف تنقید بنایا۔ یورپ کو اس وقت جو خطرہ محسوس ہورہا ہے وہ دراصل اسلام اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور شرح پیدائش پر ہے۔ یورپین کلچر اور مذہب روبا انحطاط ہے اور مسلمانوں کی آبادی اور مذہبی وابستگی بڑھ رہی ہے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین