• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی ایسے شہر کے بارے میں لکھنا جو آپ کو بہت پسند آ جائے بے حد مشکل ہو جاتا ہے، سمجھ ہی نہیں آتی کہ بندہ کہاں سے شروع کرے ،بالکل ایسے جیسے کسی زمانے میں محبوبہ کو خط لکھتے وقت سوچتے تھے کہ حسن یار کی تعریف کہاں سے شروع کی جائے۔ آکسفورڈ کا شمار بھی ایسی ہی محبوبہ میں ہوتا ہے۔ جس روز ہم آکسفورڈ پہنچے وہ Freshersکا پہلا دن تھا، آکسفورڈ میں تازہ تازہ وارد ہونے والوں کو Freshersکہا جاتا ہے، ایک طرح سے ہم بھی فریشر ہی تھے فرق صرف یہ تھا کہ ہم نے کسی کالج میں داخلہ نہیں لیا تھا۔ آکسفورڈ کئی کالجوں کا مجموعہ ہے، اسی کو آکسفورڈ یونیورسٹی کہتے ہیں، کئی مربع میل پر محیط یہ علاقہ آکسفورڈ کی ملکیت ہے، یہاں کی تمام املاک کی آمدن آکسفورڈ یونیورسٹی کو جاتی ہے، دنیا کے عظیم دانشور اور لیڈر یہاں کے فارغ التحصیل ہیں۔ ان کالجوں کی تاریخ بہت دلچسپ ہے، دور جاہلیت میں انگلستان کے قبائل اور مذہبی پیشواؤں نے اپنے عقائد کی تعلیم دینے کی غرض سے آکسفورڈ میں کالج قائم کئے، ان کالجوں کو آپ مدرسے کہہ سکتے ہیں، جس طرح آج کل ہمارے ہاں مختلف مکاتب فکر کے مدرسے اپنے مسلک کے نوجوانوں کو مدرسوں میں پڑھاتے ہیں اسی طرح آکسفورڈکے کالج بھی مختلف مسالک کی تعلیم دیتے تھے، ان میں دنیاوی تعلیم بھی ہوتی تھی، ان کالجوں میں قائم اسکولوں کے نام لاطینی زبان میں آج بھی اسی طرح کندہ ہیں جیسے کئی سو سال پہلے تھے، کالجوں کا بیج بھی وہی ہے جو اُن قبائل کا ہوا کرتا تھا، اسے بھی تبدیل نہیں کیا گیا، آپ جس کالج کے دروازے سے بھی داخل ہو جائیں یوں لگے گا جیسے کسی طلسم ہو شربا میں داخل ہو گئے ہیں، ہر کالج کی عمارت پر شکوہ ہے جس میں تہہ در تہہ کئی مزید عمارتیں ہیں، ہرے بھرے گھاس کے میدان ہیں مگر ان پر قدم رکھنا سختی سے منع ہے، کسی طالب علم کی جرات نہیں کہ گھاس پر پاؤں رکھ سکے البتہ جس روز وہ یہاں سے ڈگری لے کر فارغ ہوتے ہیں اُس دن وہ اِس گھاس کو جوتوں سے خوب روندتے ہیں، یہ ایک طرح کی روایت ہے۔ کالج کی عمارت کا دروازہ باہر سے اتنا بڑا نظر نہیں آتا، یوں لگتا ہے جیسے اندر چند کمرے اور ایک آدھ ہال ہوگا مگر اندر اک پوری دنیا آباد ہے، ہر کالج میں ایک چرچ ہے، کسی زمانے میں تو یہاں صرف مسیحی عبادت کر سکتے تھے مگر اب اسے کمرہ خاموشی بھی کہتے ہیں، یہاں ہر مذہب اور فرقے کا شخص اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کر سکتا ہے، کئی جگہ پر مسلمان طلبا نے اسے گزشتہ رمضان اپنی افطاری اور سحری کے لئے بھی استعمال کیا۔ یہ کالج چونکہ مدرسے تھے اس لئے شروع میں یہاں صرف لڑکوں کو داخل کیا جا تا تھا مگر بعد میں جب انگلستان تاریکی کے دور سے نکلا تو یہاں نہ صرف دنیاوی تعلیم پر فوکس بڑھ گیا بلکہ لڑکیوں کو داخلے کی اجازت بھی مل گئی، قریباً سو سال پہلے یہاں مخلوط تعلیم شروع ہوئی جس کا جشن بھی آکسفورڈ میں منایا گیا۔ آکسفورڈ کی مشہور زمانہ براڈ سٹریٹ پر جائیں تو سڑک کے بیچوں بیچ اپ کو ایک کراس نظر آئے گا او ر ساتھ ہی ایک یادگار، اسے یادگار شہدا کہا جاتا ہے، یہ تین پادریوں کی یاد میں ان کے مرنے کے تین سو سال بعد تعمیر کی گئی، ان پروٹیسٹنٹ پادریوں کو اُن کے عقائد کی وجہ سے رومن کیتھولک ملکہ میری کے زمانے میں 1555-56میں اس جگہ زندہ جلا دیا گیا تھا۔ سو یہ تھا آکسفورڈ۔

آکسفورڈ میں بے شمار چرچ ہیں جبکہ مسجدیں صرف پانچ ہیں، گرجے خالی رہتے ہیں مگر مسجدیں آباد ہیں، ان میں سے ایک مسجد اہل حدیث کی ہے، ایک اہل تشیع کی، ایک بریلویوں کی، ایک بنگلہ دیشی مسلمانوںکی اور ایک کسی عرب ملک کی۔آکسفورڈ میں مسلمان بڑی تعداد میں ہیں اور دوچار تو ایسے ارب پتی ہیں جن کے کئی مکانات ہیں جو وہ آکسفورڈ کو کرائے پر دیتے ہیں، یہاں چونکہ ہر سال تقریباً پینتیس ہزار طلبا باہر کے ممالک سے داخل ہوتے ہیں اس لئے یہاں رہائش بے حد مہنگی ہے، لندن کے بعد یہ انگلستان کا دوسرا بڑا مہنگا شہر ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کا تعلیمی مرکز ہونے کے باوجود یہاں کے سرکاری اسکولوں کا معیار مثالی نہیں اور اس کی وجہ یہی مہنگائی ہے، یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے فورا ً آکسفورڈ چھوڑنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ کہیں اور جا کر ملازمت کر سکیں اسی لئے اسکولوں میں بہترین استاد میسر نہیں مگر اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم ان کا موازنہ اپنے کھوتی اسکولوں سے شروع کر دیں۔آپ اگر آکسفورڈ میں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس کے بے شمار طریقے ہیں، ضروری نہیں کہ آپ اٹھارہ بیس برس کے نوجوان ہی ہوں تو یہاں کالج میں داخلہ ملے گا، اگر آپ نے پہلے کوئی بھی ڈگر ی لے رکھی ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ اپنا راستہ بدل کر کسی اور شعبے میں قسمت آزمائی کریں تو اس کے لئے یہاں Access to higher educationپروگرام ہے، یہ ایک ایسا شاندار پروگرام ہے جو پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھی فوری اپنا لینا چاہئے، اس کے لئے کسی لمبے چوڑے فنڈ کی بھی ضرورت نہیں، فرض کریں کہ آپ نے تاریخ میں ایم اے کر رکھا ہے مگر اب ریڈیولوجسٹ بننا چاہتے ہیں تو آپ کو دوبارہ ایف ایس سی یا بی ایس سی کرنے کی ضرورت نہیں، بس آپ کو access to higher educationمیں ایک سال کا پروگرام کرنا ہے اس کے بعد آپ ریڈیولوجسٹ کے کورس میں داخلے کے اہل ہو جائیں گے۔ہمیں بھی اسی طرح اپنی جامعات میں کسی بھی پروگرام میں داخلہ لینے کے لئے پابندیاں ہٹا دینی چاہئیں اور اگر کسی کا مطلوبہ پس منظر نہیں ہے تو اسے ایک سال کا یہ کورس کروا کے اُس کے من پسند شعبے میں داخلے کا اہل بنا دینا چاہیے، یہ پروگرام لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کی زندگیاں بدل سکتا ہے۔لیکن ہم بھی چونکہ پاکستانی ہیں، کوئی کام سیدھا نہیں کرتے، یہاں لاکھوں روپے لے کر ایجنٹو ں کے پیچھے پھرتے ہیں، یو کے میں خوار ہوتے ہیں، مگر پڑھ لکھ کر کوئی مفید ڈگری لینے کو تیار نہیں کہ جس کے بل پر اپنے آپ ہمیں نوکری مل جائے۔ آکسفورڈ ایک طلسم ہو شربا ہے، یہاں ایک دفعہ جسے داخلہ مل جائے کہتے ہیں کہ وہ زندگی میں امر ہو جاتا ہے، آکسفورڈ کسی مخصوص جامعہ کا نام نہیں، یہ ایک ایسی فضا کا نام ہے جو آپ یہاں اپنے چاروں طرف محسوس کر سکتے ہیں، یہ تاریخ اور روایت کا نام ہے، جس زمانے میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے یہ کالج قائم ہوئے تھے وہ انگلستان کا دور جاہلیت تھا مگر آکسفورڈ کی عمارات کو دیکھ کر اور ان کے اندر قائم فلسفے اور طب کے اسکول دیکھ کر انسان دم بخود رہ جاتا ہے کہ یہ آرکیٹکچر اُس زمانے کا ہے جب یورپ تاریکی میں گم تھا۔ شام ڈھلنے کو تھی، سنہری دھوپ اب ماند پڑ رہی تھی، ہم نے ہائی سٹریٹ کے ایک کیفے کی سیڑھیاں دیکھیں اور چڑھ گئے، اس کی تیسری منزل کی چھت پر بیٹھنے کا اہتمام تھا، ہم نے چھت سے آکسفورڈ پر نظر دوڑائی، پورا شہر نظروں کے سامنے تھا، یوں لگا جیسے کسی نے ہم پر طلسم کر دیا ہو، آکسفورڈ کا سحر ایسا ہے کہ اگر کوئی یہاں سے واپس بھی آ جائے تو بھی اس شہر کا سحر صدیوں تک اس کے اندر رہے گا۔

تازہ ترین