• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈونلڈ ٹرمپ کے تجارتی حملے کو روکنے کیلئے عالمی جدوجہد

برسلز : ایلن بیٹی

ڈونلڈ ٹرمپ کی دنیا کے تجارتی نظام کی تشکیل نو کی مہم زور پکڑ رہی ہے۔امریکی صدر نے گزشتہ ہفتے بڑے کاروباری شراکت داروں کے ساتھ براہ راست معاہدوں کے مذاکرات پر زور کی دو کامیابیوں کا دعویٰ کیا ہے ۔ تادیبی ٹیرف کے خطرے کے تحت جنوبی کوریا نے واشنگٹن کے ساتھ اپنے معاہدوں پر نظرثانی کیلئے اتفاق کیا اور جاپان نے نئے معاہدوں پر دوطرفہ مذکارات شروع کرنے پر زور دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے کینیڈا پر بھی شدید دباؤ ڈالا ہوا ہے اور یورپی یونین کو مذکارات کی میز پر دھکیل دیا ہے جبکہ امریکا کو 2 سو ارب ڈالر سے زائد چین کی درآمدات پر ریکارڈ ٹیرف کی ضرب لگائی ہے۔

چناچہ اپنے جارحانہ دوطرفہ تبدیلی کے ساتھ وہ عالمی تجارت کے حقائق کو تبدیل کرنے سے کتنے دور ہیں؟ اور اب یہ کہ امریکا عالمی تجارتی نظام کی مضبوطی کا اپنا روایتی کردار مزید ادا نہیں کرنا چاہتا،اسے تبدیل کرنے کے لئے دیگر بڑے ممالک کی کوششیں کتنی کامیاب ہیں؟

تقسیم اور فتح

امریکا کے رہنمائی میں علاقائی معاہدوں ، 12 قومی ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ کو ترک کرنے ڈونلڈ ٹرمپ دنیا بھر سے ایک ایک کرکے براہ راست تجارتی شراکت داروں کا انتخاب کرتے نظر آرہے ہیں، رعایت کی مطالبہ کررہے ہیں جیسا کہ مزید ٹیرف آنے کے خطرے کے ساتھ انہوں نے ٹیرف عائد کیا ہے۔

امریکا کچھ کامیابی کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ جنوبی کوریا کے امریکا کے ساتھ اسٹیل کی محدود برآمدات اور کاروں کی مزید برآمدات کے اس کے تجارتی معاہدے کی چال کے فیصلے سے دباؤ کے تحت جھکنے والا پہلا ملک بن گیا۔اس کے بدلے میں سیؤل کو اسٹیل اور ایلومینیم کے دراامدی ٹیرف سے چھوٹ دی گئی۔

میکسیکو نے بھی کینیڈا سے عہد توڑ دیا کہ یہ نافٹا دوبارہ مذاکرات میں اوٹاوا کے ساتھ مشترکہ فرنٹ برقرار رکھے گا،امریکا کے ساتھ براہ راست بات چیت میں رعایت پر متفق ہوگیا۔ ان تبدیلیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو کینیڈا پر دباؤ بڑھانے کا حوصلہ دیا ہے تاکہ وہ ترمیم پر متفق یا امریکا اور میکسیکو کے مابین معاہدے سے نکل جائے۔

یہاں تک کہ یورپی یونین، جو اپنے سازادانہ تجارت کا نظریہ کی سند کی مسلسل تشہیر کرتی ہے،نے امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے پہلے اسٹیل اور ایلومینیم ٹیرف کو بڑھانے کی ضرورت کے عہد کو ترک کردیا۔۔اب یہ ایک معاہدے کی جانب کام کررہے ہیں جو اس کے اپنے اور عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین کی خلاف ورزی ہوگی،تاکہ اس کی قیمتی کاروں کی صنعت پر ٹیرف عائد ہونے سے بچاسکتی ہے۔

جاپان نے کثیر جہتی روح کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے،امریکا کے بغیر ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کی بحالی اور مکمل کرنے کرنے کیلئے کامیاب تحریک کی قیادت کی۔ تاہم ٹوکیو اب خود کو دو راہے کے دباؤ کے تحت محسوس کررہا ہے۔

بڑی تجارتی طاقتوں میں صرف چین،جس کے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کئی بار شروع ہوکر ختم ہوئے، بھاری اور وسیع یک طرفہ امریکی ٹیرف کے باوجود رعایت کرنے سے انکار کردیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ظاہر کرنے کیلئے کیا ہے؟

جنوبی کوریا کے معاہدوں میں تبدیلیاں کافی معمولی ہیں کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے متفق ہوسکتے ہیں۔ تاہم نافٹا کے اندر یا یورپی یونین کے ساتھ کسی بھی اہم مذاکرات کے لئے کانگریس کا کہنا ہے اور ان معاہدوں کو روک ستی ہے جو اسے پسند نہیں ہیں۔مثال کے طور پر اگر برسلز زراعت پر تبادلہ خیال سے مسلسل انکار کردے تو امریکی فارم لابی کانگریس پر کسی بھی معاہدے سے انکار پر شدید دباؤ ڈالے گی۔

اسی طرح، اگر ڈونلڈ ٹرمپ کا نافٹا مملک اور یورپی یونین کے ساتھ تحمل ختم ہوا،وہ تادیبی ٹیرف کا دوبارہ نافذ کرنے کی جانب جاسکتے ہیں۔

امریکی صدر کو تبدیلیاں چاہتے ہیں نہایت سادہ ہیں،متعدد تجارتی ماہرین اقتصادیات کے ساتھ حمایت حاصل کرنے کے امکانات نہیں ہیں۔جنوبی کوریا اور میکسیکو کے ساتھ اس کے معاہدوں سے امریکا نے امریکا میں سامان کی سپلائی چین کو واپس لانے کی کوشش کی ہے۔اس کے برعکس یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں واشنگٹن کی تجاویز ٹیرف کم کریں گے اور ٹرانس انٹلانٹخ تجارت کو بڑھاسکتے ہیں۔

یورپی یونین اور میکسیکو کے حکام نے ذاتی طور پر کہا کہ وہ جن رعایتوں کی پیشکش کررہے ہیں نسبتا کم ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کو بالخصوص علامتی فتح دیتی ہیں۔چین کے معاملے میں اگرچہ امریکا ملک کی ریاستی مداخلت پسندی کی حکمت عملی کے لئے عسیر الفہم اور بنیادی تبدیلیوں کا مطالبہ کرتا ہے جنہیں قبول کرنا بیجنگ کیلئے سیاسی طور پر نہایت تکلیف دہ ہوگا۔

ٹرمپ سے کیسے نبٹیں؟

یورپی یونین اور جاپان نے دو طرفہ تجارتی معاہدے کو حتمی صورت دے دی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ امریکا اور چین کو عظیم تر تعاون کا فریب دے رہے ہیں۔ تاحال دونوں آگاہ ہیں کہ اگر واشنگٹن یا بیجنگ کے ساتھ قریبی اتحاد کرتے ہیں توانہیں دو طرفہ تجارتی جنگ کی دونوں جانب سے حملوں کی زد میں آنے کا خطرہ ہے۔

چین کے تجارتی طریقوں کے ساتھامریکا کے مقابلے میں یورپی یونین روایتی طور پر کم متنازع ہے،خاص طور پر جرمنی ملک کا بڑا برآمد کنندہ اور سرمایہ کاری کے مفادات رکھتا ہے۔جاپان کے وزیراعظم شینزو آبے بھی تجارت پر مشترکہ بنیادوں پر پہنچنے کیلئے آئندہ ماہ بیجنگ کا دورہ کریں گے۔

تاہم،چین کے تجارتی بگاڑ نظریہ مداخلت کے حوالے سے برسلز اور ٹوکیو کے خدشات واشنگٹن سے مشترکہ ہیں،خاص طور پر صنعتی اضافی صلاحیتوں کی سبسڈیز اور ملک میں کام کرنے والی غیر ملکی سے جبرا ٹیکنا لوجی کی منتقلی۔

تاہم چین کے خلاف امریکا کی یکطرفہ کارروائیوں کی نقل کرنے کی بجائے یورپی یونین اور جاپان نے طویل عرصہ تک وسعت نگاہ کے ساتھ مزید مشترکہ راستے پر لانے کیلئے واشنگٹن کی رہنمائی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

برسلز کی جانب سے ابتدائی طور پر شکوک و شبہات کے باوجود ٹوکیو کی زیر سربراہی گزشتہ سال یورپی یونین،جاپان،امریکی سہہ فریقی آغاز کار کی مہم چلائی،جس کے نتیجے میں ٹیکنالوجی کی منتقلی پر ڈبلیو ٹی او میں چین کے خلاف کم از کم منظم قانونی چارہ جوئی کا ہنگامہ مچا۔

گزشتہ ہفتے حالیہ وزارتی اجلاس کے بعد تینوں نے نام نہاد نان مارکیٹ اکنامک مشترکہ سوچ اور مسخ شدہ سبسڈیز کم کرنے کیلئے پر ساتھ کام کرنے کا عہد کیا۔

یورپی یونین نے اس کے غیر مؤثر ہونے کے بارے میں امریکی شکایات کو حل کرنے کے لئے ڈبلیو ٹی او میں تبدیلیوں پر بھی زور دیا ہے۔ ابھی تک یہ بھی ہے کہ چین کے تجارتی تنازعات کو حل پر ایک اصلاح شدہ ڈبلیو ٹی او ہی غور کرسکتا ہے،تنظیم کی قانونی کتاب کو محدود مورد تحفظ دیا گیا ہے۔ واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے چند حمایتی ڈبلیو ٹی او سے مکمل طور پر خارج رکنے کے خیال پر زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔

اور یہاں تک کہ امریکا نے عالمی تجارتی تنظیم میں چین کے خلاف مقدمات دائر کئے ہیں،واشنگٹن نے اس کی اپیلیٹ باڈی کے نئے ججوں کی تقرری سے انکار کرکے تنظیم کی تنازعات کے حل کے عمل کو چلنے کے ناقابل بنانا جاری رکھا ہوا ہے۔

کیا ہورہا ہے؟

امریکا کی مکمل تحفظ پسندی کی تحریک سب کیلئے نہیں ہے۔ لیکن چند دلیرانہ کوششوں کے باوجود دیگر بڑی تجارتی طاقتیں عالمی تجارتی نظام کیلئے نئے رابطہ کار بنانے کیلئے کافی حد تک مشترکہ وجوہات تلاش کرنے کیلئے جدوجہد کررہی ہیں۔ ابھی تک چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو سنجیدگی سے ختم ہوتے نظر آئے ہیں۔لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، تو دیگر معیشتوں میں پھیل سکتا ہے۔  

تازہ ترین