سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ،سابق آئی جی پنجاب اور موجودہ آئی جی سندھ کلیم امام اور احسن جمیل گجر کی تحریری معافی قبول کرلی ۔
اس سے قبل عدالت عظمٰی نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں ان تینوں کو تحریری معافی نامے جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ہدایت کی کہ معافی اسٹرانگ ورڈز میں مانگیں جبکہ سابق آئی جی کلیم امام اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور احسن اقبال جمیل نے خالق داد کی رپورٹ پر جمع کروائے گئے جوابات واپس لے لیے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ ہے وہ حکومت جو نیا پاکستان بنانے جا رہی ہے، تمام فریقین تحریری معافی نامے لکھنے کیلئے روانہ ہو گئے۔
اس سے پہلے مقدمے کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو معاملہ دوسرے زاویے سے دیکھنے کی استدعا کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کو جس زاویے سے بھی دیکھیں حقائق وہی رہیں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ معاملہ حساس تھا اس لیے احسن اقبال جمیل نے وزیر اعلیٰ سے بات کی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے تو ملاقات نہیں کی بلکہ پرائیویٹ شخص کو ملاقات کے لیے بلایا، ایڈووکیٹ جنرل، وزیر اعلیٰ نے خالق داد لک سے متعلق کیا زبان استعمال کی ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ آپ ایک بہترین افسر کے بارے میں ایسا لکھ رہے ہیں، میں خود اس معاملے کی انکوائری کر لیتا ہوں، کہتے ہیں تو جے آئی ٹی بنوا لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے انکوائری افسر پر ذاتی نوعیت کے الزامات لگائے، آپ معافی کے دائرے سے باہر نکلتے جا رہے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل آپ اس معاملے کو آسان لے رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت رہنے تک بزدار وزیر اعلیٰ رہیں گے، اگر بزدار سی ایم رہیں گے تو عدالت کے حکم کے تحت رہیں گے، کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ عدالت میں شرمساری کا اظہار کرے۔
وکیل رہنماء احسن بھون روسٹرم پر آئے تو عدالت نے انہیں منع کر دیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جہاں رول آف لاء کی بات آئے گی کسی لیڈر کو نہیں مانتا، کیا آپ وکلاء ایسا رول آف لاء چاہتے ہیں؟
احسن بھون نے کہا کہ میں 1980 ء سے احسن جمیل کو جانتا ہوں۔
جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میں تو5دن میں اس بندے سے پریشان ہو گیا ہوں، میری طرف سے اس سے متعلق وزیراعظم کو اظہار ناپسندیدگی کا بتا دیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم قانون کی حکمرانی کی کوشش کر رہے ہیں آپ اس کی دھجیاں اڑا ر ہے ہیں،کیا ڈی پی او پلید ہو گیا تھا کہ آدھی رات کو اس کا تبادلہ کیا گیا۔