• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب اور جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں جھوٹ بولا، اسحاق ڈار

اسلام آباد (انصار عباسی) سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے الزام عائد کیا ہے کہ پاناما جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں ان کے کیس میں جھوٹ بولا جبکہ نیب نے دھوکہ دہی کے ذریعے سپریم کورٹ کو ان کیخلاف ’’آمدنی سے زیادہ اثاثہ کیس‘‘ میں جاری 16؍ سالہ تحقیقات کے نتائج پیش نہیں کیے تاکہ سیاسی بنیادوں پر جھوٹا کیس دائر کیا جا سکے۔ دی نیوز نے اسحاق ڈار سے موقف لینے کیلئے رابطہ کیا تھا جس کے بعد انہوں نے اس اخبار کو تفصیلی نوٹ بھیجا۔ اپنے موقف میں اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے غلط انداز سے سپریم کورٹ میں رپورٹ دی کہ اس کے پاس اسحاق ڈار کے 20؍ سال کا ٹیکس ریکارڈ موجود نہیں۔ اسحاق ڈار کو فی الوقت نیب کے تازہ ترین ریفرنس میں مفرور قرار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں جھوٹ بولا۔ وہ کہتے ہیں کہ 30؍ جولائی 2017ء بروز پیر جے آئی ٹی میں پیش کے دن جے آئی ٹی کی جانب سے مجھے بتایا گیا کہ ایف بی آر نے میرے 30؍ جون 2003ء سے 30؍ جون 2008ء تک کا ٹیکس ریٹرنز کا ریکارڈ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا، میں نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ میں ایف بی آر کے پاس جمع کرائے گئے ریٹرنز کی ذاتی نقل پیش کرنے کو تیار ہوں تاکہ تحقیقات میں معاونت کر سکوں، جس کے بعد میں نے جے آئی ٹی کو ایک کورنگ لیٹر کے ہمراہ یہ ریکارڈ تین جولائی 2017ء کو رات ساڑھے آٹھ بجے تک فراہم کر دیا۔ اسی دن رات آٹھ بجکر 55؍ منٹ پر جے آئی ٹی کی جانب سے یہ ریکارڈ وصول کیے جانے کی تصدیقی رسید بھی موصول ہوئی۔ اسحاق ڈار نے کہا، ایف بی آر نے بھی 7؍ جولائی 2017ء کو اپنے خطوط کے ذریعے جے آئی ٹی کو آگاہ کیا کہ میرا پرانا ریکارڈ، یعنی کہ 30؍ جون 2003ء سے پہلے کا ریکارڈ نیب سے مل گیا ہے۔ ایف بی آر نے فوری اقدامات کرتے ہوئے مذکورہ ریکارڈ نیب سے حاصل کیا اور 8؍ جولائی 2017ء کو جے آئی ٹی میں جمع کرا دیا۔ اسحاق ڈار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں غلط انداز سے بتایا کہ اس کے پاس اسحاق ڈار کا 20؍ سال کا ٹیکس ریکارڈ نہیں ہے۔ اسحاق ڈار نے اصرار کیا کہ جے آئی ٹی کے اس جھوٹ کی وجہ سے ’’آمدنی سے زیادہ اثاثے‘‘ کے جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ 30؍ جون 2017ء تک ختم ہونے والے مالی سال تک 34؍ سال کے دوران میں ایک بھی ٹیکس ریٹرن جمع کرانا نہیں بھولا۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جانا غلط اور بے بنیاد ہے کہ میں نے متعدد درخواستوں اور مواقع ہونے کے باوجود آمدنی اور فنڈز کی تفصیلات پیش نہیں کیں اور یہ بھی کہ میری آمدنی اور اثاثوں میں ’’زبردست‘‘ اضافہ ہوا۔ الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں، ان کی دو وجوہات ہیں: اول) نیب کی جانب سے گزشتہ تحقیقات جو 30؍ جون 2007ء تک 22؍ سال پر محیط اور ٹیکس ریٹرنز کے حوالے سے تھی اور اس میں متعلقہ برسوں کے دوران اثاثوں اور واجبات کے حوالے سے ای سی پی کا بیان بھی شامل کیا گیا تھا، وہ سب معاملات بالکل درست ثابت ہوئے اور 30؍ جون 2007ء تک میرے اثاثے میری آمدنی کے مطابق ثابت ہوئے، اس وقت میرے اثاثوں کی مالیت 89؍ کروڑ 90؍ لاکھ روپے تھی۔ اس کے بعد اثاثوں کی مالیت 30؍ جون 2008ء کو کم ہو کر 88؍ کروڑ 20؍ لاکھ اور 2009ء میں 88؍ 83؍ کروڑ 20؍ لاکھ ہو گئی۔ دوم) جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کے ابتدائیہ میں غلط بیانی کی کہ اسحاق ڈار کے اثاثوں کی مالیت 30؍ جون 2010ء تک 83؍ کروڑ 40؍ لاکھ تھی اور 30؍ جون 2011ءکو 85؍ کروڑ 40؍ لاکھ تھی، کیونکہ اصل اعداد و شمار متعلقہ برسوں کے دوران بالترتیب 80؍ کروڑ 90؍ لاکھ اور 56؍ کروڑ 90؍ لاکھ روپے تھی، جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ 30؍ جون 2009ء تک اثاثوں میں 83؍ کروڑ 20؍ لاکھ روپے سے بڑھ نہیں گئے بلکہ ان میں کمی واقع ہوئی۔ سوم) جہاں تک ٹیکس ریکارڈ پیش نہ کرنے کی بات ہے تو یہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یہ غلط ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا، ایف بی آر اور ای سی پی کے پاس موجود میرے 34؍ سال کے اثاثوں اور دیگر ریکارڈ میں کسی طرح کے نقائص اور غیر اعلانیہ چیز نہیں، میں نے کچھ نہیں چھپایا اور جیسا جے آئی ٹی نے کہا ہے کہ ویسے میں نے کبھی ٹیکس سے بچنے (Tax Evasion) کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں جو رقم بتائی گئی ہے وہ 30؍ جون 2005ء کو جمع کرائے گئے ریٹرن میں بالکل درست پیش کی گئی اور ای سی پی کے پاس بھی یہ ریکارڈ موجود ہے، یہیں سے جے آئی ٹی نے یہ اعداد و شمار حاصل کیے۔ کریڈٹ بیلنس میں موجود رقم ظاہر کرتی ہے کہ میری غیر ملکی پیشہ ورانہ آمدنی پیسے نکالنے کے عمل کو کم ظاہر کرتی ہے۔ اسحاق ڈار نے اپنے نوٹ میں واضح کیا ہے کہ 30؍ جون 2008ء تک ختم ہونے والے مالی سال تک میں پاکستان میں ٹیکس نان ریزیڈنٹ تھا۔ نیب کو اس کی سابقہ تحقیقات کے دوران میں نے بیرون ملک سے کمائی گئی دولت کے حوالے سے دستاویزی ثبوت پیش کیے تھے، یہ تحقیقات مناسب انداز سے بند کی گئیں تھیں اور معاملات بالکل درست قرار دیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ، جب میں نے متحدہ عرب امارات سے 2008ء میں استعفیٰ دیا تو اس وقت 4.97؍ ملین پائونڈز کا قرضہ میرے بیٹے کو دیا گیا تھا، جو اس نے آہستہ آہستہ کرکے 2009ء سے 2014ء کے درمیان اتارا اور تمام لین دین مناسب بینکنگ چینل کے ذریعے ہوا۔ یہ تمام لین دین ایف بی آر کے ریٹرنز میں اور ای سی پی کے گوشواروں میں تفصیلاً بتایا گیا حالانکہ اس وقت ٹیکس نان ریزیڈنٹ کی حیثیت سے پاکستانیوں کو بیرون ممالک سے کمائی گئی دولت ظاہر نہ کرنے کا استثنیٰ حاصل تھا، یہ سب درست اور قانونی تھا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ جے آئی ٹی کو بات سمجھ نہیں آئی یا اس نے بدنیتی سے میرے اور براق ہولڈنگز کے درمیان قانونی تعلق پیش کیا جس میں مجھے پیشہ ورانہ انداز سے مشاہرہ ادا کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی نے غلط انداز سے یہ سمجھا کہ آمدنی مشاہرہ نہیں بلکہ میری سرمایہ کاری ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں نے یکم جولائی 2009ء سے 30؍ جولائی 2016ء کے درمیان 16؍ کروڑ 92؍ لاکھ 70؍ ہزار روپے کی رقم عطیہ کی تھی تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں نے ہجویری ٹرسٹ اور ہجویری فائونڈیشن کو 9؍ کروڑ 12؍ لاکھ 10؍ ہزار روپے کی رقم عطیہ کی تھی، ان دونوں اداروں کے ذریعے فل ٹائم یتیم خانہ، غریب مریضوں کیلئے مفت ڈائلاسز، مستحق طلبہ کیلئے تعلیمی معاونت، ہزاروں ضرورتمندوں کیلئے ہر سال راشن کا انتظام، غریب لڑکیوں کیلئے شادی وغیرہ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ باقی رقم (5؍ کروڑ روپے) آئی ڈی پیز کے ریلیف فنڈ میں دی گئی۔ اور یہ فنڈ سوات میں کڈنی اسپتال تعمیر کرنے پر خرچ ہوئی کیونکہ گردے کے امراض میں مبتلا کئی افراد کو علاج کیلئے اسلام آباد یا پھر پشاور جانا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے سیلاب متاثرین اور سینیٹ اور نیشنل اسمبلی ایمپلائز ویلفیئر فنڈز وغیرہ کیلئے 2؍ کروڑ روپے عطیہ کیے تھے۔ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ میں نے یہ تمام عطیات اپنی جائز، قانونی اور اعلانیہ آمدنی سے کیے اور ان سب کا ذکر ایف بی آر کے ٹیکس ریٹرنز اور ویلتھ ری کنسی لیشن اسٹیٹمنٹس میں بھی کیا گیا، میں نے اپنی مجموعی آمدنی میں ان عطیات کو شامل نہ کرنے کیلئے بھی استثنیٰ حاصل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا، جے آئی ٹی کی جانب سے اخذ کیے گئے نتائج خیالی پلائو اور قیاس آرائی پر مبنی ہیں اور یہ بھی جھوٹ ہے کہ میں نے 20؍ سال سے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے۔ نیب کی جانب سے سپریم کورٹ کو اسحاق ڈار کیخلاف زیر التوا تحقیقات کے متعلق آگاہ کرنے میں ناکامی کے حوالے سے اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ نیب نے ماضی میں اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت کے بعد یکم فروری 2000ء کو میرے خلاف ایک تفصیلی انوسٹی گیشن شروع کی تھی اور اس میں 22؍ سالہ ریکارڈ (یکم جولائی 1985ء تا 30؍ جون 2007ء) میں میرے آمدنی اور اثاثوں کے حوالے سے تحقیقات کی گئیں۔ اس تحقیقات کے دوران میں نے مذکورہ 22؍ برسوں کے ایف بی آر کے ٹیکس ریٹرنز، انکم ٹیکس کے گوشواروں اور دولت کے گوشواروں کا ریکارڈ فراہم کیا اور ساتھ ہی 30؍ جون 2003ء سے 30؍ جون 2007ء تک ختم ہونے والے مالی سال کے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں کی بھی نقل پیش کی، ساتھ ہی غیر ملکی آمدنی کے سرٹیفکیٹ جو اس وقت کے تھے جب میں نان ریزیڈنٹ پاکستانی تھا، غیر ملکی بینک کے ذریعے پاکستان بھیجی گئی رقوم کا ریکارڈ بھی پیش کیا اور اس عرصہ میں وہ وقت بھی شامل تھا جب میں نان ریزیڈنٹ پاکستانی تھا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ نیب نے اپنی تحقیقات، جو 15؍ جولائی 2016ء کو ختم ہوئی، کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ میری آمدنی اور مذکورہ بالا عرصہ کے دوران حاصل ہونے والے اثاثے بالکل درست اور ایف بی آر کے ٹیکس ریٹرنز اور ای سی پی کے گوشواروں کے عین مطابق ہیں اور اس طرح یہ انوسٹی گیشن بند کر دی گئی۔ انہوں نے کہا، 6؍ ستمبر 2016ء کو نیب کی جانب سے انوسٹی گیشن بند کرنے کے خط میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے نیب نے میری آمدنی اور اثاثوں کے حوالے سے تفصیلی تحقیقات کی اور یجہ طے پایا کہ یہ اثاثے معلوم ذرائع آمدنی سے زیادہ نہیں۔ ڈار کا کہنا ہے کہ مجھے نیب نے 6؍ ستمبر 2016ء کو کلین چٹ دی لیکن بیورو نے سپریم کورٹ سے یہ سچ چھپایا۔ انہوں نے کہا کہ نیب یہ سچ اپنے ریفرنس میں سامنے لانے میں بھی ناکام رہا اور ساتھ ہی احتساب عدالت کو بھی مکمل حقائق اور گزشتہ 16؍ سالہ تحقیقات جس میں میرے 22؍ سال کے ریکارڈ کی تحقیقات کی گئیں، کی تفصیلات پیش نہیں کی گئیں۔ یہ وہی تحقیقات ہیں جن کے نتیجے میں نیب نے 6؍ ستمبر والا مذکورہ خط جاری کرکے کلین چٹ دی۔ اسحاق ڈار نے الزام عائد کیا کہ جے آئی ٹی اور نیب دونوں نے بدنیتی کے ساتھ جان بوجھ کر میرے خلاف جھوٹا، بے بنیاد اور من گھڑت ریفرنس دائر کیا ہے تاکہ عوام میں مجھے بدنام کیا جا سکے اور مجھے سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا سکے۔

تازہ ترین