• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی وزیرِ خارجہ کی موثر تقریر دُریاں ختم نہ کرسکی

پاکستانی وزیرِ خارجہ کی موثر تقریر دُریاں ختم نہ کرسکی
پاکستانی وزیرِ خارجہ اپنے امریکی ہم منصب، مائیک پومپیو سے مصافحہ کرتے ہوئے

اس مرتبہ اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس اُمیدوں کے عین مطابق خاصا ہنگامہ خیز رہا۔ اس فورم پر دُنیا کو در پیش اُن تمام مسائل و تنازعات کو، جن کی وجہ سے ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے، پیش کیا گیا۔ اجلاس میں وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ یاد رہے کہ اس سے چند روز قبل نیویارک میں شاہ محمود قریشی کی اپنی بھارتی ہم منصب، سُشما سوراج سے ملاقات طے پائی تھی، لیکن بھارت کی جانب سے ایک بار ہامی بھرنے کے بعد اسے منسوخ کر دیا گیا۔ خطّے کی صورت حالِ کے پیشِ نظر اورپاکستان کے نقطۂ نگاہ سے یہ ملاقات خاصی اہمیت کی حامل تھی، مگر بد قسمتی سے ممکن نہ ہو سکی اور شاید اب ہمیں مزید انتظار کرنا پڑے۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ نے اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی اپنی تقریر میں مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر معاملات پر پاکستان کا مؤقف بھرپور انداز سے پیش کیا، جب کہ شمالی کوریا، شام، یمن اور فلسطین کے معاملات سمیت عالمی تجارتی تنازعات اور سائبر وارز جیسی مختلف نوعیت کی تلخیاں بھی اس سب سے بڑے بین الاقوامی فورم پروقتاًفوقتاً سامنے آتی رہیں۔ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ اپنی طویل تقریر میں حسبِ روایت ایران پر خُوب گرجے برسے اور ایرانی صدر، حسن رُوحانی نے اپنے خطاب میں اپنے امریکی ہم منصب کی تنقید کا جواب بھی دیا، جب کہ تُرکی کے صدر، رجب طیّب اردوان نے مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کے علاوہ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے سائیڈ لائن میٹنگز اور اپنے امریکی ہم منصب، مائیک پومپیو سے بھی ملاقات کی اور اس دوران انہیں دورۂ پاکستان کی دعوت دی۔

پاکستانی وزیرِ خارجہ کی موثر تقریر دُریاں ختم نہ کرسکی
تقریر کے دوران بھارتی وزیرِ خارجہ، سُشما سوراج کا ایک انداز

اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے 73ویں اجلاس کی صورت میں پہلی مرتبہ برسرِ اقتدار آنے والی پاکستان تحریکِ انصاف کو دُنیا کے سب سے بڑے بین الاقوامی فورم کے سامنے اپنی خارجہ پالیسی پیش کرنے کا موقع ملا اور حُکم راں جماعت نے اپنے وزیرِ خارجہ کو یہ ذمّے داری سونپی۔ شاہ محمود قریشی نے روایت کے برعکس جنرل اسمبلی سے قومی زبان، اُردو میں خطاب کیا۔ سب سے بڑے عالمی پلیٹ فارم پر اردو کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر موجودہ حکومت اور وزیرِ خارجہ بِلاشُبہ داد کے مستحق ہیں۔ بد قسمتی سے ہم بین الاقوامی فورمز میں اپنی قومی زبان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں، حالاں کہ قائدِ اعظم، محمد علی جناح نے ایک موقعے پر فرمایا تھا کہ ’’اردو اور صرف اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہو گی۔‘‘ بھارتی وزیرِ خارجہ، سُشما سوراج نے بھی پہلی مرتبہ ہندی میں تقریر کی۔ زبان کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اصل اہمیت تقریر کے مواد کی ہوتی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے معترفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے بڑی دانش مندی سے عالمی اُمور کا تجزیہ پیش کیا اور تقریر سے پتا چلتا ہے کہ اُن کی عالمی امور پر گہری نظر ہے۔ وزیرِ خارجہ نے اپنے خطاب میں قوم پرستی، تجارتی جنگ، موسمیاتی تبدیلیوں اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سمیت تقریباً تمام متعلقہ امور پر اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے دُنیا پر واضح کر دیا کہ افغان مسئلے کا حل جنگ نہیں، بلکہ صرف مذاکرات ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی ستایش کرنے والے انہیں مسئلہ کشمیر کو نہایت مؤثر انداز میں اُٹھانے پر سب سے زیادہ داد دے رہے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ تقریر میں بھارتی افواج کے مظالم، مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، آزادیٔ اظہارِ رائے پر لگائی گئی پابندیوں اور بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی کو تفصیلاً بیان کیا گیا۔ نیز، بھارت کا اصل چہرہ دُنیا کے سامنے بے نقاب کیا گیا۔ علاوہ ازیں، انہوں نے پاکستان میں قید بھارتی جاسوس، کلبھوشن یادیو کی پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لیے کی گئی کارروائیوں کا پردہ بھی بڑی جرأت مندی سے چاک کیا، جب کہ گزشتہ حکومت بعض مصلحتوں کے باعث ایسا نہ کرسکی ۔

دوسری جانب ناقدین اس بات پر مُصر ہیں کہ وزیرِ اعظم، عمران خان کو بہ ذاتِ خود اس اہم اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی،مگر وہ اسے پہلے ہی ’’وقت کا زیاں‘‘ قرا دے چُکے تھے۔ یاد رہے کہ عمران خان نے اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے چند روز قبل اینکرز اور سینئر تجزیہ کاروں سے ملاقات میں کہا تھا کہ وہ نیویارک جا کر 4روز ضایع کرنے کی بہ جائے مُلک میں رہتے ہوئے کام کرنے کو ترجیح دیں گے۔ یہ وہی ملاقات تھی کہ جس میں انہوں نے دو مرتبہ فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکروں کی کال وصول کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ وہ اس میٹنگ کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نے ایک ایسے وقت میں دُنیا کے 193ممالک کے رہنمائوں کو اپنی حکومت کی پالیسیز سے آگاہ کرنے کا موقع گنوا دیا کہ جب مُلک کو بیرونی قرضوں کی ضرورت اور ایف اے ٹی ایف کا سامنا ہے۔ یعنی اگر عمران خان خود یو این او کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے، تو اقوامِ عالم کو دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ یہ جاننے کا موقع بھی ملتا کہ تبدیلی کی عَلم بردار، پاکستان تحریکِ انصاف مُلک میں کیا تبدیلیاں لا رہی ہے اور اس کی اقتصادی و خارجہ پالیسی کن خطوط پر استوار ہو گی؟ ناقدین ایک نکتہ یہ بھی اُٹھاتے ہیں کہ اگر سحر انگیز شخصیت کے مالک اور انگریزی پر کامل مہارت رکھنے والے، عمران خان خود جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرتے، تو اُن کی بات چیت کا تاثر گہرا اور دیرپا ہوتا۔

پاکستانی وزیرِ خارجہ کی موثر تقریر دُریاں ختم نہ کرسکی
اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے 73ویں اجلاس میں شریک عالمی رہنما امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کا خطاب سُن رہے ہیں

بہر کیف، وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کے اقوام متّحدہ کی جانب عازمِ سفر ہونے سے قبل سب سے زیادہ توجّہ طلب معاملہ نیو یارک میں اُن کی اپنی بھارتی ہم منصب، سُشما سوارج سے سائیڈ لائنز پر متوقّع ملاقات تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عمران خان نے وزارتِ عُظمیٰ کا حلف اُٹھانے سے قبل اپنی وکٹری اسپیچ میں بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کا عندیہ دیا تھا۔ اس موقعے پر انہوں نے بھارت کو مذاکرات اور باہمی تجارت کی پیش کش کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم بڑھائے گا، تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ بعد ازاں، وزیرِ خارجہ کا قلم دان سنبھالتے ہی شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی بھارتی ہم منصب کو مذاکرات کی دعوت دی۔ تاہم، بھارت نے اقوامِ متّحدہ کے اجلاس میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کی پیش کش قبول کرنے کے بعد اگلے ہی روز ڈاک کے ٹکٹ پر کشمیری حریّت پسند کی تصویر کو جواز بناتے ہوئے مسترد کر دیا، حالاں کہ یہ تصویر جولائی میں شایع کی گئی تھی۔ ملاقات کی منسوخی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی تلخی میں مزید اضافہ ہوا۔ اس موقعے پر بھارتی فوج کے سربراہ، بِپن راوت نے پاکستان سے متعلق ایک دھمکی آمیز بیان دیا، جس کا پاک فوج کے ترجمان، میجر جنرل آصف غفور نے نہایت متوازن جواب دیا کہ’’ ہم جنگ کے لیے تیار ہیں، لیکن امن کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں۔‘‘ اسی طرح ملاقات کی منسوخی کے ردِ عمل میں عمران خان کے ٹویٹ پر بھی بہت سے سوالات اُٹھائے گئے کہ انہوں نے غیر محتاط انداز اپنایا اور دفترِ خارجہ اس معاملے کو بہ حُسن و خوبی نہیں نمٹاسکا۔ پھر بعض ناقدین نے شاہ محمود قریشی اور سُشما سوارج کے خطاب کو’’ تقریری مقابلہ‘‘ بھی قرار دیا۔ اُمورِ خارجہ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ کی تقریر سے ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد نے نئی دہلی سے بات چیت کے لیے جو کھڑکی کھولی تھی، وہ فی الحال بند کر دی گئی ہے اور بھارتی حکومت بھی مُلک کے اندرونی حالات کی وجہ سے مذاکرات سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔

پاکستانی وزیرِ خارجہ کی موثر تقریر دُریاں ختم نہ کرسکی
شاہ محمود قریشی اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں

نیو یارک میں شاہ محمود قریشی نے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ سے مصافحے کے علاوہ امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو سے بھی ملاقات کی ۔ امریکی صدر سے مصافحے کے بعد انہوں نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ امریکی صدر نے ان سے پاک، امریکا تعلقات بحال کرنے کی بات کی۔ شاہ محمود قریشی نے اس مقصد کے لیے ’’Resetting Relations‘‘کی اصطلاح استعمال کی، لیکن پھر یہ بیان سامنے آیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے یہ معاملہ متنازع ہو گیا۔ اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات سے قبل وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ خیال رہے کہ امریکا کو اسامہ بن لادن تک رسائی دینے میں معاونت کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی اس وقت پاکستان میں قید ہیں اور امریکا مسلسل ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ وزیرِ خارجہ کے دورۂ نیویارک کے موقعے پر یہ قیاس آرائیاں کی گئیں کہ شاید امریکا میں قید ،ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے بدلے شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے کر دیا جائے، لیکن اس معاملے کی پیچیدگیاں سمجھنے والے افراد نے انہیں مسترد کر دیا۔ اس ضمن میں ان کا استدلال ہے کہ صرف امریکی حکومت ہی نہیں، بلکہ امریکی پارلیمنٹ کے دونوں ایوان بھی شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب امریکی حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا امکان یہ کہہ کر مسترد کر چُکی ہے کہ انہیں امریکی قانون کے مطابق سزا دی گئی ہے۔ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ واشنگٹن مالی امداد لینے نہیں گئے، بلکہ امریکا سے از سرِ نو تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، مائیک پومپیو اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر، جان بولٹن سے ملاقات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک، امریکا تعلقات کے حوالے سے کوئی بڑی پیش رفت ممکن نہیں ہو سکی۔ ہر چند کہ امریکا کا ماننا ہے کہ وہ نئی پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے اور حکومتِ پاکستان بھی پاک، امریکا تعلقات کو بہتر بنانا چاہتی ہے، لیکن معروضی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ دونوں ممالک کی جانب سے نیک خواہشات کا اظہار تو کیا جا رہا ہے، لیکن فی الوقت مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔

پاکستان کے امریکا اور خطّے کے ممالک سے تعلقات کی نوعیت اور موجودہ عالمی صُورتِ حال کے تناظر میں ناقدین کا خیال ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں مُلک کی خارجہ پالیسی پر سیر حاصل بحث کی جائے۔ وزیرِ خارجہ کے علاوہ وزیرِ اعظم کو بھی مُلک کی خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کرنے چاہئیں۔ وزیرِ خارجہ نے اپنی تقریر میں عالمی سیاست میں رونما ہونے والی جن تبدیلیوں کا ذکر کیا، اُن کے پیشِ نظر مُلک کی خارجہ پالیسی پر قومی اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ نیز، کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وفاقی وزیرِ اطلاعات، فوّاد چوہدری امورِ خارجہ کے ذمّے دار ہیں۔ مثال کے طور پر وزیرِ اعظم کے دورۂ سعودی عرب سے متعلق وزیرِ اطلاعات ہی تمام تفصیلات فراہم کرتے رہے۔ کبھی انہوں نے10ارب ڈالرز امداد کی بات کی، تو کبھی تیل کی مفت فراہمی کا شوشہ چھوڑا۔ کبھی سعودی سرمایہ کاری کا ذکر کیا، تو کبھی سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت کا راگ چھیڑا۔ یہ طرزِ عمل کسی طور دُرست نہیں، کیوں کہ یہ نہایت اہم معاملات ہیں، جو بہ یک وقت مشرقِ وسطیٰ، چین اور مُلکی اقتصادیات سے جُڑے ہوئے ہیں اور ان پر نہایت سوچ سمجھ کر ہی بیانات دینے چاہئیں۔ پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ کے حالات میں امریکا، رُوس، ایران، سعودی عرب، تُرکی اور یورپ فوجی، مالی اور سیاسی طور پر ملوّث ہیں۔ لہٰذا، ہمیں ان معاملات میں سفارت کاری کے اصولوں کو لازماً ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا اور شاہ محمود قریشی جیسے منجھے ہوئے خارجہ امور کے ماہر سے زیادہ اس بات کو کون سمجھ سکتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہم وقتاً فوقتاً ’’گرین پاسپورٹ‘‘ کی عزّت بحال کرنے کی بات تو کرتے ہیں، لیکن اندرونِ مُلک پاکستانی شہریوں کی اوقات یہ رہ گئی ہے کہ غیر مُلکی سفارت خانوں نے فارن کوریئر سروسز فراہم کرنے والی کمپنیز کو پاکستانی باشندوں کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے ٹھیکے دے رکھے ہیں۔ یہ کمپنیز اس کام کے عوض نہ صرف مجبور شہریوں سے بھاری فیس وصول کرتی ہیں، بلکہ انہیں اپنے دفاتر کے چکر لگانے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ پھر یہ اپنے دفاتر میں لگائے گئے بیریئرز سمیت دیگر حفاظتی اقدامات سے شہریوں کو مرعوب بھی کرتی ہیں اور انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی تو ختم ہو گئی، لیکن اس کی باقیات موجود ہیں۔ دفترِ خارجہ کو فوری طور پر اس جانب توجّہ دینے کی ضرورت ہے اور اگر محکمۂ خارجہ بے بس ہے، تو پھر دیگر معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی عدالتِ عظمیٰ کو دِل چسپی لینا پڑے گی۔

تازہ ترین