• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

10؍ اکتوبر کا دن دماغی صحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مجھے ایک معزز قاری کی وساطت سے تفصیلی خط ملا جسے مبالغے کی حد تک مختصر کرتے ہوئے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ ہمارے ملک میں ’’دماغی صحت اور ذہنی معذوری‘‘کے ابواب کی داستانیں درد کے آخری کناروں کو بھی شاید عبور کر چکی ہیں، اس حوالے سے پاکستان کی دو شخصیات پروفیسر اعجاز احمد خان ترین اور پروفیسر خالدہ ترین شاید پاکستان کے لیجنڈ افراد میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اس دن اور اس کے پس منظر میں دونوں حضرات کی خدمات کے حوالے سے ڈاکٹر مقصود احمد رقم طراز ہیں:10 اکتوبر کا دن دنیا بھر میں ’’دماغی صحت کے عالمی دن‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے ایک انتہائی غیر معمولی اور لاثانی میاں بیوی میری مراد پروفیسر اعجاز احمد خان ترین اور پروفیسر خالدہ ترین ہیں۔ آپ دونوں نے جس تندہی اور جانفشانی سے ہمارے وطن عزیز میں پچھلی چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط ذہنی صحت کے میدان میں خدمات انجام دی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔

پروفیسر خالدہ ترین نے بچوں اور نوجوان لوگوں کی ذہنی صحت جبکہ پروفیسر اعجاز ترین نے بالغ لوگوں کی ذہنی صحت سے متعلقہ امور کا شعبہ سنبھال لیا۔ ڈاکٹر خالدہ ترین کو ہمارے ملک کی پہلی چائلڈ سائیکاٹرسٹ ہونے کا عظیم الشان اعزاز حاصل ہوا۔ پاکستان واپسی کے کچھ ہی عرصہ بعد انہوں نے اپنے شوہر نامدار کی مدد سے ذہنی اور جذباتی طور پر معذور بچوں کی تعلیم و تربیت اور معاشرتی بحالی کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے ایک چیریٹی قائم کی جس کے زیر اہتمام ایک اسکول اسپیشل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ سنٹر کا آغاز کیا جو کہ 1981ء میں ایک کرائے کی عمارت میں شروع ہوا مگر بعد میں اس اسکول کو جوہر ٹائون لاہور میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ ہمارے ملک میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جو کہ ذہنی اور جذباتی طور پر معذور بچوں اور نوجوان لوگوں کی خدمت پر معمور ہے۔ کئی سال پہلے اس ادارے کے کام میں توسیع کر دی گئی۔ آس پاس کی جھگیوں کے پسماندہ خاندانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور خواتین کی تعلیم کا بھی بندوبست کر دیا گیا۔

پروفیسر خالدہ ترین کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور میو ہسپتال لاہور کے بچوں اور نوجوان لوگوں کے ذہنی امراض کے شعبہ کے اجرا کے ساتھ ساتھ انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلباء اور طالبات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بے شمار ملکوں کے ساتھ مل کر ریسرچ کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا جس کی پذیرائی عالمی ادارہ صحت نے بھی کی جس کے لئے انہیں اس ادارے کے مشیر ہونے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ چند سال قبل ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا۔ وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت کے شعبہ کی تاحیات پروفیسر بھی ہیں۔ ہم ہمیشہ سنتے آئے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تاہم آج کے دن کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ پروفیسر خالدہ ترین جیسی کامیاب خاتون کے پیچھے ایک مرد کا ہاتھ ہے تو یہ غلط نہ ہو گا اور یہ مرد پروفیسر اعجاز ترین ہیں۔ میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ مجھے آج تک ان میں سے کسی نے بھی اتنا متاثر نہیں کیا جتنا محترم پروفیسر اعجاز ترین نے کیا ہے۔ میرے نزدیک وہ واحد عہد ساز سائیکاٹرسٹ ہیں جن کا نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی سائیکاٹری کے شعبہ سے تعلق رکھنے والی بلند پایہ شخصیات نے ان کے علم و فضل کا اعتراف کیا ہے۔

میرا پختہ یقین ہے کہ پاکستان میں سائیکاٹرک پریکٹس کو ایک نئی جہت دینے میں پروفیسر اعجاز ترین کا کردار نہ صرف کلیدی ہے بلکہ مجددانہ ہے۔ اس کا مرکزی نقطہ ذہنی امراض میں مبتلا بے چار و بے بس مریضوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا تحقیر آمیز سلوک تھا اور ان کی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج ان مریضوں کی چھِنی ہوئی تکریم بہت حد تک معاشرتی سطح پر بحال ہو چکی ہے۔ ان کے اس تاریخی کردار کے حوالے سے انہیں اٹھارہویں صدی عیسوی میں انگلستان میں شہرت پانے والے ماہر ذہنی امراض ولیم ٹیوک(William Tuke)فرانس کے فلپ پنل (Phillipe Pinel) اور امریکہ کے بنجمن روش (Benjamin Rush)کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین