• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پُرکشش پیشے‘‘ جن کی مستقبل میں بھی مانگ ہوگی

پاکستان میں 16سال سے 24سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعدادآبادی کے ایک بڑے حصے پر مشتمل ہے، جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیںاور گریجویشن، پوسٹ گریجویشن اور ڈاکٹریٹ کے بعد انھیں ملازمتیں درکار ہوتی ہیں۔ اگر ابتداء سے ہی انھیں اپنے مستقبل کے حوالے سے یہ معلوم ہو کہ وہ جتنی محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اس تعلیم کی بدولت انہیں معاشرے میں عزت ملے گی اور ان کی تمام ضروریاتِ زندگی بھی پوری ہو سکیں گی تو وہ ایک بہتر سمت میں چل سکتے ہیں۔

ہمارے دیہات میں والدین اپنے بچوں کو پٹواری یا پولیس کا سپاہی بنانا چاہتے ہیں یا پھر ان کو فوج میں بھرتی کرانے کی خواہش ہوتی ہے۔ بہت سے والدین کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے گریجویشن کے بعد اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس (ASI) یا اسٹینو گرافر یا دفتری اسسٹنٹ بن جائیں جبکہ بعض والدین اپنے بچوں کو اسکول ٹیچر بنانا چاہتے ہیں تاکہ باعزت روزگار مہیا ہو سکے۔

شہروں میں صورتحال دیہات سے مختلف ہے۔ یہاں پر طبقاتی نظامِ تعلیم اپنے عروج پر ہے۔ اس طبقاتی نظامِ تعلیم کی بدولت سرکاری ادارے زیادہ تر کلرک پیدا کرتے ہیں جبکہ انگلش میڈیم اور بڑے نجی تعلیمی ادارےبیورو کریٹ، ٹیکنوکریٹ، پالیسی ساز اور انٹرپرنیوئرز کو جنم دیتے ہیں۔

یہ باتیں اپنی جگہ لیکن والدین اور طالب علموں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اس دور میں ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کیے بغیر محفوظ مستقبل انتہائی مشکل بلکہ ناممکن بن جائے گا۔ ٹیکنالوجی وہ چیز ہے، جو بے شمار لوگوں کے روزگار بھی نگل چکی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چند شعبہ جات ایسے ہیں جن میں ٹیکنالوجی، ملازمین کی مانگ میں حیرت انگیز اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ دراصل، ٹیکنالوجی کے اس عہد میں روزگار کے مستقبل کا تعین مصنوعی ذہانت اور خودکاری (آٹومیشن) کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ ان ٹیکنالوجیز کی وجہ سے چند پیشے ختم تو ہوجائیں گے، لیکن ساتھ ہی نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور ان کاموں کی مانگ میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملے گا، جو انسانوں سے بہتر اور کوئی نہیں کرسکتا۔ درج ذیل میں ایسے ہی پیشوںکا احاطہ کیا جارہا ہے، جہاں آنے والے چند برسوں کے دوران ملازمین کی مانگ میں اضافہ نظر آئے گا۔

قابلِ تجدید توانائی کا ٹیکنیشن

امریکا کی توانائی کی صنعت میں بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور وہ کوئلے سے قدرتی گیس اور قابلِ تجدید ذرائع پر منتقل ہورہی ہے۔ اس تبدیلی کے ساتھ مزید افرادی قوت کی ضرورت پڑے گی۔ امریکا کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق، اگلے 10سال تک سولر فوٹووولٹائک انسٹالر اور وِنڈ ٹربائن ٹیکنیشن کی مانگ میں تیزترین اضافہ ہوگا۔ دونوں شعبوں میں افرادی قوت کی طلب میں 100فیصد اضافے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ ان شعبوں میں جو کام افرادی قوت سے لیا جاسکتا ہے، وہ آٹومیشن کے بس کی بات نہیں۔

مشین ٹرینر

مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر کو ذہین بنانے کی تربیت فراہم کرنا بہت محنت طلب کام ہے۔ مثال کے طور پر کسی روبوٹکس کی کمپنی کو ایک اسمبلی لائن پر صرف ایک پرزے کو پکڑنے کے لیے ہزاروں واقعات کے متعلق ڈيٹا حاصل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دسمبر میں گوگل نے یوٹیوب کے مشمولات(Contents) کو صاف کرنے اور اپنی مشین لرننگ کی ٹیکنالوجی کو تربیت فراہم کرنے کے لیے 10ہزار ملازمین بھرتی کیے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ملازمتیں زیادہ دلفریب یا مستقل نہ ہوں لیکن افرادی قوت میں خودکاری متعارف کرانے کے مرحلے میں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

مصنوعی ذہانت کا انجینئر

مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی کمپنیوں میں ملازمین کی بھرتی کے لیے بھگدڑ مچی ہوئی ہے اور اس شعبے میں گہری معلومات رکھنے والے ملازمین اس قدر نایاب ہیں کہ ان کی تنخواہیں پیشہ ورانہ کھلاڑیوں کی تنخواہوں کے لگ بھگ مساوی ہوچکی ہیں۔ دسمبر میں منعقد ہونے والی نیورل انفارمیشن پراسیسنگ سسٹمز ( NIPS) کی کانفرنس میں، کمپنیوں نے باصلاحیت افراد بھرتی کرنے کے لیے پارٹیاں بھی منعقد کیں اور کئی تحائف بھی تقسیم کیے۔ اس وقت ٹیکنالوجی کی دنیا میں شاید ہی کسی دوسری صلاحیت کی اتنی زیادہ مانگ ہو اور مستقبل میں صورتحال کے اسی طرح برقرار رہنے کا امکان نظر آتا ہے۔

ویڈيو گیم ا سٹریمر

اس وقت گیم اسٹریمنگ کی ویب سائٹ ٹوئيچ (Twitch) کے پلیٹ فارم پر25ہزار سے زیادہ افراد پیسے کما رہے ہیں اور اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس ویب سائٹ پر روزانہ ڈیڑھ کروڑ فعال ناظرین، گیمرز کو گیمز کھیلتے ہوئے دیکھنے کے لیے آتے ہیں، جس کی وجہ سے مشمولات (Contents) اور کھلاڑیوں(گیمرز) کی مانگ آسمانوں سے باتیں کررہی ہے۔

ہیلتھ کیئر کاپیشہ (Caregiver)

خودکاری کئی پیشوں میں ممکن ہے، لیکن ہیلتھ کیئر کا شمار اب بھی ان پیشوں میں ہوتا ہے جن میں انسانوں کے ساتھ رابطے کی ضرورت ہے۔ نیز، امریکا میں عمررسیدہ شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، گھریلو صحت اور ذاتی دیکھ بھال کی سہولیات کے سلسلے میں معاونت فراہم کرنے والوں کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔

امریکا کے ادارہ برائے شماریات کے ایک اندازے کے مطابق، اگلے10سال میں ان پیشوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد میں426,000 سے754,000کا اضافہ ہوگا۔ تاہم، ان پیشوں میں کام کرنے والوں کی اشد ضرورت کے باوجود، ان میں سے بیشتر کی تنخواہیں زیادہ اچھی نہیں ہیں لیکن مانگ میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس صورتحال میں بہتری کی توقع ہے۔

تازہ ترین