لاہور(نمائندہ جنگ)چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ انصاف میں تاخیر کی ایک وجہ عدلیہ کی نا اہلی ہے ،وکلا ءسے ملکر سائلین کا استحصال کیا جاتا ہے،ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا ،نظام عدل میں تاخیر ناسور بن چکی ہے ،ایک جج 55ہزار روپے روزانہ میں پڑتا ہے،کیا وہ اتنا کام کرتا ہے؟یہ ملک نہ ہوتا تو میں چھوٹا موٹا وکیل یا بنک آفیسر ہوتا، جو پس منظر میں ملک چلاتے تھے ان کی اب کوئی حیثیت نہیں سوات میں انقلاب کیوں آیا؟ جلد انصاف کی یقین دہانی تھی ،بنیادی حقوق کا سکوپ ہم نے سمجھا ہی نہیں،تنقید ہو رہی ہے، مانتا ہوں کئی جگہ زیادتی ہوئی،سمندر پار پاکستانی یہاں جائیداد بناتے ہیں تو قبضہ ہو جاتا ہے ،پھر 15سال سول کورٹ،اپیل،سیکنڈ اپیل، سپریم کورٹ، اتنے میں وہ فارغ ہو جاتا ہے ۔سپریم کورٹ کی سلور جوبلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف میں تاخیر کی ایک وجہ عدلیہ کی نااہلی بھی ہے، ججز مقدمات کی تاریخیں دیتے رہتے ہیں ،مقدمات کا بروقت فیصلہ ہی نہیں کرتے ،جو تنقید ہورہی ہے وہ کسی حد تک درست ہے،بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ایک جج ایک دن کیلئے55 ہزار روپے میں پڑتا ہے ،کیا یہ جج اس کے مطابق کام کرتے ہیں جب ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو مقدمات میں تاخیر ہوگی اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد ختم ہو گا ،جہاں بے انصافی ہوگی وہ معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا، ملک نصیبوں والوں کو ملتا ہے بدقسمت ہوتے ہیں جن کا ملک نہیں ہوتا،پاکستان کسی نے تحفے میں نہیں دیا کیا ہم پاکستان کی قدر کررہے ہیں ؟ ملک خیرات میں نہیں ملا اس کیلئے جدوجہد کی گئی ، ایسے وکلا بھی تھے جوعدالتوں میں جھوٹ نہیں بولتے تھے، اپنےموکل اور عدالتوں کا احترام کرتے تھےاگر یہ سب نظام جھوٹ پر کھڑا ہے تو اس ملک کو کیا دیا جاسکتا ہے،ایک جج کو پوری ذمہ داری سے ان مقدمات کا فیصلہ کرنا ہے جو اسکے سامنے لگے ہیں ،جج پیڈ ہالیڈے پر نہیں ہوتے ،کفر کا معاشرہ تو رہ سکتا ہے لیکن بے انصافی کا نہیں، جس بندے کے مقدمے کی تاریخ پڑتی ہے وہ اسی وقت مرتا ہےآج بھی اس جدید دور میں ہم زبانی احکامات مان رہے ہیں ہم قوانین میں ترامیم نہیں کررہے، ہمیں اپنے قوانین کو جدید کرنا ہو گا۔قانون نافذ کرنیوالے تمام اداروں کے سربراہان سے لاپتہ افراد سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔وہ گزشتہ روزسپریم کورٹ کی سلور جوبلی کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے، تقریب میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یاور علی،نامزد چیف جسٹس انوارالحق،سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے جج صاحبان ،سینئر قانون دانوں نے بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب سے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ،احسن بھون،سپریم کورٹ بار کے صدر پیر کلیم خورشید،سابق صد ر علی ظفر، سابق سیکر ٹری قمر زمان قریشی،ظفر اقبال کلانوری،ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس اور معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی صاحبزادی سلائمہ جہانگیر نے بھی خطاب کیا ۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں نے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے اپنی ذمہ داری نبھائی تو کیا غلطی کی ہے، اس دھرتی ماں نے ہمیں جو کچھ دیا ہے کیا ہم اسے واپس دے رہے ہیں ؟ منشا بم جیسے لوگ جائئدادیں کھا جاتے ہیں،اوورسیز پاکستانی جن سے مدد کے لیے ہم جھولی پھیلاتے ہیں ان کے پلاٹوں پر یہاں قبضے ہوتے ہیں ،پھر انہیں کہا جاتا ہے کہ سول کورٹ جاؤ اور سالہا سال عدالتوں کے چکر میں لگاتے رہو ،کیا یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟میرے نزدیک غذائی قلت سے مٹھی میں مرنے والے بچے بھی شہید ہیں،کیا خوراک صحت ،تعلیم انکا بنیادی حق نہیں، اگر تمام ادارے اپنی ذمہ داری پوری کریں تو عدلیہ پر بوجھ کم ہوجائے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میں نے تمام وکلا رہنماؤں کے آگے ہاتھ جوڑے کہ قوانین میں اصلاحات کیلئے تجاویز دیں تاکہ طریقہ کار آسان ہو لیکن مجھے ابھی تک کسی طرف سے جواب نہیں آیا، جب تک طریقہ کار آسان نہیں ہوگا مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کیسے ختم ہوگی، 1872 کے قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا اس کے سوا چارہ کوئی نہیں، انصاف قانون کے مطابق ملنا چاہیے مگر 1872 کے نہیں، کیا ہم اسی دور میں واپس جانا چاہتے ہیں جہاں ناانصافی تھی، آج کتنے لوگ ہیں جو عدلیہ سے پیار آور اسکا احترام کرتے ہیں، عدلیہ کے احترام کو پہچانیں اور اسکی عزت کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ معاہدوں پر کیسے جعلی دستخط کیے جاتے ہیں پتہ ہے،دو نمبر دستخط کر دیے جاتے ہیں یہ کون سا مشکل کام ہے کہ جعلی دستخط والے مقدمات سالوں لٹکے رہتے ہیں ۔ حضرت علی نے قاضی کی جو صفات بتائی تھیں میں خود بھی ان پر پورا نہیں اترتا، میں اپنے آپ کو مکمل قاضی نہیں سمجھتا،بڑے بڑے وکیل یہاں ہیں،ساری ساری رات تیاری کرتے ہیں لیکن کوئی قانون بنانے پر کتاب نہیں لکھتا جن معاملات میں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا، میں مسئلے کا حل نہیں نکال سکا لیکن بنیادی حقوق کے معاملہ پر صرف آپ لوگوں کو جھنجھوڑنے کیلئے یہ کافی ہیں، کیا بیماروں کا بنیادی حق نہیں کہ ریاست انکا علاج کرے ،کیا پینے کا صاف پانی پینا بنیادی حق نہیں، اچھی تعلیم حاصل کرنا بھی بنیاد حق ہے جس معاشرے میں جھوٹ سرایت کرچکا ہو اس معاشرے کا ڈھانچہ کیسے چلے گا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے یہ بھی بتا دیا کہ لاپتہ افراد کیس میں تمام حساس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان سے بیان حلفی مانگ لیا تاکہ کوئی غلط بیانی نہ ہوسکے، ڈی جی آئی ایس آئی، آئی بی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ٹاسک دیا ہے کہ مسنگ پرسن کے بارے میں بتایا جائےاور ساتھ اپنے حلف نامے بھی دیں، اگر لاپتہ افراد ان داروں کے پاس نہیں تو ان کے کیسز کی سماعت کے لیے اسپیشل بینچ تشکیل دیدیا ہے، سارے ادارے اپنی ذمہ داری پوری کریں تو عدلیہ پر بوجھ کم ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں پر بوجھ بہت زیادہ بڑ ھ گیا ہے،لوگوں میں کورٹ جانے کی استطاعت نہیں ہے، ایسے سکول بنا دیے جن پر کوئی ریگولیٹری باڈی نہیں وہ اپنی من پسند فیس لیتے ہیں ،میڈیکل کالجَ 34 لاکھ روپے فیس لے رہے ہیں، 726 ملین روپے ہم نے ریکور کروائے، چیف جسٹس پاکستان نے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیا اور کہا کہ کوئی شخص یہان سے کھڑا ہو کہ مجھ سے کوئی بھی سوال کر سکتا ہے، پاکستان کی تاریخ میں یہ کبھی نہیں ہوا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے کیس میں ہم نے کسی کی نہیں سنی ،سب کو پتہ ہے پیچھے کون کون ہے،علی ظفر اور اعتزاز بھی اس کیس میں پیش ہوتے رہے ہیں ،ہم میرٹ پر کیس سن رہے ہیں کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے،یہ جو پاکستان ہے یہ ہمیں کسی نے خیرات میں نہیں دیا اسکے پیچھے ایک تحریک ہے،تحریک کے ساتھ قربانیاں بھی شامل ہیں۔جب پاکستان بن رہا تھا تو لوگ شہید ہوئے،ہمارے گھر میں کنیز بی بی کئی سال رہی ،کیوں کہ اس کے گھر میں سب شہید ہو گئے تھےکیا ہم اس ملک کی قدر کر ہے ہیں ؟1980 کی بات ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم میچ کھیلنے انڈیا گئی،میرے والد صاحب بھی ٹیم کے ساتھ گئے اور اپنے آبائی علاقے کے لوگوں سے ملاقات کی ،پاکستان اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہےاگر جج نہ ہوتا تو شاید چھوٹا موٹا کلرک ہوتا ہے،دنیا میں جن قوموں نے ترقی کی ہے انہوں نے ہمیشہ محنت کی ہے ،میں بار کا سب سے پرانا اور قدیم ممبر ہوں ،میں اس بار میں 7 سال کی عمر سے آ رہا ہوں ،میں اپنے باپ کے پاس سکول سے سیدھا عدالت آتا تھاجب میں بات کرتا ہوں بابے رحمتے کی تو اس بات کو مزاق میں لیا گیا،بابے رحمتے کا کام منصف کا کام ہے جس کے پاس لوگ اپنے مسائل لے کے جاتے ہیں ،بار اس نظام اور جوڈیشل سسٹم کا لازم و ملزوم مصر ہے جس میں ایم سلیم ، منظور قادر، بٹالوی صاحب، منٹو صاحب وہ عدالتوں میں جھوٹ نہیں بولتے تھے وہ عدالتوں میں اپنے سائل کے موقف سچ بیان کرتے تھے اور قانون کے نافذ کیلئے تگ و دو کرتے تھے۔ یہ مقام جوڈیشری کا ہے کہ لوگوں کو انصاف دینا ہے،بار جوڈیشری کا اہم حصہ ہے جس معاشرے میں جھوٹ سرایت کر گیا ہو تو ملک کے لیے کیا ڈیلیور کیا جائے گااس دھرتی نے آپ کو جو دیا اس کے بدلے آپ نے اس دھرتی کو لوٹانا ہے،ایک جج کو بالکل ایمانداری سے اپنے فرائض دینے ہیں ،ریاست میں سب سے زیادہ مراعات اور تنخواہ جج لیتا ہے،کفر کا معاشرہ پھر بھی رہ سکتا ہے لیکن جہاں ناانصافی ہو گی وہ معاشرہ نہیں چل سکتا،کتنے کیسز میں روز تاریخیں دے دی جاتی ہیں، ہمیں گریبان میں بھی جھانکنا چاہیےمیں جو کچھ ہوں اس وکلا کے پروفیشن کی وجہ سے ہوں جو بندہ انصاف پہ ہے اور اسکا حق مارا گیا تو اس کے لیے وہی سب سے بڑا مسئلہ ہے61 سال بعد 15 دن میں ایک عورت کو قبضہ دلوایا ہے،میری تعلیم ان کی ذمہ داری بنتی ہے مگر اس طرح نہیں کہ کرائے دار کی طرف سے چونکہ وہ انگیج ہو گئے ہیں اور اس نے کہا کہ میرا 5سال کیلئے بس قبضہ رہنے دیجئے تو 5سال تاریخیں لے کر یہ زیادتی کی ۔چار بہنیں آئیں، آ کر کہنے لگیں ہمارے بھائیوں نے حصہ نہیں دیا، بھائیوں کو بلا کر پوچھا تو کہنے لگے ایک پلاٹ کراچی ایک مری اور ایک ڈی ایچ میں ہے یہ بہنوں کا حصہ بنتا ہے انہوں نے کبھی مانگا ہی نہیں، بہنوں نے کہا کہ ایک 6کنال کا گھر گلبرگ میں بھی ہے جس پر بھائی کہنے لگے یہ 6کنال کا گھر ابا جی کے پاس تھا جو ہمیں گفٹ کر گئے تھے۔ میں نے کہا کے ابا جی گفٹ کر گئے وہ بھی جاتے ہوئے زبانی کہہ گئے تھے کہ پتر گھر تاڈا اے تسی ادھر رہتے ہو، پوچھا لکھت پڑھت ہوئی کہنے لگے ہاں جی، اس پر مجھے ایک سفید کاغذ دیا گیا جس پر دستخط تھے یا نہیں مجھے نہیں یاد، کوئی تاریخ سی تھی۔ میرے پاس ایڈیشنل رجسٹرار بیٹھا تھا میں نے اس کو پکڑایا اور کہا کہ یار آگ لگا دے، میں نے کیا کوئی اور ثبوت، کہنے لگے نہیں یہی ہے جو آپ نے کہا آگ لگا دو۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے درست کہا کہ انصاف کی جلد فراہمی کیلئے ہمیں اپنے موجودہ قوانین کا جائزہ لینا ہو گا ،کمپیوٹرائزڈ دور سے اس ٹیکنالوجی سے ہمیں استفادہ کرنا ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بطور پاکستانی شہری اپنا حق ادا نہیں کیا ۔ میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہا آج یہ ملک نہ ہوتا تو میں کوئی چھوٹا موٹا وکیل ہوتا کیونکہ اس وقت جو تعلیم کامعیارتھا اس پر قبضہ کیا ہوا تھا اور مسلمان بہت کم تعلیم یافتہ تھے ، میں سپریم کورٹ بار کا سب سے پراناممبر ہو ں۔چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ قانون شہادت معاشرے میں انصاف کے آج کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، کیا آپ اس دور میں جانا چاہتے ہیں جس میں آپ کو انصاف میسر نہ آسکے یا جلد میسر نہ آسکے؟،ججوں کو قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے مگر قوانین کی بھی تجدیدکرنی ہوگی کیوں کہ آج بھی 19 ویں صدی کے قانون شہادت پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں اور آج بھی دستاویز پر لکھا ہوتا ہے خاتون پردہ نشین ہے،جوڈیشل اکیڈمی میں آنے والے ججوں کو سول قوانین کا علم نہیں ہوتا، قوانین میں ترامیم کرنا ہوں گی اور جدید ذرائع سے استفادہ حاصل کرنا ہوگا۔ آج شناخت اور ملکیت جیسے بنیادی حقوق بھی محفوظ نہیں ہیں اور منشا بم جیسے لوگ جائیدادیں کھا جاتے ہیں، کیا یہ بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں؟ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ50 پیسے کی لاگت کی پانی کی بوتل کے 32روپے لئے جارہے ہیں جس میں کیلشیم پورا ہے نہ ہی میگنیشیم ہے،کیا یہ آپ کے بچے کا بنیادی حق نہیں کہ وہ صاف ستھرا پانی پئے۔ جن چیزوں کا نوٹس لیا ان کا حل نہیں دھونڈ پایا ، نوٹس کا مقصد احساس پیدا کرنا تھا،ریاست کو آگاہ کرنے کے لیے عدالت ایکشن لیتی ہے، عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بڑھ گیا ہے، ہم نئے سسٹم کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہیں، تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس مزید نچلی سطح پر جائیں اور ججز مقدمات کی تاریخیں کم کریں،چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سول مقدمات کی حد تک اے ڈی آر سسٹم بہت اچھا ہے جسے سلیبس کا حصہ بنانا چاہیے،ہم نے اس سسٹم کو خود پیچیدہ کر دیا ہے اور ہمیں ہی نظام کو ٹھیک کرنا ہے، آج کے دور میں نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بیرون ملک پاکستانی کے مکان پر اس کا کرایہ دار قبضہ کرلیتا ہے اور وہ مقدمات کی طوالت سے کسی تیسری پارٹی سے تھوڑے سے پیسے لیکر راضی ہوجاتاہے۔تھر کے بچوں، وہ بچے جو غلط ادویات اور آپریشن کے دوران مرجاتے ہیں ہے کیا ان کے بنیادی حقوق نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ یہاں پر سراسر بے انصافی ہورہی ہے۔ ایک آدمی کا نقشہ فوری پاس کردیا جاتاہے اور دوسرے کے نقشے پر اعتراضات لگا لگا کر اس کی مت ماردی جاتی ہے۔