ملک کے منصف اعلیٰ جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے فیصلوں میں تاخیر اور مروجہ عدالتی نظام کے دیگر نقائص کا ایک بنیادی سبب خود ججوں اور وکلاء کا اہلیت اور فرض شناسی کے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کو قرار دینا، عدلیہ کے تانے بانے کی حیثیت رکھنے والے ان دونوں عناصر کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام گزشتہ روز ’’قانون کے نئے افق‘‘ کے زیر عنوان منعقدہ سیمینار سے خطاب میں فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا ’ ’ ہم دونوں یعنی جج اور وکیل سائلین کے استحصال کے ذمہ دار ہیں‘‘۔انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ بنیادی قوانین تک کے بارے میں بعض جج صاحبان پوری واقفیت نہیں رکھتے جبکہ وہ دوسرے تمام سرکاری ملازمین سے زیادہ تنخواہ پاتے ہیں۔ ایک جج پر حکومت ایک دن میں پچپن ہزار روپے روپے خرچ کرتی ہے اس کے باجود مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ایک ناسور بن چکی ہے ۔ انہوں نے ادنیٰ دنیاوی مفادات کی خاطر نظام عدل کے بنیادی کل پرزوں کے گٹھ جوڑ کو ان الفاظ میں بے نقاب کیا کہ’’ وکلاء سے مل کر سائلین کا استحصال کیا جاتا ہے‘‘۔ایک مقدمہ جس طرح اپیل در اپیل کے مرحلے سے گزرتا اور بسا اوقات ہر مرحلے میں تاریخوں پر تاریخیں پڑنے کی وجہ تاخیر کا شکار ہوتا ہے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے چیف جسٹس نے بتایا کہ ہمارے عدالتی نظام کے تحت ایک بیوہ کے گھر سے قبضہ ختم کرانے میں اکسٹھ سال کی طویل مدت صرف ہوئی اور یہ بھی اس وقت ہوا جب سپریم کورٹ نے خود اس معاملے کا نوٹس لے کر کارروائی کی۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشہور قول کے حوالے سے چیف جسٹس نے بجا طور پر متنبہ کیا کہ معاشرے کفر پر توقائم رہ سکتے ہیں مگر ظلم پر نہیں۔چیف جسٹس نے عشروں پرانے قوانین میں موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق ترامیم اور عدالتی کارروائی کو تیزرفتار بنانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا۔پچھلے پندرہ بیس سال سے ملک بھر میں شہریوں کے پراسرار طور پر لاپتا ہونے اور اس غیرانسانی معاملے کی روک تھام میں سسٹم کی ناکامی پر بھی انہوں نے تشویش کا اظہار کیا اوربتایا کہ تمام متعلقہ اداروں کے سربراہوں کو انہوں نے اس ضمن میں بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے تاکہ غلط بیانی کی صورت میں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکے۔چیف جسٹس نے ججوں اور وکلاء کو خود احتسابی کا راستہ اپناتے ہوئے خود اپنے گریبان میں جھانکنے کی تلقین کی۔ عدالتی نظام کو درپیش جس صورت حال کی نشان دہی چیف جسٹس نے کی ہے اس کی اصلاح کے بغیر ملک میں قانون اور انصاف کی حکمرانی کے خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا بلاشبہ امر محال ہے۔ تاہم یہ امر اطمینان بخش ہے کہ کاروانِ عدل کے قافلہ سالار کو خامیوں اور کوتاہیوں کا مکمل ادراک اور ان کے ازالے کی ضرورت کا بھرپور احساس ہے لہٰذا نقائص کے ازالے کے لئے تیز رفتار اور نتیجہ خیز اقدامات کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ گزشتہ روز ہی ذیلی عدالتوں پر ہائی کورٹس کے سپروائزری کردار سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے ریمارکس کی شکل میں ہوا۔ان کا کہنا تھا لوگ چیخ چیخ کرمررہے ہیں کہ انصاف نہیں مل رہا،لیکن کسی کو کوئی فکر نہیں، ججوں کو گاڑی، بنگلہ، تنخواہ اور مراعات چاہئیں۔لاہور ہائی کورٹ کو سپروائزری ذمہ داریوں میں کوتاہی پر متنبہ کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ اب ججوں کا بھی احتساب ہوگا،اور فرائض میں کوتاہی کے مرتکب ججوںکے خلاف آئین کے آرٹیکل209 کے تحت کارروائی ہوگی۔عدلیہ کی اصلاح کے لئے چیف جسٹس کی یہ فکرمندی قوم کے لئے یقیناً باعث طمانیت ہے تاہم اس مشن کی تکمیل کے لئے عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان مکمل تعاون ضروری ہے۔ خوش قسمتی سے آج ملک کے تمام اداروں میں مثالی ہم آہنگی موجود ہے جس کی بنا پر عدالتی نظام کی ترقی و بہتری کا راستہ پوری طرح ہموار ہے اور اہل پاکستان امید رکھتے ہیں کہ وہ جلد اپنی عدالتوں میں ہر سطح پر بہتری دیکھیں گے۔