• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے 5 اکتوبر 2018ء کو بھارت میں سالانہ سربراہی اجلاس کے موقع پر کوئی دس بلین ڈالرز کے دفاعی مواہدے کئے جس میں چار S-400 ایئر ڈیفنس سسٹمز جس کی مالیت تقریباً 5.5 بلین ہے۔ 4 واک فریگیٹ جس کی قیمت دو بلین ڈالرز اور سروس ہیلی کاپٹر K-226 جو ایک بلین ڈالر مالیت کا ہے، اس کے علاوہ 200 کیموف ہیلی کاپٹرز انڈیا میں بنائے جائیں گے اور تقریباً 60 لاکھ AK-103 سے حملہ آور رائفلیں بھارت میں تیار کی جائیں گی، اس کے علاوہ روس کی سب سے بڑی انرجی کمپنی گیس پروم کے ساتھ بھارت نے گیارہ بلین ڈالرز کے معاہدے پہلے سے کئے ہوئے ہیں، اب روسی سربراہی میں ایک کنسوریشم جس میں ایران شامل ہوسکتا ہے 13 بلین ڈالرز کے انرجی معاہدات کئے ہیں، اِن دونوں ممالک نے 2025ء تک اپنی دفاعی تجارت کو 50 بلین ڈالرز تک لے جانے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

اب امریکہ اور بھارت کے درمیان جو ’’ابتدائی دفاعی تجارت‘‘ کا معاہدہ ہوا تھا اس پر سوالیہ نشان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر بھارت کو متنبہ کیا تھا کہ اگر اس نے روس سے S-400 کا معاہدہ کیا تو اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں، مگر شاید بھارت امریکہ کے لئے چین کے مقابلے میں بہت اہم ملک ہے اور بھارت کو اپنی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے، اس نے وہ فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کیا، جس پر امریکی صدر نے ایک سطری بیان دیا ہے کہ بھارت کو S-400 معاہدہ کا نتیجہ جلد معلوم ہوجائے گا مگر صورتِ حال ہمارے سامنے ہے، بھارت نے کبھی امریکہ کی پروانہیں کی وہ روس سے ملا رہا اور پاکستان کو امریکہ کے ساتھ رہنے سے بہت سے فوائد حاصل ہوئے مگر اب وہ پاکستان سے خاصادورہوگیا ہے، اس کا اور پاکستان کا تعلق صرف یہ رہ گیا ہے کہ پاکستان مدد کرے تو وہ افغانستان سے بطور فاتح کے نکل جائے مگر شاید ایسا ممکن نہ ہو، کیونکہ امریکہ وہاں اپنے 9 زمین دوز اڈے بھی قائم رکھنا چاہتا ہے اور اُن کو برقرار رکھنے کے لئے وہ پاکستان کی مدد کا طلبگار ہے، اس لئے اگر پاکستان اور بھارت کی امریکہ کی نظر میں اہمیت کا اندازہ لگایا جائے تو بھارت کا پلڑا بہت بھاری ہے، کیونکہ بھارت امریکی مفاد کا تحفظ کرتا نظر آتا ہے اور خصوصاً اسٹرٹیجک مفاد جو چین کو محدود رکھنے کے حوالے سے ہے یا اُسے گھیرنے کا معاملہ یا جنوبی بحر چین پر بالادستی کا مسئلہ ہے وہاں اُسے بھارت کی ضرورت ہے مگر ایک بات میں کمی واقع ہوگئی ہے کہ امریکہ اپنا اسلحہ بیچنے اور روس کو بھارت سے نکال دینے میں ناکام ہوگیا ہے۔ امریکی دفاعی کمپلیکس کو شدید دھچکا پہنچا ہے، دوسرے مفادات کا ٹکرائو کا معاملہ بھی درپیش ہے، روسی اور امریکی ٹیکنالوجی دونوں خطرے میں پڑ گئی ہیں کہ بھارت دونوں کی ٹیکنالوجی اُن کے رقیب کو فراہم کرسکتا ہے، جیسا کہ براہموس ٹیکنالوجی کے معاملے میں ہوا کہ امریکہ نے وہ ٹیکنالوجی ایک بھارتی سائنسداں کے ذریعے حاصل کرلی اور پاکستان کی آئی ایس آئی کا نام لگا دیا کیونکہ بھارت کے عوام آئی ایس آئی پر الزام باآسانی قبول کرلیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کو بھارت سے کیا ملے گا، اگر روس اور بھارت اپنی دفاعی تجارت 50 بلین تک لے جانا چاہتے ہیں تو امریکی تاجروں کو خوش کرنے میں بھارت کو 75 بلین ڈالرز یا سو بلین ڈالرز کے معاہدات کرنے کی پیشکش کرنا پڑیگی ،کیا وہ اس پوزیشن میں ہے؟ شاید ہو۔اس کے علاوہ بھارت نے چین کے ساتھ ’’ودھان معاہدہ‘‘ کر لیا ہے جس کے بعد بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی گھٹ گئی ہے۔ چینی افواج بھارت کی سرحد سے ہٹا لی گئی ہیں یا اُن کی تعداد کم کردی گئی ہے۔ اس طرح جو ملک اسلحہ کی خرید کی بھارتی دوڑ میں پستا ہوا نظر آتا ہے وہ پاکستان ہے۔ S-400 کافی جدید ٹیکنالوجی کا حامل دفاعی سسٹم ہے، وہ پاکستان سے اڑنے والے ہر میزائل و جہاز کو دیکھ سکتا ہے، اُس کو نشانہ بنا سکتا ہے، پاکستان کی جو برتری یا ذرا اچھی پوزیشن وہ اُس کے محدود تباہی پھیلانے والے نصر میزائلوں اور اُس کے شاہین III میزائلوں سے حاصل ہوئی تھی، کہ بھارت کے انڈومان (کالا پانی) اور نکو بار جزائر جہاں بھارت کے ایٹمی اثاثہ جات چھپا کر رکھے گئے ہیں وہ نشانہ پر آگئے تھے، اب ایسا ممکن نہیں رہے گا، ہمارے نصر میزائل کو بھی S-400 کا دفاعی نظام بے اثر کرسکتا ہے اور شاہین کو بھی اور پاکستان شدید مالی مشکلات کا بھی شکار ہے، وہ اپنے لئے جدید ترین ہتھیار نہیں خرید سکتا۔ البتہ چین نے اُس کو 48 جدید ڈرون دے دیئے ہیں، جس سے پاکستان کو اپنے دفاع کے لئے قدرے سہولت دستیاب ہوئی ہے، پھر پاکستان کے پاس دوسرا حملہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جو اُس کو بھارت کی جارحیت سے روکنے کے لئے کافی ہے، اگرچہ بھارت کے دفاعی تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک محدود جنگ متوقع ہے، اگر ایسا ہے تو کیا روس غلطی نہیں کررہا ہے؟ وہ اپنی معیشت کو بچانے یا امریکہ کو نیچا دکھانے کے لئے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں بھارت کو مدد دے رہا ہے کیونکہ بھارت ہر اسلحہ اور دفاعی نظام پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا، ہم یہ جانتے ہیں کہ بھارت اور روس کے درمیان بہت قربت ہے مگر پھر جب شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے ممبر ہیں اور اُس کی روح یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ نہ ہونے دی جائے اور پاکستان اور بھارت کے خلاف تعلقات میں سدھار لایا جائے تو سوال یہ ہے کہ اس معاہدوں کے بعد بھارت جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کو زیر کرے اور جنگ ہوئی ہے تو کیا وہ صرف پاکستان اور بھارت تک محدود رہے گی، کیا وہ پھیل نہیں جائے گی؟ روس نے افغانستان سے 1989ء میں واپسی کرکے انسان دوست ہونے کا ثبوت دیا تھا اور اب شام میں اس کا طیارہ گرنے کے بعد تحمل کا مظاہرہ کیا کہ وہ ٹیکنیکل غلطی سے ہوگیا ورنہ تو عالمی جنگ چھڑ جاتی جس سے اس نے اجتناب کیا مگر اب بھارت کو اتنا مضبوط کرکے ایک جنگ کی طرف دنیا کو لے جارہا ہے، کیونکہ وہ بھارت کے عزائم سے واقف بھی ہے مگر وہ کس طرح اس جنگ کو روک سکے گا جب بھارت اسلحہ میں برتری حاصل کر لے گا، اس وقت صورتِ حال تقریباً مشرقی پاکستان جیسی ہوگئی ہے ،عالمی طاقتیں کسی نہ کسی طرح بھارت کی مدد کررہی ہیں مگر فرق یہ ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان سے رابطہ میں بھی ہیں اور پاکستان ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح بھی ہے اور بقا کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے اور حکمران اس وقت کے حکمرانوں سے قدرے بہتر ہیں، بہرحال صورتِ حال بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک خونریز جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے جس کو روکنا ہر ذمہ دار اور انسان دوست ملک اور دُنیا کے ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین