لاہور(نمائندہ جنگ)چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سب انسپکٹر تشدد کیس میں وکلاء کو گرفتارنہ کرنے اورمقدمات سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آئی جی پنجاب اور پنجاب بار کونسل سے تفصیلی رپوٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ میں اس ادارے کا باپ ہوں، استعفیٰ دے دوں گا مگر ناانصافی نہیں کروں گا ۔ گالیاں کھانی پڑیں تو کھالوں گا مگر انصاف کروں گا ۔کوئی وکیل قصوروار ہوا تو قانون کے مطابق فیصلہ کرینگے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے وکلاء کے رویہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے کہا کہ یہ وہ اولاد ہے جو اپنے باپ کو دھمکی دے رہی ہیں، شرم آنی چاہیے،میں باہر آرہا ہوں، جائیں اور دھرنا دیں مگر عدالت آپ کے دبائو میں نہیں آئے گی۔ عدالت نمبر ایک میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے صدر لاہور بار ایسوسی ایشن سے استفسار کیا کہ کیا پولیس والے کو تھپڑ مارنا ٹھیک ہے ؟ صدر لاہور بار نے بتایا کہ مذکورہ واقعہ کے دوران پولیس اہلکار ہی کالے کوٹ میں ملبوس کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ وکلاءکیخلاف سازش ہوئی۔دہشت گردی کی دفعات لگا دی گئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر دہشت گردی دفعات ناجائز تھیں تو میرے پاس آتے۔ واقعہ کی ویڈیو دیکھ لیتے ہیں اور پھر ذمہ دار کا تعین کرینگے،ایک بھی وکیل قصوروار ہوا تو قانون کے مطابق فیصلہ کرینگے ۔ صدر لاہور بار نے کہا کہ طے ہواتھا کہ عدالت کے اندر کی ویڈیو لیک نہیں ہونی چاہیے تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہیں ہونی چاہیےتھی؟میں دیکھوں گاویڈیو ۔ صدر بار نے جواب دیا پھر تھانوں میں بھی سی سی ٹی وی کیمرے ہونے چاہئیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے میں وہاں بھی لگوا دیتا ہوں۔ پیچھے کھڑے ایک وکیل نے کہا کہ ایسے سپریم جوڈیشل کونسل کی ویڈیو بھی لیک ہونی چاہیے جس پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم کون ہو آگے آئو اور بتائو جوڈیشل کونسل کی کونسی ویڈیو لیک کرنی ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ انکا مطلب تھا تمام اداروں کیساتھ غیر امتیازی سلوک ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے صدر بار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپکے اس عمل سے یہاں بیٹھے آپکے اس باپ کو شرم آ گئی ہے ۔جس پر صدر لاہور بار نے جواب دیا ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس سے اس ادارے کے سربراہ کی بے توقیری ہوئی ہو ۔ عدالتوں کا سب سے زیادہ احترام وکلاء کرتے ہیں۔ پولیس کا وکلاء کیساتھ رویہ افسوسناک ہے ۔تھپڑ مارنے پر 7 اے ٹی اے ٹھیک ہے۔ صدر لاہور بار نے عدالتی فیصلے تک وکلاء کیخلاف مقدمات سے دہشت گردی کی دفعات معطل کر نے اور گرفتاریاں روکنے کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ استدعا مسترد ہونے پر وکلاء نے شیم شیم کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔ جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ نعرے لگانے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ یہ وکلاء آئندہ میری عدالت میں مت آئیں۔ صدر لاہور بار نے جواب دیا کہ یہ نعرے پولیس کیلئے ہیں عدالت کے بارے میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔سیکرٹری لاہور بار نے استدعا مسترد ہونے پر کہا کہ وہ پولیس کو بھرپور جواب دینگے اور سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینگے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وہ اولاد ہے جو اپنے باپ کو دھمکی دے رہی ہیں، شرم آنی چاہیے، میں باہر آرہا ہوں ، جائیں اور دھرنا دیں مگر عدالت آپ کے دبائو میں نہیں آئیگی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پنجاب بار کونسل نے معاملے پر وکلاء کو نوٹسز جاری کیے ہیں جس پر چیف جسٹس نے قرار دیا کہ یہ تو خوش آئند ہے کہ بار معاملات پر خود کارروائی کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے روانگی سے قبل گاڑی سے اتر کر نعرے بازی کرتے وکلاء کے درمیان ہی وہاں موجود سائلین سے درخواستیں وصول کیں۔ اس موقع پر سیکرٹری لاہور بار اور دیگر وکلا ء نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب ہم آپکے سپاہی ہیں دھرنا نہیں دینگے۔