یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی پہلے کی بات ہے ،جب مدرسےکو اسکول بنا دیا گیا تھا، لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف انگریزی کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے، مثلاً’’ہیڈ ماسٹر، فیس، فیل، پاس وغیرہ ’’گنتی‘‘ ابھی ’’کونٹنگ‘‘ میں تبدیل نہیں ہوئی تھی اور ’’پہاڑے‘‘ ابھی ’’ٹیبل‘‘ نہیں کہلائے تھے۔
60 کی دَہائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں ’’خدا حافظ‘‘ کی جگہ ’’ٹاٹا‘‘ سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے ’’ٹاٹا‘‘ کہلوایا جاتا۔ زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔ عیسائی مشنری اسکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ)ا سکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی۔ سالانہ امتحانات کے موقعے پر کچھ نجی (پرائیویٹ) اسکولوں میں پیپر جب کہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا، آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔ پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اُردو زبان میں ، جو بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوا، وہ اب تک نہایت تیزی سے جاری ہے۔ اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی، ہم جماعت، کلاس فیلوز بن گئے۔
ہمیں بہ خوبی یاد ہے کہ 50 اور 60 کی دہائی میں اوّل، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم اور دہم، جماعتیں ہوا کرتی تھیںاور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔ پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لبادہ اوڑھ لیا اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔ تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔ چھٹیوں کا کام ہولیڈے پریکٹس ورک ہو گیا ۔ پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔ امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے۔ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں۔اب طلباء امتحان دینے کے لیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ اسٹوڈنٹس ایگزام کے لیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔ قلم، دوات، سیاہی، تختی، اور سلیٹ جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل، جیل پین اور بال پین آگئے- کاپیوں پر نوٹ بکس کا لیبل ہوگیا۔نصاب کو کورس کہا جانے لگا اور اس کورس کی ساری کتابیں بستے کے بہ جائے بیگ میں رکھ دی گئیں۔ ریاضی میتھس ،اسلامیات اسلامک اسٹڈی، طبیعیات، فزکس ، معاشیات، اکنامکس اورسماجی علوم، سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئے۔پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس اسٹڈی کرنے لگے۔ پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔ اساتذہ کے لیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔داخلوں کے بہ جائے ایڈمشنز ہونے لگے۔اول، دوم، اور سوم آنے والے طلبہ؛ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والےا سٹوڈنٹ بن گئے۔ پہلے اچھی کارکردگی پر انعامات ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔ بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔ یہ سب کچھ سرکاری اسکولوں میں ہوا ہے۔باقی رہے پرائیویٹ اسکول، تو ان کا پوچھیے ہی مت۔ ان کاروباری مراکز ِتعلیم کے لیے کچھ عرصے پہلے ایک شعر کہا گیا تھا،
مکتب نہیں، دکان ہے، بیوپار ہے
مقصد یہاں علم نہیں، روزگار ہے۔
اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔ زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔ خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔ باورچی خانہ کچن بن گیا اور اس میں رکھےبرتن کراکری کہلانے لگے۔ غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔ مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ مکانوں میں پہلی منزل کو گراؤنڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔ دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا، پہلے مہمانوں کی آمد پر گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔ کمرے روم بن گئے، کپڑے الماری کےبہ جائے کپبورڈ میں رکھے جانے لگے۔
’’ابو جی‘‘ یا ’’ابا جان‘‘ جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا، ہر طرف ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپّا، پاپے کی گردان لگ گئی ،حالاں کہ پہلے تو پاپے(رسک) صرف کھانے کے لئے ہوتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں- اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ ’’امی‘‘ یا امی جان ’’ممی‘‘ اور مام میں تبدیل ہو گیا۔ سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔ چچا، چچی، تایا، تائی، ماموں ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ ’’انکل اور آنٹی‘‘ میں تبدیل ہوگئے۔ بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے۔ یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔ ساری عورتیں آنٹیاں، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے، نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔ نہ جانے ایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا ،یعنی گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے بھی ماسی کہلاتی تھیں اب بھی ماسی ہی ہیں۔گھر اورا سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے۔ دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے، آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے ،جس کی وجہ سے لوگوں نےخریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔ سڑکیں روڈز بن گئیں،کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی، یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا گیا۔ کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا، نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔ ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے،پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ اب آفس بن گیا اورماہانہ تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی ، جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں، بابو کلرک اور چپراسی پیون بن گئے۔ پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے ،اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا۔سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگااور محبت کو ’لَوّ‘ کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔ صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔ کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔
اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمےدار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوب صورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا ہے۔ وہ الفاظ جو اس زبان میں پہلے سے موجود اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں
وائے ناکامیِ متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟دوسروں کا کیا رونا روئیں، ہم خود ہی اس کے ذمےدار ہیں۔ بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل دفن کر دیا اور مسلسل دفن کرتے جا رہے ہیں، روز بروز یہ عمل تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔روکیے، خدا را روکیے، ارود کو مکمل زوال پزیر ہونے سے روکیے۔قومیں اپنی قومی زبان کو پروان چڑھا کر ہی ترقی کرتی ہیں۔ جاپان اور چین اس کی زندہ مثال ہیں۔’’یو نو وٹ آئی مین‘‘
نوٹ: براہِ کرم تحریر کے ساتھ اپنا نام لکھنا ہر گز نہ بھولیں۔