رضی الدین خان
پاکستان میں ٹیلی ویژن ایوب خان کی حکومت میں آیا۔ 1964 میں لاہور اور ڈھاکہ میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہوئے اور باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا۔ اس سے قبل 1952 میں پاکستانی عوام نے کراچی کی ایک صنعتی نمائش میں پہلی بار تجرباتی طور پر ٹی وی نشریات کا مشاہدہ کیا تھا۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے بار بار وضاحت کی گئی کہ اس طاقتور ذریعےکو پاکستان میں تعلیم عام کرنے اور اسے فروغ دینے کیلئے استعمال کیاجائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک قومی ضرورت تھی اس لئے اس کا قیام ناگزیر تھا۔ اس فیصلے سے چند سال قبل ہی ترکی کی حکومت نے ٹی وی کے بجائے اسٹیل مل کے قیام کو ترجیح دی تھی۔ گرچہ ٹی وی نشریات اور ڈیکاراما جیسے منصوبے ایوب حکومت کو زوال سے نہ بچاسکے البتہ ٹی وی نے پاکستان میں اپنی جڑیں قائم کرلیں اور ابلاغ کے ایک انتہائی موثر اور طاقتور ذریعے کے طور پر اپنی اہمیت منوالی۔ بعد کے حالات اور حکومتی پالیسیوں سےیہ حقیقت ظاہر ہوگئی کہ تعلیم اور خواندگی کے فروغ والے بیانات محض عوام کو خوش کرنے کیلئے دیئے گئے تھے۔ ان کا نیت اور حکومتی پالیسی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ آج بھی ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان کے سرکاری اور پرائیوٹ چینلز تعلیم اور خواندگی کا تناسب بڑھانے کیلئے کس قدر خدمات انجام دے رہے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ ان ہی دو فرائض کے سوا ٹی وی چینلز ہر طرح کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔پاکستان میں ٹی وی تو آنا ہی تھا اور یہ برا نہیںہوا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے طاقتور ذریعے کو پاکستان میں خواندگی میں اضافے کیلئے استعمال کرنے کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا ۔
سرکاری طور پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں خواندگی کا تناسب 35 فیصد ہوگیا ہے لیکن اس تناسب میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسی بھی زبان میں اپنا نام لکھ سکتے ہیں اور ناظرہ قرآن پاک پڑھ لیتے ہیں۔ اگر میٹرک پاس کو خواندگی کا پیمانہ بنایا جائے تو پاکستان میںخواندگی کا تناسب دس بارہ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اکیسویںصدی کی یہ صورتحال شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے پڑوسی ممالک بھارت میں ساٹھ فیصد،بنگلہ دیش میں اسی فیصد اور سری لنکا میں سو فیصد خواندگی ہے۔ تعلیم اور خواندگی کےبغیر دنیا کا کوئی ملک کسی قسم کی ترقی نہیںکرسکتا۔ جاپان کی شاندار ترقی اور خوشحالی کا راز تعلیم ہی ہے۔ پاکستان کی آبادی اگر سو فیصد تعلیم یافتہ ہوجائے تو ہمارے اسی فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں اور یہ مقصد حاصل کرنا ناممکن نہیں ۔
پاکستان کی حکومت اور عوام اگر یہ تہیہ کرلیں کہ 2020 تک خواندگی کا تناسب سو فیصد تک لے جانا ہے اور یہ خواندگی اس حد تک ہوکہ ہر پاکستانی خط لکھ سکے، اخبار اور کتابیں پڑھ سکے تو یہ باکل ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے حکومت اور میڈیا سمیت تمام طبقوں کو بھرپور جدوجہد کرنا ہوگی اور ایک تین سالہ کریش پروگرام پر عمل کرناہوگا۔ اس کریشن پروگرام کا نام ’’سن دو ہزار بیس تک سو فیصد خواندگی‘‘ یعنی Till 2020-Cent percent literacy تجویز کیا جاسکتا ہے۔
اس مشن کو شروع کرنے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کثیر سرمائے کی ضرورت ہوگی اور اسے روایتی طریقہ کار کے بجائے ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر چلانا ہوگا کیونکہ ہمیں قدیم اور پختہ جہالت کو اکھاڑ پھینکنے کےلئے جنگ تو کرنا ہوگی۔بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم پر صرف کرنا ہوگا،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے سو فیصد خواندگی میں مالی تعاون کی اپیل کی جاسکتی ہے،یورپ، امریکا اور مشرقی وسطیٰ میںایسے کئی متمول اور صاحب ثروت پاکستانی موجود ہیںجو پاکستان کو سو فیصد خواندہ بنانے کیلئے خاطر خواہ تعاون کرسکتے ہیں۔
سو فیصد خواندگی کا ہدف حاصل کرنے کیلئے اصل بیڑہ تو حکومت ہی کو اٹھانا ہوگا البتہ میڈیا سمیت معاشرے کے تمام طبقوں سے اس کی پشت پناہی کی ضرورت ہوگی۔اس مشن کا پہلا مرحلہ یہ ہو کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے تمام ذرائع سے اس بات کا اعلان کیا جائے کہ پاکستان کو سن دو ہزار بیس تک سو فیصد خواندہ بننا ہے۔ اس موثر اور طاقتور سلوگن یعنی نعرہ کو پاکستان کے ہر گھر اور ہر فرد تک پہنچایا جائے اور ہر پاکستانی کو جھنجھوڑ دیاجائے کہ اس سلسلے میں اسے اپنی ذمہ داری ادا کرناہے۔ہر پاکستانی کے کان میں بار بار یہ بات ڈالی جائے کہ اسے تین سال کے اندر اخبار پڑھنے اور خط لکھنے کی حد تک تعلیم لازمی حاصل کرنا ہوگی۔ اس مہم کو ہمہ جہت اور ہمہ رخ بنانے کیلئے ہر ذریعے اور ہر وسیلے کو استعمال کرنا ہوگا۔ اس حکمت عملی کی تفصیل کچھ یوں مرتب کی جائے۔
سروے اور ڈیٹا: سب سے پہلے سروے اور اعداد و شمار اکھٹا کیاجائے۔ اس سلسلے میں مردم شماری کی طرح سرکاری تعلیمی اداروں کے عملے سے مدد لی جاسکتی ہے۔ حال ہی میں ہونے والی مردم شماری کے ریکارڈ سے بھی خاصی مدد مل سکتی ہے۔ حکومت ملک کے شہروں،گائوں اور دور افتادہ علاقوںمیں رہنے والے ناخواندہ افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنےوالے پاکستانیوں کیلئے کسی رغبت کا اعلان کیاجائے مثلاً ایک ناخواندہ فرد کا نام بتانے یا رجسٹر کرانے والے کو دس روپے یا بیس روپے فی کس انعام دیا جائے۔ اس طرح پورے پاکستان سے ناخواندہ افراد کی ٹھیک ٹھیک تعداد کا علم ہوجائے گا۔ مردم شماری کے ریکارڈ میں جو نام پہلے سے موجود ہیں انہیں انعام سےمستثنیٰ رکھا جائے اس طرح اعداد و شمار کی ڈپلی کیشن نہیں ہوگی اور یوں ناخواندہ افراد کے بارے میں صحیح سروےہوسکے گا۔
خواندگی مہم میں حصہ لینےوالے رضاکار: نوجوان طالب علموں سے اپیل کی جائے کہ وہ خواندگی کی اس قومی مہم میں رضاکارانہ طور پر شریک ہونے کیلئے اپنے نام درج کرائیں۔ ٹاسک یہ دیا جائے کہ ہر پڑھا لکھا شخص اور طالب علم سال بھر میں صرف ایک فرد کو خط لکھنا اور اخبار پڑھنا سکھائے گا۔ اس سلسلے میں حکومت اور میڈیا کو اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ حوصلہ افزا کارکردگی دکھانے والے افراد کے گروپ انٹرویوز کئے جاسکتے ہیں۔
تعلیمی ادارے: پاکستان کے طول و عرض میں سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارتیں موجود ہیں ، کم از کم پرائمری اسکولز گائوں کی سطح تک ضرور ہیں۔ان عمارتوں میں شام کے وقت تعلیم بالغاں اور نئی روشنی اسکولوں کی طرز پر دو گھنٹے کی کلاسیں شروع کی جاسکتی ہیں۔ ان کلاسوںمیں انگریزی اور اردو کے حروف تہجی اور گنتی سے تعلیم کا آغاز کیا جائے۔چھوٹے شہروںاور گائوں کی سطح تک پاکستان کی ستر فیصد آبادی ان اسکولوں تک رسائی حاصل کرسکتی ہے۔یہ کلاسیں ہفتے میں صرف دو دن ہوں اور ان میں تعلیم دینے والے رضاکاروں کو حکومت کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر ادائیگی کی جائے۔ ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات ان ناخواندہ افراد کو ترغیب دلانے میں فعال اور موثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔ یہ نشریات پاکستان کی نوے فیصد آبادی کا احاطہ اور ان پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔
الیکٹرونک میڈیا: اس دور میں الیکٹرونک میڈیا کی طاقت کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہے؟ آج سے پچپن سال پہلے انڈونیشیا کے مرد آہن اور بابائے قوم ڈاکٹر عبدالرحیم احمدسوئیکارنو نے ایک مرتبہ کہا تھا ’’اگر میں چاہوں تو میڈیا کی طاقت سے کام لےکر ایسا سحر طاری کرسکتا ہوںکہ لوگ پتھر اور درختوں کے پتے کھانےلگیں۔‘‘ ان اداروں سے بنیادی خواندگی کے دلچسپ اور مزیدار پروگرام پیش کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی شعبے میں ایسےماہرین موجود ہیں جو ان پروگراموں کی تیاری میں مدد دے سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارے بھی اس مہم میںمالی تعاون کرسکتے ہیں۔ ان چینلوں سے ہفتے میں دو بار آدھا گھنٹے کے پروگرام شروع کئے جاسکتے ہیں۔
قومی و علاقائی اخبارات و رسائل:پاکستان کے قومی و علاقائی اخبارات اور رسائل بھی ناخواندگی کا خاتمہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں ہفتے میں صرف ایک بار ایک صفحے کا خواندگی سبق شائع کیا جائے اور یہ ادارےاپنے قارئین سے اپیل کریںکہ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تمام ناخواندہ افراد کو یہ صفحات پڑھوائیں۔ پاکستان کی ایک بڑی آبادی اخبارات کا مطالعہ کرتی ہے وہ یہ فرض خوش اسلوبی سے انجام دے سکتی ہے۔
لائبریریاں اور کتب خانے:پاکستان میں بڑے شہروں کے علاوہ ضلع اور تحصیل کی سطح تک لائبریریاں اور کتب خانے قائم ہیں۔ان میں ناخواندہ حضرات کیلئے خواندگی کی کلاسیں شروع کی جاسکتی ہیں۔ مدارس اور دارالعلوم:پاکستان میںتقریباً پچاس ہزار مدارس اور دارالعلوم ہیںجو عربی زبان کی تعلیم دیتے ہیں، یہ سب خواندگی کی اس مہم میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان میں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم بھی دی جائے۔
’’دو ہزار بیس تک سو فیصد خواندگی‘‘ کی یہ قومی مہم اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے جب پاکستان کی وفاقی حکومت ایک بااختیار اور خودمختار ’’لٹریسی فائونڈیشن‘‘ قائم کرکے اسے مالی و انتظامی اختیارات دے اور کسی ایماندار اور کڑک بیوروکریٹ کو اس کا سربراہ نامزد کرے۔ اے کاش اگر ایسا ہوجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی ایک سو فیصد خواندہ ملک نہ بن سکے۔ اےکاش۔