اقراء ہاشمی
پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے، جہاں آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔کسی بھی ملک میںنوجوان ایک ایسی طاقت کا سرچشمہ ہوتےہیں ،جو اس ملک کے سماجی ڈھانچے،معیشت اور روزمرہ زندگی کو بکھرنے نہیں دیتے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں نوجوانوں کوایسا خام مال سمجھا گیا جو خود کوئی شکل رکھتا ہے اور نہ حیثیت ،بلکہ صرف دوسروں کے کام آتا ہے۔خاص طور پرسیاسی نظام میں نوجوانوں کا کبھی کوئی عمل دخل نہیں رہا۔سیاسی جماعتوں نے بڑی چالاکی سے اسٹوڈنٹس ونگ بنا کر نوجوانوں کو ان تک محدود رکھا اور عملی سیاست میں ہمیشہ بڑی عمر کے لوگ اپنا سکہ جماتےرہے،نہ نئے لوگوں کو آنے دیااور نہ ہی نوجوانوں کو شامل کیاگیا۔ہرحلقے میں مخصوص جماعتوں کی اجارا داری قائم رہی ،یوںاقتدار نئی نسل کو کبھی نہ منتقل ہو سکا۔یہ حالات پچھلے کئی برسوں سے ایسے ہی تھے لیکن حالیہ انتخابات کے نتیجےمیں صورت حال بالکل بدلی ہوئی نظر آرہی ہے۔ انتخابات میںنوجوان سیاست ، حالات حاضرہ اور سیاسی معاملات میں دل چسپی لیتے ہوئے نظر آئے،تما م سیاسی جماعتوں نے نوجوانوں کو ہی مخاطب کیا ، انہیں انتخابی مہم کا حصہ ہی نہیں بنایا بلکہ الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ بھی جاری کیے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہماری اسمبلیوں میں ادھیڑ یا بزرگ سیاست دان کے ساتھ نوجوان بھی بڑی تعدادا میں نظر آرہے ہیں۔آج اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ انتخابات میں نوجوانوں نے بھرپور شرکت کی ۔اب نظریات تبدیل ہو رہے ہیں۔ نوجوانوں نےبتادیا کہ فیصلہ کن طاقت اب ہم ہیں، یہ ہی تو جمہوریت کا حسن ہے۔یہ مثبت سوچ ہی ہے کہ سیاست میں نیا خون شامل ہو چکا ہے، کہیں نوجوان قیادت سامنے آئی ہے، تو کہیں مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان پہلی مرتبہ اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔یہ اس بات کی غمازی ہے کہ اب پرانی طرز سیاست میں بدل رہی ہے۔نوجوان ووٹ ڈال کرآرام سے نہیں بیٹھے ہیں، ان کی نظریں موجودہ حکومت اور ان کے وعدوں پر جمی ہوئی ہیں ۔ یہ جمہوریت ہی کا حسن ہے کہ اس نے عوام بالخصوص نوجوانوں میں یہ شعور بیدار کیا کہ اب استحصالی نظام کو بدلنے کا وقت آ گیا ہے،وہ اب اس ملک و قوم کے حالات بدلتے دیکھنا چاہتے ہیں،وہ ایک نیا اور شفاف نظام،باعزت روزگار، سستی و معیاری تعلیم،کی خواہش مند ہے۔ ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ ہماراملک نوجوان افرادی قوت سے مالا مال ہے،جنہیں اداراوں پر اعتماد ہے اور جو ملک و قوم کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ملک کے بزرگوں کو خوش ہونا چاہیےکہ ان کےجیتے جی نوجوان نسل اس ملک کا بار اٹھانے اور اس کے دیمک زدہ استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیےتیارہے، اس نے اپنے وجود کو منوا لیا ہے، گویا پہلی کام یابی حاصل کر لی ہے۔ سیاست اور جمہوریت سے نسل نو کی وابستگی ،اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ ہمارا ماضی جیسا بھی ہے ،کم از کم مستقبل ضرور بہتر ہوگا۔