• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیاقت راجپوت

اگر یہ کہا جائے کہ 1995 تا 2000کا دورحیدرآباد تھیٹر کے عروج کا دور تھا، تو بے جا نہ ہوگا۔ اُس وقت سالانہ، 50سے 60اسٹیج ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ ڈراما فیسٹیولز کا انعقاد تواتر سے کیا جاتاتھا ۔لیکن تقریباًدو دَہائیوں سے اسٹیج ڈرامے تنزلی کا شکار ہیں۔اپنی حقیقی ادبی و ثقافتی حیثیت کھو بیٹھے ہیں۔ پہلے دور میں تھیٹر یا اسٹیج ڈراما دیکھنے کے لیے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ جاتے تھے ، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ایک جانب تھیٹر کو نامساعد حالات کا سامنا ہے ، تو دوسری جانب گزشتہ دو دہائیوں سے امن و امان کی جو صورت حال نے بھی تھیٹر سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی پر منفی اثرات مرتب کیے،نتیجتاً تھیٹر و سینما کی جگہ اِن ڈور گیمز، ٹی وی اور وی سی آر جیسی تفریحات نے لے لیں،۔ جس کی وجہ سےتھیٹر اور سینما کی سر گرمیاں معدوم ہوگئیںان تمام حالات کے باوجود علم و ادب کے پروانوں نے اور فن و ثقافت کے دیوانوں نے اس شمع کو گل نہیں ہونے دیا۔ مہران آرٹس کونسل لطیف آباد، ممتاز مرزا آڈیٹوریم، سندھ میوزیم حیدرآباد اور اوپن ائیر تھیٹر حیدرآباد ان سرگرمیوں کا مرکز بنے رہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وقت و حالات میں تبدیلی اداروں کی تباہی کا موجب بھی بنتی ہے ،تو ترقی کے نئے راستے بھی کھولتی ہے۔ کشیدگی اور بد امنی کا یہ سیاہ دور اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے گیا۔ شہر کے 22سینما گھروں میں سے 20ختم ہوگئے ،آج صرف 2سینما گھر ہیںاور اسٹیج ڈراموں کی سرگرمیاں محض مہران آرٹس کونسل لطیف آباد تک محدود ہوگئیں۔

حیدرآباد کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ، نہ صرف قیام پاکستان کے وقت بلکہ اس سے پہلے بھی یہاں فن کار منڈلیاں تھیں، اسٹیج ڈرامے ہوم اسٹیڈ ہال حیدرآباد ، میٹھا رام ہاسٹل حیدرآباد، گورنمنٹ کالج کالی مور آڈیٹوریم، سندھ ساہتیہ منڈل، مسلم ہائی اسکول، نیو کلاتھ مارکیٹ حیدرآباد اور بسنت ہال حیدرآباد میں پیش کئے جاتے تھے۔ ان کے علاوہ سینٹ میری ہال اور ناری سبھا (لیڈیز کلب حیدرآباد) میں بھی ان کا انعقاد ہوتا تھا۔ بعد ازاں اوپن ائیر تھیٹر حیدرآباد، مہران آرٹس کونسل لطیف آباد، ممتاز مرزآڈیٹوریم، سندھ میوزیم حیدرآباد، بسنت ہال اور دیالداس کلب حیدرآباد بھی ڈراموں کا مرکز بنے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں نیو میجسٹک سینما حیدرآباد تو تھیٹر ہی تھا۔ ان پلیٹ فارمز سے انتہائی مقبول اور بامقصد کھیل پیش کیے گئے ،جو ڈرامہ نگاری کی تاریخ کا عظیم ورثہ ہیں۔ مایہ ناز ڈرامیٹک سوسائیٹیوں میں سندھ کالج اسٹوڈینٹ ناٹک منڈلی (1894) وکیلو ں کی منڈلی حیدرآباد پلیڈرس کلب (1905) میں قائم ہوئیں۔ ناٹک منڈل (1906) میں، ام میچیور ناٹک منڈل 1912، نیشنل کالج سوسائٹی 1918، ینگ سیٹزن سوسائٹی 1924، ینگ مین ڈرامیٹک سوسائٹی 193، پر بھارت آرٹ سرکل 1970، سندھ آرٹ اینڈ ڈرامیٹک سوسائٹی 1947، میں ارڑنگ کلب 1960، شاہ لطیف ڈرامیٹک سوسائٹی 1975، سندھ آرٹس فورم 1979، علی زیب ڈرامیٹک سوسائٹی 1980، آرٹ کرئیٹرز 1986، صدف آرٹس سرکل 1987، اور دی آرٹس کونسل آف حیدرآباد 2016 میں وجود میں آئیں۔

کہا جاتا ہے کہ ماضی میں حیدرآباد کے ادبی ،ثقافتی اور تعلیمی ماحول میںتھیٹر ایک تربیت گاہ کی سی حیثیت رکھتا تھا،جہاں فن کار اسرار و رموز کی تربیت حاصل کرتے اور ادب و فن کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے تھے ۔اس ادارےنے فلم، ٹی وی اور اسٹیج کو کتنے ہی عظیم فن کار دئیے،

لیکن تھیٹر و اسٹیج ڈراموں کے زوال پزیر ہونے سے اب پایہ کے فنکار پیدا نہیں ہورہے۔ اسی طرح اسلم راہی، شفقت بکاری، شاکر کمال، مراد کاشف اور ضیاالرحمان جیسے اسٹیج ہدایت کاروں نے بڑا نام کمایا لیکن اب ان جیسے ہدایت سامنے نہیں آرہے۔

حیدرآباد تھیٹر میں ایک مثبت رجحان یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اب کراچی و حیدرآباد کے فن کار مل کر حیدرآباد میں مشترکہ پروگراموں کا انعقاد کررہے ہیں، جس سے تھیٹر کی رونق میں اضافہ ہوا ہے، نیز یہ کہ شائقین کی ایک بڑی تعداد بھی ان میں شرکت کرنے لگی ہے۔ اسے شہر کی محبوس فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا جاسکتا ہے۔ حیدرآباد کے فن کاروں،ادبی سرگرمیوں،ڈراما ہالوں اور اوپن ائیر تھیٹر کا ذکر ہواوراسٹیشن روڈ کےقریب ہوٹل کا ذکر نہ ہو ،توبات ادھوری لگے گی، کیوں کہ یہ ہوٹل قدیم دور ہی سےحیدر آباد کے فن کاروں کی بیٹھک رہا ہے،جو صبح سویرے سے رات گئے تک کھلا رہتا ہے۔ ماضی میں  یہاں شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار، صحافی اور تھیٹر آرٹسٹ سمیت فن کاروں اور قلم کاروں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا۔ مقامی فن کار ہوں یا بیرون شہر سے حیدرآباد آنے والے قلم کا، سب کا ٹھکانہ یہی ہوتا تھا۔ ٹھنڈی شاموں والے اس پر امن شہر میں شاعروں، ادیبوں، فن کاروں ، طلباء، سیاسی رہنما، مزدور رہنمائوں اور ٹریڈ یونینوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور شخصیات شہر کے اسی مرکزی علاقے میں واقع مختلف ہوٹلوں میں بیٹھا کرتے تھے،لیکن اب یہ ماحول ختم ہوچکا ہے۔ اب شہر میں ان افراد اور شخصیات کا قال ہے۔خوش قسمتی سے ’’فردوس چائے ہوٹل‘‘ اب بھی آباد ہے۔ یہاں آج بھی فن کاروں کی مجلسیں سجتی ہیں۔علم و فن کے وہ دیوانے جو اس شہر کی شان تھے،آج دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ تعلیمی اداروں میں ہونے والے مشاعرے، مباحثے، سیمینار، ادبی محافل اب ماضی کا فسانہ ہیں۔ سینما کی صنعت تو مکمل طورپر تباہ ہوگئی، لیکن ان حالات میں بھی امید کی کرن ختم نہیں ہوئی۔

حیدرآباد تھیٹر جو مختلف وجوہات کی بنا پر کمرشل نہ بن سکا۔ نتیجتاً ڈرامہ اسی طرح روبہ زوال ہوا کہ وہ انٹرٹینمینٹ شو بن گیا۔یہ صورت حال فن کاروں، ادیبوں اور دیگر قلم کاروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اس لیے انہیں تھیٹر کو انٹر ٹینمینٹ پروگرام سے ایک بار پھر اصلاحی اور بامقصد اسٹیج ڈراموں میں تبدیل کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ شہر میں اوپن ائیر تھیٹر اور ہالوں کی شکل میں سہولتیں مہیا کریں۔ حیدرآباد کے چاروں تعلقوں ،رانی باغ، سندھ میوزیم، سندھی لینگویج اتھارٹی ہال، نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد، حیدرآباد کلب ٹائپ کے پارک، میوزیم ، ڈرامہ، ہالوں، تھیٹربنائے جائیں تاکہ تفریحی سہولتیں شہر کے تمام علاقوں میں یکساں طورپر موجود ہوں، کیوں کہ ماضی کی سستی و آسان تفریح اسٹیج و تھیٹر کی بحالی کا یہی ایک ذریعہ ہے۔

تازہ ترین