• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تصور شاد راجپوت

جام شورو میں دریائے سندھ پر غلام محمد بیراج اور وہاں قائم ’’المنظر‘‘ ہریالی وخشک سالی اور ماضی سے جڑے کئی واقعات وحادثات اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے ہاتھوں افتتاح اور ان ہی کے نام سے منسوب کردہ،’’ غلام محمد بیراج‘‘ کو کوئی ان کے نام سے یاد نہیں کرتا۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ خان بہادر ایوب کھوڑو نے اپنی کابینہ کے صوبائی وزیر پیر علی محمد راشدی کی تجویز پر عین افتتاحی تقریب میں بیراج کا نام ’’ غلام محمد بیراج‘‘ کااعلان کیاتھا، لیکن ادارہ محکمۂ آب پاشی ،سندھ کی خط وکتابت میں اسے ’’ کوٹری بیراج‘‘ لکھا گیا۔کہلاتا ہے،جب کہ عوام میں یہ جام شورو پل یا المنظرکے نام سے مشہور ہے۔ دریا کے کنارے پرذرا اونچائی سے تعمیرکی گئی ایک عمارت کو المنظر کا نام دیا گیا ہے، جہاں ساراسال رونق لگی رہتی ہے، لیکن مون سون کی برسات کے دنوں میں یہاںمیلے کا ساسماں ہوتا ہے۔ لوگ فیملی کے ساتھ جوق درجوق آتے ہیں، دریا کی موجوں کا نظارہ اور کشتیوں میں سیر کرتے ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ 

سندھ یونیورسٹی، لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، مہران یونیورسٹی آف انجیئنرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سمیت متعدد پیرا میڈیکل انسٹی ٹیوٹز میں زیر تعلیم نوجوان بھی ’’ المنظر ‘‘کو دیکھنے آتے ہیں۔ سندھ کے جنوبی علاقوں( لاڑ) میں ہریالی اور خوش حالی خصوصاً سندھ بھر میں ضلع بدین کو گنے، چاول، ٹماٹر اور خربوزے وغیرہ کی فصلیں دینے، کا اعزازکوٹری بیراج کو حاصل ہے۔اس کی تعمیر سے پہلے کوٹری سے گھارو اور سیری سے کڈھن تک ٹنڈو محمد خان، بدین ، سجاول اور ٹھٹھہ کے اضلاع میں لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی پانی نہ ملنے کے باعث بنجر پڑی ہوئی تھی، اب محکمہ آب پاشی سندھ کے2016.17کے اعداد وشمار کے مطابق ان علاقوں میں 60 لاکھ ایکٹر سے زائد اراضی کوٹری بیراج کے پانی سے مستفید ہوتی ہیں، جب کہ نہری نظام کے تحت کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع میں پینے کے پانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ بھی کوٹری بیراج ہی ہے۔ 

60فیٹ لمبے 35فیٹ چوڑے ستونوں کے درمیان 44دروازوں پر مشتمل تقریباً 9 ہزار 284 فٹ طویل کوٹری بیراج کے ابتدائی ڈیزائن میں تقریباً پونے9لاکھ کیوسک پانی کے بہاو ٔکی ماہرانہ تجویز شامل تھی، لیکن محکمہ آب پاشی کے اعدا و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ1956میں آئے سیلاب کے دوران 9 لاکھ 81 ہزار کیوسک، جب کہ 2010کے سیلاب میں9لاکھ64ہزار 874 کیوسک پانی کوٹری بیراج سے گزارا گیا ۔کوٹری بیراج سے مذکورہ علاقوں میں کاشت کاری اور پینے کے مقاصد کے لیے پانی کی فراہمی اور تقسیم کے نظام کے لیے چار کینالز نکالے گئے ،جن میں سے دائیں کنارے پر واقع کلری بگھار کینال( کے بی فیڈر) میں بیراج میں پانی کی دست یابی کی صورت میں روزانہ14ہزار کیوسک پانی چھوڑا جاتا ہے ،جو کوٹری شہر کے درمیان سے گزرتا ہوا ٹھٹھہ اور سجاول کے علاقوں کو سیراب کرتا ہے، یہی وہ کینال ہے ،جس کے ذریعے کینجھر جھیل میں پانی چھوڑا جاتا ہے۔جہاں سے تقریباً ایک ہزار کیوسک پانی روزانہ کراچی واٹر بورڈ کے سسٹم میں چلا جاتا ہے، جو کراچی کے شہریوں کو پینے کے لیے فراہم کیا جاتا ہے، اسی طرح کوٹری بیراج کے بائیں کنارے پربھی تین کینالہ پھیلائی، پنیاری اور اکرم واہ نکالی گئیں۔ یہ تینوں کینالز بھی کوٹری بیراج سے روزانہ تقریباً 32ہزار کیوسک پانی حاصل کرتےہیں۔ حیدرآبادکے شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے حیدرآباد ڈوپلپمنٹ اتھارٹی کا ذیلی ادارہ ،واسا پھلیلی اور اکرم واہ سے روزانہ ساڑے3سو کیوسک پانی اپنے سسٹم میں لاتا ہے۔ لاڑ کے چاروں اضلاع کی زراعت کا بیش ترانحصار ان کینالز پر ہے۔

کئی نام ور شخصیات نے المنظر کا دورہ کیا اور اپنی اپنی یادیں سمیٹ کر یہاں سے چلی گئیں، آج بھی لوگوں کا جھرمٹ اس جگہ پر آتا اور روز مرّہ کی پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیےکچھ وقت یہاں گزارتا ہے۔

تازہ ترین