• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرخ ریاض بٹ، لاہور

’’تبدیلی اور بہتری‘‘ نئی حکومت کا وعدہ ہے۔ جہاں ہر ہر شعبے میں اصلاحات کی بات کی جارہی ہے، وہیں کئی بار خصوصیت کے ساتھ اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ ’’پاکستان کو ’’ریل سیّاحت‘‘ کے ذریعے ملکی و غیر ملکی سیّاحوں کے لیے جنّتِ نظیر بنایا جائے گا۔ نیز، پاکستان بھر میں تو اربوں درخت لگائے ہی جائیں گے، ملک بھر کے ریلوے ٹریکس کو بھی خوب سرسبز و شاداب کردیا جائے گا۔‘‘ مگر ان دعووں کے برعکس ریلوے کے وفاقی وزیر، شیخ رشید احمد نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ گجر خان سے جہلم تک 56میل کے علاقےکے (جہاں ریلوے کا zip-zطرز کا برطانوی ریلوے ٹریک، لاکھوں گھنے درختوں کے سائے تلے چلتا ہے) دل فریب پہاڑی سلسلے کو ختم کرکے بالکل سیدھی ریلوے لائن بچھادی جائے گی۔ یوں لاہور سے پنڈی تک کے سفر کا دورانیہ ایک گھنٹہ کم ہوجائے گا اور مجوّزہ منصوبے پر 10ارب روپے سے زائد لاگت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ایک تو پہلے ہی بدقسمتی سے پاکستان میں ’’ریل سیّاحت‘‘ مفقود ہے،پھر گجرخان سے جہلم تک 56میل پر محیط جو ایک خوب صورت پہاڑی سلسلہ ہے، جہاں لاکھوں درخت، ندی نالے، قدرتی چشمے اور پہاڑ واقع ہیں اور یہاں برطانوی دور کے ریلوے انجینئرز نے اپنی محنت اور کمالِ مہارت سے نہ صرف خوب صورت سرنگیں((tunnels بنائی ہیں بلکہ zip-z طرز کاریلوے نظام بھی متعارف کروایا ہے، تو اب اگر لاہور سے راول پنڈی کافاصلہ اور وقت کم کرنے کے لیے اس علاقے میں تعمیر شدہ ٹریک کو ختم کردیا گیا، تو اس عمل کو کسی بھی طرح دانش مندی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ بہتر تو یہ ہے کہ10ارب روپے کی اس خطیر رقم سے ایک فضول منصوبہ شروع کرنے کے بجائے اسے ڈیم کی تعمیر میں بہ طور عطیہ دے دیاجائے۔

ایک وقت تھا کہ جب سیّاحت کے فروغ کے ضمن میں ریل گاڑی کی اہمیت مسلّم تھی۔ سیّاحوں کی اوّلین ترجیح ریل سیاحت ہی ہوا کرتی کہ ایک ریل ہی تھی، جونگری نگری ،قریہ قریہ گھمایا پھرایا کرتی، لیکن پھر بدانتظامی، کرپشن اور بے توجہی کے باعث یہ محکمہ تنزلی کا شکار ہوتے ہوتے تباہی کے دہانے تک پہنچ گیا، تو اس کا اثر جہاں عام مسافروں پر پڑا، وہیں ریل سیّاحت بھی دم توڑنے لگی۔ کسی زمانے میں پشاور سے لنڈی کوتل، لوارگی، لنڈی خانہ اور توراتیگہ تک ریل گاڑیاں چلتی تھیں، جہاں سےپھر تقریباً پانچ کلو میٹر کے فاصلے سے افغانستان کی سرحدیں شروع ہو جاتی تھیں۔مذکورہ علاقوں کے خوب صورت، دل کش مقامات سیّاحوں کی دل چسپی کا باعث ہوا کرتے۔برطانوی دَور میں پشاور سے لنڈی کوتل، تورائیگہ ریلوے اسٹیشن تک برطانوی حکمرانوں نے Zip-zطرز کا شان دار ریلوے نظام متعارف کروایا ،حالاں کہ اس دورکے برطانوی انجینئرز اگر چاہتے، تو ریلوے ٹریک اور اسٹیشن بالکل سیدھے بھی تعمیر کرسکتے تھے، لیکن برطانوی حکمرانوں نے مسافروں کی دل چسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے لنڈی کوتل کے پہاڑی سلسلے میں zip-zریلوے ٹریک تعمیر کیا اور ریلوے لائن کے دونوں جانب گھنے درخت لگوائے، تاکہ دورانِ سفر، سیر و تفریح کے ساتھ ٹھنڈک و راحت کا بھی احساس ہو۔ اسی طرح لاہور سے راول پنڈی ریل کار کےسفر کے دوران گجر خان سے جہلم تک کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں میں قائم مشہور ریلوے اسٹیشن پنڈورہ، اور تراکی(TARAKI)بھی پہاڑوں کے درمیان ہی واقع ہیں۔ تراکی کے پہاڑ میں ہندوئوں کا ہزاروں سال پرانا مندر بھی موجودہے۔ اس پہاڑی سلسلے میں بھی برطانوی دَور کا دل فریب zip-z طرز کا ریلوے نظام آج بھی موجودہے۔ پنڈی سے لاہورتک کے سفرکے دوران گجر خان سے جہلم، تراکی کے اس پہاڑی سلسلے پر کچھ دیر کے لیے ٹرین رکتی ہے، تو سیّاح یہاں کی حسین و جمیل وادیوں میں کھو سے جاتے ہیں اور ان سحر انگیز مناظر کو اپنے کیمروں میں قید کرنے سے باز نہیں رہ پاتے۔ اور پھر دورانِ سفر ان وادیوں میں اگر بارانِ رحمت برسنے لگے، تو ریل گاڑی کا سفر گویا جنّتِ نظیر بن جاتا ہے۔ دورانِ سفرٹرین کے اندر دَر آنےوالے بادل تومسافروں پر جیسے سحر ساطاری کردیتے ہیں۔دراصل،گجر خان سے جہلم کے درمیان کچھ عجیب و غریبzip-zریلوے نظام اور ٹریک اس طرح بنائے گئے ہیں کہ دورانِ سفرریل گاڑی کے سامنے ایک بہت بڑا پہاڑ اچانک نمودار ہوجاتا ہے، جودیکھتے ہی دیکھتے سامنے سے ہٹ کر دائیں طرف اور کچھ ہی لمحوں بعد بائیں جانب نظر آنے لگتاہے۔ اسی طرح دور سے نظر آنے والا قدیم مندر پہلے دائیں جانب، پھر بائیں جانب نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ یعنی دائیں بائیں بیٹھے مسافر ٹرین کے دونوں جانب سے مندر اور دل کش و خوب صورت پہاڑی سلسلوں کا برابر نظارہ کرسکتے ہیں۔

تراکی ریلوے اسٹیشن کے پاس تعمیر کیا جانے والا ’’C‘‘ ٹائپ ریلوے ٹریک بھی برطانوی ریلوے انجینئرز کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس عجیب و غریب ٹریک پرسفر کے دوران انجن کے ساتھ والی بوگی پر بیٹھا شخص بہ یک وقت پوری چلتی ٹرین کو ایک ہی زاوئیے سے دیکھ سکتا ہے۔ zip-zریلوے ٹریک کے اس مقام پر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی اژدھا رینگتا ہوا جا رہا ہو۔ اور پھر اگر ایسے میں دوسرے ٹریک پر ایک اور ٹرین کراس کرنے لگے، تو کھڑی ٹرین سے دوسری ٹرین سانپ کی طرح رینگتی نظر آتی ہے۔ مسافروں کے لیے یہ لمحات زندگی کے حسین ترین لمحات ہوتے ہیں، جنہیں وہ اپنے کیمروں میں محفوظ کرلیتے ہیں۔یاد رہے، ماضی میں ہالی وڈ سے کئی فلم ڈائریکٹرز، پروڈیوسرز اور رائٹرز گجر خان سے جہلم تک تراکی کے پہاڑوں میں واقع برطانوی دور کے اسzip-z نظام کو نہ صرف دیکھنے آتے تھے، بلکہ یہاں کئی ایک مشہور و معروف انگلش فلموں کی شوٹنگز کے علاوہ بھارت کی ایک مشہور فلم ’’بھوانی جنکشن ‘‘بھی فلمائی گئی، جس نے دنیا بھر میں کام یابی کے ریکارڈز قائم کیے۔سو، ہماری وفاقی وزیرِ ریلوے، شیخ رشید احمدسے اپیل ہے کہ خدارا! ’’ریل سیّاحت‘‘ کی اس شہ رگ کو مت کاٹیں! کیوں کہ گجرخان اور جہلم کے درمیان خوب صورت پہاڑی مقام کو ریل کے سفر سے کاٹ دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، البتہ سیرو سیّاحت ختم ہو کر رہ جائےگی۔ مسافر سخت مایوس ہوں گے۔ اور پھر 10ارب روپے سے زائد رقم خرچ کرکے سیدھا ٹریک بنانے کا فائدہ صرف یہ ہوگا کہ سفر میں صرف ایک گھنٹے کی بچت ہوگی، تو ایک گھنٹے کی بچت کرکے سیر و سیّاحت کا گلا گھونٹنا کہاں کی عقل مندی ہے۔آج پڑوسی ملک بھارت، دنیا کی طرح سیرو سیّاحت سے سالانہ کھربوں روپے منافع حاصل کر رہا ہے۔ بھارت میں ڈبل ڈیکر ٹرین، ٹرام ٹرین، میٹرو ٹرین، سفاری، شملہ zip-zریلوے نظام کام کر رہا ہے۔ دارجلنگ میں چھوٹی ریل گاڑیاں کام یابی سے چل رہی ہیں اور ہمارے نئے پاکستان میں بجائے اس کے کہ برطانیہ دَور کے بچھائے گئے عظیم، بے نظیر ریلوے نظام کو مزید تقویت دی جاتی، بند ریل گاڑیاں چلائی جاتیںکہ پاکستان ریلوے، جو اقتصادی، معاشی لحاظ سے پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اسے ہر ممکن تحفظ حاصل ہو،الٹا ہم تو اسے تباہ و برباد کرنے پر تل گئے ہیں۔

وفاقی وزیرِ ریلوے، اگر ریلوے کی ترقی اور سیّاحت کو فروغ دینا چاہتے ہیں، تو وہ ہرانوالہ راول پنڈی سے گجر خان تک ایک خصوصی سفاری ٹرین چلانے کافوری طور پر اعلان کرسکتے ہیں، جو گجر خان سے پنڈی کے راستے میں تراکی کے خوب صورت پہاڑی علاقے میں واقع ریلوے اسٹیشن پر کچھ دیر ٹھہرے، تاکہ ملکی وغیر ملکی سیّاح یہاں اترکر اس دل فریب پہاڑی کے سحر انگیز مناظر سے لطف اندوز ہوسکیں۔ مذکورہ سفاری ٹرین میں چار اکانومی کلاس کی بوگیاں اور ایک کھانے کی گاڑی لگائی جاسکتی ہیں۔ یوں اس سفاری ٹرین کے چلنے سے ریلوے کو منافعے کے علاوہ ملکی غیر ملکی سیّاحوں کو ریل سیّاحت کے ذریعے سفرو تفریح کے بے شمار مواقع بھی ملیں گے اور نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں ریل سیّاحت کی بدولت چھپے ہوئے سیّاحت کے مراکز سے آگاہی بھی حاصل ہوگی۔ اس وقت خوش قسمتی سے پاکستان میں دو مقامات پربرطانوی دور کے zip-z ریلوے کا نظام موجود ہے۔ ایک لنڈی کوتل کے مقام پر اور دوسرا گجر خان سے جہلم تراکی کے دل فریب پہاڑی سلسلوں پر۔ سو، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی طرف خصوصی توجّہ دے کر انہیں تحفّظ فراہم کیا جائے، نہ کہ ان کے خاتمے کے منصوبے بنائے جائیں۔

تازہ ترین