• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پُرانے زمانے میں تاریخ قلم سے رقم کی جاتی تھی،آج کل بلّے سے ہوتی ہے۔ پُرانے زمانے کے استاد اپنے طلبہ کو کتاب کے مطالعے کی تلقین کرتے تھے، آج کے استاد گرائونڈ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد بچّوں کو کھیلنے کی اجازت، بلکہ حکم دیتے ہیں اور پھر لاکھوں، کروڑوں لوگ ٹی وی اسکرین کے مطالعے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جب معاشرے میں کھیل کو اتنی اہمیت حاصل ہوجائے، تو پھر علم کا وہی حال ہوگا، جس کا نقشہ ایک لطیفے میں کچھ اس طرح کھینچا گیا کہ ایک سیکنڈری اسکول کا طالب علم معلوماتِ عامہ کے مقابلے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس نے اپنے والد سے، جو قریب ہی بیٹھے اخبار پڑھنے میں مصروف تھے، سوال کیا’’ابّو! امریکا کا پہلا صدر کون تھا؟‘‘ باپ نے جواب دیا،’’بیٹا! گڑے مُردے اُکھاڑنے کا کیافائدہ؟‘‘اُس نے پوچھا’’ابّو! قائدِ اعظم نے 14نکات کیوں پیش کیے تھے؟‘‘ جواب آیا’’بیٹا!اچھے کاموں کی وجہ نہیں پوچھی جاتی۔‘‘ اس نے دریافت کیا ’’ابّو! سر سیّد کی کتاب ’’آثار الصّنادید‘‘ کا موضوع کیا تھا؟‘‘ بولے’’کوئی بہت اہم موضوع ہوگا، ورنہ سر سیّد ہرگز کتاب نہ لکھتے۔تمہیں تو پتا ہی ہے وہ کس قدر مصروف آدمی تھے۔‘‘بیٹا مایوس ہو کر چُپ ہو گیا۔چند لمحوں بعد والد صاحب نے اخبار اپنی نظروں سے ہٹا کر اسے سرزنش کی ’’بیٹا! سوال پوچھو ناں، پوچھو گے نہیں، تو معلومات میں اضافہ کیسے ہوگا؟‘‘ہمارے بزرگوں نے علم کی دو قسمیں بتائی تھیں۔ ایک وہ علم، جو ہمیں خود آتا ہے اور دوسرا وہ، جس کے بارے میں ہمیں یہ علم ہو کہ وہ کہاں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ لطیفے میں بچّے سے یہ خطا ہوئی کہ اس نے علم کا غلط ماخذ تلاش کیا۔ سوچا ،کون کتابوں میں سَر کھپائے، والد سے پوچھ کر کام چلا لو۔ دراصل یہ تن آسانی کا دَور ہے۔ لوگ باگ ہر چیز پکی پکائی چاہتے ہیں۔کسی مشکل لفظ کے معنی نہ آتے ہوں، تو اس کے لیے لغت دیکھنے کی زحمت سے بھی بچتے ہیں اور دوسروں سے پوچھتے پھرتے ہیں یا پھر کمپیوٹر کو ’’گگلا‘‘ لیتے ہیں۔ہمارے ایک معروف شاعر(انور شعور)کو بھی شاید ایسا ہی کوئی مسئلہ درپیش تھا، جس کے ضمن میں انہوں نے اپنی کاہلی کا اعتراف ایک شعر میں کیا۔الفاظ کے چنائو سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شعرکہنے سے پہلے انہوں نے ایک لمبی سی انگڑائی بھی لی تھی؎’’ تساہل ایک مشکل لفظ ہے، اس لفظ کا مطلب…کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں ،کسی سے پوچھ لوں گا مَیں‘‘۔وہ زمانے لَد گئے، جب لوگ علم کی تلاش میں قریہ بہ قریہ، کُوبہ کُو پِھرا کرتے تھے۔ ہزاروں کتابیں گھول کر پی جاتے تھے۔ علم کی تلاش میں ہر صعوبت خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے۔ آج کل صورت حال یہ ہے کہ علم پیچھے پیچھے بھاگ رہا ہے اور ’’تائبِ علم‘‘ آگے آگے(انہیں طالب علم نہ کہیے کہ یہ علم کے سائے تک سے بچنا چاہتے ہیں اور بہتر یہی ہے کہ علم بھی ان کے سائے سے محفوظ رہے)۔گزشتہ ہفتے ہمیں اُس سرکاری کالج میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں سے ہم نے پچاس سال پہلےگریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔ہمیں پرنسپل صاحب سے ملنا تھا، جو ہمارے دوست ہونے کے علاوہ ایک مُعتبر شاعر، ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم ہیں۔ پرنسپل صاحب موجود تھے، تدریسی عملہ بھی حاضر تھا، لیکن طلبہ ضمیرِ غائب کے صیغے میں تھے۔ پورے کالج میں بہ مشکل تیس نظر آئے۔ معلوم یہ ہوتا تھا کہ ؎’’ اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا‘‘۔ نصف صدی قبل ترسیلِ علم اور تحصیلِ علم کے باعث جس جگہ کی گہما گہمی شہر میں ضرب المثل تھی، اب اس کی دیواروں پر اُداسی بال کھولے سو رہی تھی۔ خود کالج آثارِ قدیمہ کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ پرنسپل صاحب کے دفتر کی خستہ حالی دیکھ کر ٹرکوں کے پیچھے لکھی نصیحتیں یاد آگئیں۔

کہتے ہیں کہ انگریزی، دشمنوں کی زبان ہے، لہٰذا اس سے ان کی دشمنی قابلِ فہم ہے، لیکن اُردو تو قومی اور بہت سوں کی مادری زبان ہے۔ اس کے ساتھ ان کا سلوک دیکھ کر دِل کٹتا ہے۔یقیناً بابائے اُردو کی روح بھی تڑپ تڑپ جاتی ہوگی۔ ہم نے شاعری کبھی نہیں کی۔بقول اکبرؔ الہٰ آبادی؎’’فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں‘‘، لیکن گزشتہ دِنوں ایک نوجوان شاعر کی ہائیکو نظموں کے مجموعے کی تعارفی تقریب میں صاحبِ صدر نے، جو ایک سینئر شاعر ہیں،اپنا کلام سُنانے سے قبل سامعین کو ہائیکو پڑھا دی اور وہ بھی مذاق ہی مذاق میں۔ گھر آکر جو ہم نے غور کیا، تو اس نتیجے پر پہنچے کہ شاعری کے حوالے سے اپنے بارے میں ہماری پہلی رائے غلط تھی۔ اس قسم کی شاعری کے لیے عقل تو کیا ،زیادہ کاغذ بھی درکار نہیں۔چناں چہ ہم نے اپنے انگریزی ،اُردو سے نابلد ڈگری یافتہ دوستوں کے لیے ایک ہائیکو نظم فی الفور کہہ دی۔ اگر اس نظم کو پروفیسر سحر انصاری کا تصدیق نامہ حاصل ہوجائے، تو ہمیں یقین ہے کہ آپ اسے سُن کر بے ساختہ پکار اُٹھیں گے کہ پہلے کیوں نہیں کی شاعری؟ نظم سُنیے،؎’’اُردو نہ جانوں (پانچ)…انگریزی کیا ہوتی ہے (سات)…مَیں کچھ نہ جانوں (پانچ)…‘‘یہاں ہم نے ہر مصرعے کے بعد ارکان کی تعداد یہ ثابت کرنے کی غرض سے تحریر کی ہے کہ اس شاعری میں اور کچھ ہو یا نہ ہو کم از کم گنتی پوری کردی گئی ہے۔ گنتی پوری کرنے پر یاد آیا، مرحوم زیڈ اے بخاری ایک روز اپنے دفتر میں کام کر رہے تھے اور ساتھ ہی انٹرنل ٹرانس میشن پر غالبؔ کی ایک غزل کی ریکارڈنگ، اسٹوڈیو سے براہِ راست سُن رہے تھے۔ جب مغنیّہ نے ایک شعر اس طرح گایا ؎’’قید و حیات و بند و غم اصل میں دونوں ایک ہیں…موت سے پہلے، آدمی غم سے نجات پائے کیوں‘‘، تو بخاری صاحب نے انٹر کام پر پروڈیوسر سے کہا،’’ان محترمہ سے کہو،گنتی تو پوری کرلیں۔مصرع یوں ادا کریں؎’’ قید و حیات و بند و غم اصل میں چاروں ایک ہیں‘‘۔

ایک برمی زبان کی ضرب المثل کا مفہوم ہے کہ آپ جتنا زیادہ علم حاصل کریں گے، اُتنے ہی زیادہ خوش قسمت ہوں گے۔گزشتہ دِنوں ہماری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی، جو اپنی عالی شان کار، لباس اور ٹھاٹ باٹ کی وجہ سے ہمیں بہت’’خوش قسمت‘‘ نظر آئے۔ ہم نے انہیں خوش کرنے کی غرض سے سادگی میں یہ ضرب المثل سُنا دی۔ فرمانے لگے’’ہر مُلک کی تہذیب، ثقافت اور اقدار مختلف ہوتی ہیں۔ اب ضروری نہیں کی جو بات برما کی گرم اور مرطوب آب ہوا کو راس آئے، اُسے ہمارے یہاں کی گرم اور خشک آب و ہوا بھی قبول کر لے۔‘‘ ہم حیران تھے کہ یا الٰہی، علم کا آب و ہوا سے کیا تعلق؟ہماری حیرانی کا سلسلہ ابھی منقطع نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا،’’میرا تجربہ کہتا ہے کہ آپ جتنا زیادہ علم حاصل کریں گے، اتنا ہی زیادہ بھولیں گے۔اور جتنا زیادہ آپ بھولیں گے، سمجھیے کہ اتنا ہی آپ نے کم علم حاصل کیا۔اس کے برعکس آپ جتنا کم علم حاصل کریں گے، اتنا ہی کم بھولیں گے اور جتنا کم بھولیں گہ سمجھیے کہ اتنا ہی زیادہ علم حاصل کیا۔‘‘ہمیں ان بھول بھلّیوں میں پھنسا کر انہوں نے سوال کیا،’’اچھا ذرا یہ تو بتائیں کہ اس روزمرّہ تجربے کی بات سے آپ نے کیا نتیجہ اخذ کیا؟‘‘ ہم نے عرض کیا، ’’یہی کہ پڑھو گے ،لکھو گے،تو ہو گے خراب۔ ویسے معذرت کے ساتھ، آپ کی اپنی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟‘‘ بولے، ’’ایم اے، بی ایف۔‘‘ ہم یہ سمجھ کرکہ ضرور کوئی غیر مُلکی ڈگری ہوگی، خاموش ہو رہے، لیکن وہ ہر بات ہمیں سمجھانے کے مُوڈ میں تھے ۔بولے،’’اس کا مطلب،Matric appeared but failedہے۔‘‘ہمیں اُن کی قسمت پر واقعی رشک آنے لگا۔ جی چاہا کہ اپنی تمام ڈگریاں ان کے قدموں میں رکھ کر کہیں’’تن تو پہ واروں،مَن تو پہ واروں…اور ان ڈگریوں کا دھن بھی تو پہ واروں…‘‘

ویسے اس میں شک نہیں کہ بعض لوگوں نے ڈگریوں کو علم کا نعم البدل سمجھ رکھا ہے۔ وہ ڈگری پہ ڈگری حاصل کرتے چلے جاتے ہیں، لیکن…کوئی ڈگری ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ہر نئی ڈگری کے حصول کے بعد وہ ایسے صاف ستھرے نکل آتے ہیں، جیسے سانپ اپنی کینچلی بدلتا ہے۔مرحوم راغب ؔمراد آبادی نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا ؎سوئے منزل بہت چلے ،لیکن…ہم جہاں تھے ،وہیں پہ آج بھی ہیں‘‘۔گِرتے ہوئے معیارِ تعلیم میں اساتذہ کا کردار بھی ناقابلِ معافی ہے۔ آخر یہ کیوں اور کس طرح ہوتا ہے کہ ایک طالب علم بی اے کرکے، جب ملازمت کرتا ہے، تو انگریزی میں بیماری کی رخصت کی درخواست نہیں لکھ سکتا؟ ایک مرتبہ ہمارے ایک جاننے والےصاحب نے، جو میٹرک پاس تھے، ہم سے کہا کہ کلرک کی پوسٹ کے لیے اُن کی درخواست لکھ دیں۔ہم نے اُن کے مکمل کوائف لے کر اپنے پی اے سے اُن کی درخواست ٹائپ کروادی۔ ایک گھنٹے بعد وہ تَذبذب کے عالم میں ہمارے پاس آئے اور درخواست سامنے رکھ کر پوچھا، ’’سَر! آپ نے اس میری تعلیم کیا لکھ دی ہے؟‘‘ ہم نے کہا، ’’جوآپ نے بتائی تھی۔‘‘ بولے’’میں نے میٹرک کہا تھا۔ یہاں تو آپ نے کوئی لمبا سا لفظ لکھا ہوا ہے۔‘‘دراصل،درخواست میں تعلیمی قابلیت کے آگے ہم نے غلطی سے MATRICULATIONلکھ دیا تھا۔

بعض والدین اپنے بچّوں کی خوبیاں اس قدر بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں کہ وہ کسی دوسرے جہان کی مخلوق نظر آنے لگتے ہیں۔ دو خواتین ایک محفل میں محوِ گفتگو تھیں۔ ایک نے اپنے پانچ سالہ نہایت شریر اور بدتمیز بچّے کی حرکتوں پر پردہ ڈالتے ہوئے کہا، ’’یہ ہمیشہ سے اتنا شوخ اور اسمارٹ ہے۔ماشاء اللہ چار ماہ کی عُمر میں بیٹھنے لگا تھا۔دس ماہ کی عُمر میں چلنے لگا اور سولہ ماہ کی عُمر میں تو پوری طرح بات چیت کرنے لگا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے دوسری خاتون کو مزید مرعوب کرنے کی غرض سے سوال کیا،’’کیا آپ کا بچّہ بھی سولہ ماہ کی عُمر میں بولنے کے قابل ہوگیا تھا؟‘‘ ’’نہیں بہن‘‘ دوسری خاتون نے جھلا کر جواب دیا،’’وہ ہمیں اپنی باتیں لکھ کر دے دیتا تھا‘‘۔

تازہ ترین