لندن (سعید نیازی) سینیٹ پاکستان کے سابق چیئرمین سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ فیض احمد فیض عظیم شاعر تھے۔ ان کی شاعری دراصل آئین پاکستان کی شاعرانہ تشریح ہے۔ وہ فیض کلچرل فائونڈیشن کے زیراہتمام ہونے والے آٹھویں سالانہ فیض امن میلہ سے خطاب کررہے تھے۔ جنگ گروپ اور جیو ٹی وی کے تعاون سے منعقد ہونے والے میلہ میں برطانیہ کے علاوہ یورپی ممالک سے بھی مندوبین شریک ہوئے۔ میلے سے پاکستان سے آئے ممتاز صحافیوں وسعت اللہ خان، محمد حنیف کے علاوہ ممتاز اداکار توقیر ناصر سمیت دیگر نے خطاب کیا۔ رضا ربانی نے کہا کہ ملک اس وقت تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے اور اس عمل کے دوران مشکلات سامنے آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اظہار رائے کے حوالے سے میڈیا کے ساتھیوں نے طویل جدوجہد کی ہے اور مجھے امید ہے کہ میڈیا کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان کے خاتمے کے لیے شروع کی جانے والی جدوجہد کامیاب ہوگی۔ گزشتہ ہفتہ آزادی صحافت کے لیے پاکستان میں ہونے والے علامتی مظاہروں کو پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ رضا ربانی نے کہا کہ فیض کی شاعری آج کے حالت کے بھی مطابق ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ملک کے مظلوم عوام کے مسائل کو اجاگر کیا۔ پاکستان میں صحافت کو درپیش مسائل کے حوالے سے سینئر صحافی خالد حمید فاروقی کی نظامت میں وسعت اللہ خان اور محمد حنیف نے اظہار خیال کیا اور شرکا کے سوالات کے جواب بھی دئیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحافت کے لیے حالات مشکل ہیں اور لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ فیض احمد فیض بھی صحافی تھے، وہ بطور ایڈیٹر ایسی چیزیں بھی چھاپتے تھے جن سے وہ خود بھی اتفاق نہیں کرتے تھے۔ ایک صحت مند معاشرے میں ضروری ہے کہ جس چیز سے اختلاف ہے اس کے اظہار کا بھی موقع فراہم کیا جائے، اگر لوگوں کو بات کرنے سے روکا جائے تو پہلے اداسی پھیلتی ہے اس کے بعد غصہ پھیل جاتا ہے جوکہ کسی بھی معاشرے کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ ممتاز اداکار توقیر ناصر نے کہا کہ فیض احمد فیض ہمارا فخر ہیں، ان کی شاعری،مقام اور نظریات سے نئی نسل کو بھی آگاہ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اقدار تبدیل ہورہی ہیں اور اگر اقدار کمزور ہوگئی تو اس کا اثر ہماری ثقافت پر بھی پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ فیض صاحب نے جو باتیں آج سے کئی دہائیاں قبل کی تھیں وہ درست ثابت ہورہی ہیں۔ انہوں نے ہمیں جو رہنمائی دی تھی جو روشنی دکھائی تھی اسے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے اور اسے اپنی آئندہ نسل تک بھی منتقل کرنا چاہیے۔ میلہ کے منتظم اکرم قائم خانی نے کہا کہ اس برس میلہ میں پاکستان میں صحافت کو درپیش مشکلات کے موضوع پر خصوصی مقالے پیش کیے گئے۔ میلہ انتہائی کامیاب رہا اور امید ہے کہ اس پلیٹ فارم سے آئندہ بھی پاکستان کے ثقافتی و دیگر مسائل کو اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے میلے کے انعقاد میں جنگ گروپ اور جیو ٹی وی کے تعاون کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ اور جیو روز اول سے فیض میلے کے انعقاد میں تعاون کررہا ہے۔ ممتاز شاعر ارشد فاروق نے کہا کہ میلے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد میں شرکت باعث اطمینان ہے، عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نوجوان اردو ادب میں دلچسپی نہیں لیتے لیکن یہ بات یہاں غلط ہوتی نظر آتی ہے۔ کالمسٹ رخسانہ رخشی نے کہا کہ فیض کا پیغام آج بھی زندہ ہے۔ ان کا پیغام ہر دور میں مقبول رہا ہے اور ان کا کلام پڑھ کر آگاہی پیدا ہوتی ہے۔ فیض کلچرل فائونڈیشن کے نائب صدر عامر مختار نے کہا کہ میلے کا مقصد ترقی پسند سوچ کو فروغ اور پاکستان کی بہتر تصویر کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیض نے امن کے پیغام کو فروغ دیا اور ہم بھی اس مشن پر کاربند ہیں۔ ڈاکٹر عامر برنی نے کہا کہ اس میلے کے انعقاد کے سبب برطانیہ میں اردو کو فروغ ملتا ہے۔ نوجوان نسل کی بڑی تعداد بھی میلے میں شریک ہوئی اور اس نسل کا اردو سے رشتہ مضبوط ہورہا ہے۔ میلے میں شریک مندوبین کا کہنا تھا کہ اس قسم کی تقریبات ہماری ثقافت کو فروغ دینے کا بھی سبب بنتی ہیں اور لوگوں کو سوچنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فیض کی شاعری کو بھی بھولنا نہیں چاہیے۔ میلہ سے دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ صابری مسرا نے رقص پیش کیا جبکہ شکیل اعوان اور جازم شرما نے غزلیں سنائیں۔اس موقع پر جاوید حسن، ایوب اولیا اور ملکہ بیگم کی کتب کی رونمائی بھی کی گئی۔