• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


اگر آپ نے ماضی کے ورسٹائل اداکار رنگیلا کی فلم ’انسان اور گدھا‘ دیکھ رکھی ہے تو آپ کو یاد ہو گا کہ کیسے ایک گدھا اپنے اوپر ہونے والی سختیوں سے تنگ آ کر انسان بننے کی دُعا مانگتا ہےاور جب اُس کی حاجت پوری ہوجاتی ہے تو بحیثیت ِ انسان اُسے جن جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔وہی تلخیاں اور مشکلات اُسے پھر سے گدھا بننے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

’دی ڈونکی کنگ‘ کی کہانی اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس کا مرکزی کردار ’منگو‘ گدھے کی زندگی گزارتے ہوئے دیگر جانوروں کے مقابلے میں کوئی اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے خواب دیکھتا ہے۔بنیادی طور پر وہ ایک دھوبی ہےاور بھارت کے سابق کپتان ایم ایس دھونی کوبھی اپنی ہی طرح کا دھوبی سمجھتا ہے۔اُس کے خیال میں جہاں ڈونلڈٹرمپ کا وائٹ ہائوس ہے،اُس شہر کا نام بھی واشنگٹن نہیں،واشنگ ٹائون یعنی دھوبی گھاٹ ہے۔

جنگل کا راجہ شیر ہے اور شہزادہ اُس کا بیٹا۔شہزادے کو’ سیلفیاں‘ کھینچ کر فیس بُک اور انسٹاگرام پر پوسٹ کرنے کا شوق ہےاورتصویروں پر آنے والے ’لائیکس‘ہی اُس کی زندگی کا حاصل۔جنگل میں گدھوں کے علاوہ بکریاں بھی ہیں، بھیڑیے بھی ہیں ، بھالو بھی ہیں، ہاتھی بھی ہیں اور لومڑی بھی۔سب کے سب جنگل کے راجہ یعنی شیر کے تابعدار بھی ہیں اور وفادار بھی۔

کہانی میں ٹوئسٹ اُس وقت آتا ہے جب جنگل کا راجہ گھٹنوں میں دردکے سبب بادشاہت سے سبکدوش ہونا چاہتاہے اور اپنی مشیرِ خاص لومڑی سےمشورہ کرتا ہے کہ کیوں نہ سوشل میڈیا کے دلدادہ شہزادے کوتاج وتخت سونپ دیا جائے۔چالاک لومڑی کا کھیل یہیں سے شروع ہوتا ہے اور وہ بوڑھے شیر کو جمہوری انداز یعنی ووٹ کے ذریعے شہزادے کو راجہ منتخب کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔

لیکن مسئلہ یہ درپیش ہے کہ شہزادے کے مقابلے میں الیکشن لڑے گا کون؟ کسی جانور میں یہ ہمت نہیں کہ وہ راجہ کے بیٹے کا مقابلہ کرے۔مقابل اُمیدوار کی تلاش کا کام بھی لومڑی کو سونپ دیا جاتاہےاور وہ اس مقصد کے لیے بڑے بڑے خواب دیکھنے والے گدھے’منگو‘کوآمادہ کر لیتی ہے ۔شہزادے کے مقابلے میں منگو کی ’امیج بلڈنگ‘ کا ٹھیکہ بندروں کے چینل کو دیا جاتا ہےجواس کام میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔

جانوروں کو بتایا جاتا ہے کہ ’منگو‘ کا راجہ کی حیثیت سے منتخب ہونا اُن سب کے لیے کتنا ضروری ہے؟ منگو گوشت نہیں بلکہ گھاس کھاتا ہے۔اس کے جیتنے کی صورت میں شاہی ضیافتوں میں گوشت کے کوفتے نہیں بنیں گے، گھاس پھوس اور طرح طرح کی سبزیاں ہوں گی۔کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو کاٹے گا نہیں۔شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیئیں گے۔

وقت آنے پر گدھے کو باپ بنایا جاسکتا ہے تو بادشاہ کیوں نہیں؟منگو کہیں حوصلہ ہارنے لگتا ہے تو اُس کا مرحوم باپ ’گائیڈنگ فورس‘ کے طور نمودار ہوتا ہے اور اُسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ گدھا پیدا ہونا کوئی جُرم نہیںہے لیکن گدھے جیسی زندگی گزارنا بھی کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔جانوروں کو بھی اپنے خواب منگوکی صورت میں پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈال کر منگوکو اپنا راجہ منتخب کر لیتے ہیں۔

گدھے کے راجہ بنتے ہی لومڑی جنگل کے بادشاہ شیر اور اس کے بیٹے کو خفیہ دروازے سے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیتی ہے اور گدھے کی حکومت میں بھی اپنے آپ کو مشیرِ خاص کے عہدے پر مامور رکھنے میں کامیاب رہتی ہے۔آہستہ آہستہ وہ منگوراجہ کو عوام یعنی جانوروں سے دُور کردیتی ہے۔جس سے جنگل میں بے چینی کی صورتحال پیدا جاتی ہے۔اس دوران مختلف جانوروں کے بچے اور رشتہ دارپراسرار طور پر لاپتہ ہونے لگتے ہیں۔راجہ کےمشیر اور وزیر جو لومڑی کے مشورے سے مقرر کیے جاتے ہیںوہ بھی جانوروں کی دادرسی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

دن گزرتے جاتے ہیں اور ایک دن لومڑی اور سرکس کے ’رِنگ ماسٹرز‘ کا گٹھ جوڑمنگو راجہ کے سامنے آ جاتا ہے۔وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے کہ شیر اور اس کا بیٹادیگر لاپتہ جانوروں کے ساتھ سرکس کے پنجروں میں قید ہیں اور اُنہیں دوسرے مقام پر منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔وہ ساری صورتحال اپنی رعایا کے سامنے رکھتا ہےاور پھر قیدی جانوروں کو رہائی دلانے کے لیے نکل پڑتا ہے۔

منگو کے اس بہادارانہ کردارکے سبب بوڑھے شیر کو پنجرے کی قید سے آزادی نصیب ہوتی ہے تو وہ اور جنگل کے دیگر جانورگدھے کی حکمرانی پر متفق دکھائی دیتے ہیں ۔شیر اپنے ہاتھ سے منگو کے سر پربادشاہت کا تاج سجاتا ہے اور جنگل میں ایک بار پھر امن و آشتی کا وہی پرانا دور لوٹ آتا ہے۔

منگو کا کردارجان ریمبو نے اداکیا ہے۔لومڑی حنا دلپذیر بنی ہیں۔پہلوان چچا اسماعیل تارا ہیں۔جنگل کے بادشاہ غلام محی الدین ہیں۔بادشاہ کے بیٹے کا کردار عدیل ہاشمی نے ادا کیا ہے جبکہ بھالوانکل شبیر جان ہیں۔بندروں کا چینل چلانے والے ٹی آر پی کا چشمہ پہنے عرفان کھوسٹ ہیں جن کی آواز الگ سے پہچانی جاسکتی ہے۔

فلم میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک کہانی کے تسلسل میں تعطل پیدا نہ ہو۔اینی میشن اور سیٹ عالمی معیار کی فلموں جیسے ہیں۔جس جانور کو جو کردار دیا گیا ہے اُس نے خوب نبھایا ہے۔فلم کے گانے ایسے ہیں کہ بچے اور بڑے ایک ساتھ گنگنانے پر مجبور ہو جائیں۔سپنس تھوڑا کم ہے لیکن کامیڈی، انٹرینمنٹ اور سیاسی طنز نے ’دی ڈونکی کنگ‘ کو چند ایسی اینی میٹڈ فلموں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جسے بچوں اور بڑوں کی یکساں پسند کہا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین