• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف کی کڑوی گولی، بیمار معیشت کا علاج

آئی ایم ایف کی کڑوی گولی، بیمار معیشت کا علاج
وفاقی وزیرِخزانہ، اسد عُمرانڈونیشیا میں آئی ایم ایف کی سربراہ، کرسٹائن لیگارڈ سے مصافحہ کرتے ہوئے

موجودہ حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے یا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنے کے فیصلے سے پہلے اور بعد میں مُلک میں اس موضوع پر جتنی بحث ہوئی، شاید ہی اس سے پہلے کبھی ہوئی ہو۔ نتیجتاً وزیرِ اعظم، عمران خان کو خود یہ کہنا پڑا کہ ’’آئی ایم ایف کے پاس جانے سے کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’اقوام کی زندگی میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے اور مَیں یقین دلاتا ہوں کہ مُلک کو ان حالات سے نکالوں گا۔‘‘ وزیرِ اعظم نے اپنے اس فیصلے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے اقتدار میں آنے سے قبل اور بعد میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا تھا کہ مُلک اس وقت شدید معاشی بُحران میں مبتلا ہے اور وہ اسے مشکلات سے نکالنا چاہتی ہے، جب کہ سابقہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُس نے مُلک کی معیشت بہتر کر دی تھی، لیکن موجودہ حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے حالات بگڑ گئے۔ تاہم، گزشتہ حکومت کا یہ بھی ماننا تھا کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ناگزیر ہے۔ یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت ماضی میں اس فیصلے کی شدید ناقد رہی۔ اگر جائزہ لیا جائے، تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نہ صرف عوام کی اکثریت اس فیصلے سے ناخوش ہے، بلکہ بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی اسے مُلک گروی رکھنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئی ایم ایف سے رجوع کرنا واقعتاً کوئی ناقابلِ معافی جُرم یا مُلک دشمنی ہے؟ اس ضمن میں مزید بات کرنے سے پہلے آئی ایم ایف پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دراصل، آئی ایم ایف یا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے، جسے عالمی مالیاتی معاملات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے قائم کیا گیاتھا۔ آئی ایم ایف کی بنیادی ذمّے داریوں میں مالی معاملات میں ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینا، مالی استحکام کے لیے معاونت کرنا، بین الاقوامی تجارت کے لیے سہولتیں فراہم کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور پائے دار ترقّی اور غُربت کا خاتمہ شامل ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف کے رُکن ممالک کی تعداد 189ہے اور اس کا مرکزی دفتر واشنگٹن میں واقع ہے۔ آئی ایم ایف کا قیام 1945ء میں منعقدہ برِٹّن وُڈز کانفرنس کے نتیجے میں عمل میں آیا اور تب اس کا مقصد دوسری عالم گیر جنگ کے نتیجے میں تباہ حال ممالک کی بحالی تھا، جب کہ آج یہ ادارہ مختلف ممالک کو بین الاقوامی ادائیگیوں میں مدد فراہم کرتا ہے۔ نیز، مالی بُحران ختم کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ خیال رہے کہ 2007ء کے عالمی مالیاتی بُحران پر قابو پانے میں آئی ایم ایف نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، جس کی وجہ سے مالی ابتری کے شکار ممالک کی معیشت بحال ہوئی۔ یہاں ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ آخر آئی ایم ایف کے پاس اس قدر سرمایہ کہاں سے آتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ امیر ممالک کا ایک گروپ اسے سرمایہ فراہم کرتا ہے، جس میں امریکا، چین، جاپان، کینیڈا، جنوبی کوریا اور بھارت سمیت دولت مند یورپی ممالک شامل ہیں۔ ذرایع کے مطابق، اس وقت آئی ایم ایف کے پاس تقریباً 645ارب ڈالرز موجود ہیں، جن میں سے یہ ادائیگیوں کے عدم توازن سے دوچار ممالک کو فنڈز فراہم کرتا ہے۔ سو، یہ کہنا کسی طور پر دُرست نہیں کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا بھیک مانگنے اور اس کی اطاعت قبول کرنے کے مترادف ہے۔ جب کوئی مُلک مالی مدد کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرتا ہے، تو یہ ادارہ اُس مُلک کی اقتصادی صورتِ حال جانچنے کے لیے وہاں ماہرین کی ایک ٹیم بھیجتا ہے، جو مُلک کے مالیاتی نظام کو راہِ راست پر لانے کے لیے تجاویز دیتی ہے۔ تاہم، اس موقعے پر بُحران زدہ مُلک پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی ٹیم کے سامنے اپنا مقدّمہ کس قدر مؤثر انداز میں پیش کرتا ہے کہ فوری طور پر کیا ممکن ہے اور کیا نہیں، کیوں کہ ہر مُلک کی سیاسی و سماجی صورتِ حال مختلف ہوتی ہے اور سب پر یکساں فارمولا لاگو نہیں کیا جا سکتا۔

اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان میں آئی ایم ایف کو مُلک دشمن ادارہ سمجھاجاتا ہے، تو اس کا سبب ہمارے سیاست دان ہیں، جنہوں نے اسے مستقلاً ہدفِ تنقید بنایا، جس کے نتیجے میں عوام میں آئی ایم ایف کا منفی تاثر پیدا ہوا۔ اس کی تازہ ترین مثال وزیرِ اعظم، عمران خان خود ہیں، جو گزشتہ دَورِحکومت میں عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کرنے کے شدید مخالف تھے۔ تاہم، اب انہوں نے خود ہی نہ صرف آئی ایم ایف سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے، بلکہ عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین تواتر سے ماضی میں دیا گیا ان کا یہ بیان دُہرانے میں مصروف ہیں کہ’’ آئی ایم ایف میں جانے سے بہتر ہے کہ مَیں خود کُشی کر لوں۔‘‘درحقیقت، یہ عمران خان کا محض ایک سیاسی بیان تھا، جسے سنجیدہ لینا حماقت ہو گی۔ تاہم، اب ہمارے سیاست دانوں، بالخصوص مرکزی سیاسی رہنمائوں کو مُلک کی صُورتِ حال کے حوالے سے کوئی بھی بیان دینے سے قبل معروضی حقائق کا جائزہ ضرور لینا ہوگا، تاکہ اگر وہ برسرِ اقتدار آئیں، تو انہیں اس قسم کی ناخوش گوار صُورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑے، جس سے موجودہ حکومت کو گزرنا پڑ رہا ہے۔ خیال رہے کہ حکومت میں آتے ہی اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک حالات تبدیل نہیں ہو جاتے، کیوں کہ مُلک کرامات اور جادو کی چھڑی سے نہیں چلتے۔ پھر یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اب مُلک کے معاشی معاملات پر بیان بازی سے سیاست چمکانے کا دَور گزر چُکا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اتفاقِ رائے سے ایک ایسی طویل المدّت پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ جس کے نتیجے میں مُلکی معیشت کی راہ متعیّن ہو سکے۔ کھیل تماشا بہت ہو چُکا، اب سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ غیر سنجیدہ روِش ہمیں بہت مہنگی پڑی کہ ہر نئی حکومت نے گزشتہ حکومت کے ہر اقدام اور فیصلے کو باطل قرار دے کر اپنا سفر صفر سے شروع کرنے کی کوشش کی۔ یوں نہ صرف وقت کا زیاں ہوتا ہے، بلکہ قوم میں بے چینی اور مایوسی جنم لینے لگتی ہے اور یہ تمام عوامل مل کر نئی حکومت کے لیے اس قدر مسائل پیدا کر دیتے ہیں کہ اُس کے لیے ان پر قابو پانا کارِ دارد سے کم نہیں ہوتا اور اس کی تمام تر توانائیاں ان منفی اثرات کو زائل کرنے پر ہی صَرف ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ دَورِ حکومت میں پی ٹی آئی نے پورے 5برس تک برسرِ اقتدار جماعت، پاکستان مسلم لیگ (نون) پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھا اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی وزیرِ اعظم اور اُن کے وزراء خزانہ خالی ہونے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس سیاسی بیان بازی کے شہریوں پر اس قدر منفی اثرات مرتّب ہوئے کہ انہوں نے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے فیصلے کو حکومت کی ناکامی قرار دینا شروع کر دیا اور اب حکومت انہیں مطمئن کرنے ہی میںمصروف ہے۔

تاہم، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت ہماری معیشت مشکلات سے دوچار ہے اور آئی ایم ایف کی مدد لینا ہی بہتر حل ہے۔ گو کہ معاشی ماہرین اس فیصلے کو ’’کڑوی گولی‘‘ قرار دے رہے ہیں، لیکن وہ اس سے اختلاف بھی نہیں کرتے۔ یاد رہے کہ کوئی بھی حکومت کم زوریوں، کوتاہیوں اور نقائص سے پاک نہیں ہوتی اور تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت کے خلاف مُہم چلاتے ہوئے اپنے مُلک کی معاشی صورتِ حال پیشِ نظر رکھنی چاہیے۔ اگر ہم ماضی کی بات کریں، تو پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (نون) کی حکومت کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ پہلے ایک سو سے زاید دِنوں پر مشتمل احتجاجی دھرنے سے دارالحکومت، اسلام آباد میں معمولاتِ زندگی کو مفلوج کیا گیا۔ پھر فیض آباد دھرنے کی شکل میں گزشتہ حکومت کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے ۔ نیز، میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے بعد شاہد خاقان عبّاسی کو ’’کٹھ پُتلی وزیرِ اعظم‘‘ قرار دے کر اُن کے لیے بھی مشکلات کھڑی کی گئیں۔ پھر سینیٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا، اُسے بھی مستحسن عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سارے عمل میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی نے دانستگی یا نا دانستگی میں پی ٹی آئی کا ساتھ دیا، کیوں کہ اُس کی یہ کوشش رہی کہ جمہوریت کے تسلسل کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو عملاً مفلوج کر کے سیاسی فواید بھی حاصل کیے جائیں۔ اس ضمن میں عموماً یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اپوزیشن کا کام ہی حکومت کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دینا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ احتجاج کے اس انداز سے مُلک میں جاری معاشی سرگرمیاں تھم جاتی ہیں اور اس کا خمیازہ نہ صرف عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، بلکہ نئی حکومت کو بھی معیشت بحال کرنے کے لیے کڑے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کی آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ پہلی مرتبہ ذوالفقار علی بُھٹّو کے دَورِ حکومت میں عالمی مالیاتی ادارے سے قرضہ لیا گیا تھا اور اب تک 12مرتبہ اس عمل کو دُہرایا جا چُکا ہے، جب کہ آخری پیکیج 2016ء میں ختم ہوا ۔ اس موقعے پر آئی ایم ایف کی سربراہ، کرسٹائن لیگارڈ خود اسلام آباد آئیں اور انہوں نے مُلکی معیشت میں آنے والے استحکام کی تعریف کی۔ بعد ازاں، گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کی شرحِ نمو 5.2فی صد پر پہنچ گئی اور رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے شرحِ نمو کا ہدف 5.8فی صد مقرّر کیا گیا، لیکن موجودہ معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر عالمی بینک کا اپنی تازہ رپورٹ میں کہنا ہے کہ جی ڈی پی کی شرحِ نمو 4فی صد کے لگ بھگ رہے گی اور آیندہ دو برسوں تک مُلک کو شدید مالی و اقتصادی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ ماہرین کے مطابق، آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے فواید بھی ہیں اور نقصانات بھی اور انہیں سمجھے بغیر بیل آئوٹ پیکیج سے بھرپور استفادہ ممکن نہیں۔ ماہرین اس اَمر کی جانب بھی توجّہ دلاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا پیکیج کسی مُلک کی بیمار معیشت کے لیے کڑوی گولی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ سے تُرکی، جنوبی کوریا اور برازیل سمیت کئی ممالک کی بیمار معیشتیں شفایاب ہوئیں۔ نیز، خود پاکستان بھی اس سے کئی مرتبہ فائدہ اُٹھا چُکا ہے۔ لہٰذا، ہمیں زیادہ مایوس ہونے اور مایوسی پھیلانے کی ضرورت نہیں۔ اگر ہم آئی ایم ایف کے پیکیج میں پوشیدہ مفادات حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے، تو معاشی بُحران سے نکلنے کی راہ ہم وار ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف قرضہ دیتے وقت بُحران زدہ مُلک کے سامنے چند شرائط رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر سبسڈی یا زرِ تلافی ختم کرنے کا پُرزور اِصرار کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں حکومت عموماً پیٹرول سمیت دیگر اشیا ئے صَرف پر سبسڈی دیتی ہے۔ یعنی اگر پیٹرول 100روپے فی لیٹر دست یاب ہے، تو اسے عوام کو 60روپے فی لیٹر میں فراہم کیا جاتا ہے۔ زرِ تلافی سے بہ ظاہر تو عوام کو ریلیف ملتا ہے، لیکن اس مَد میں ہونے والے اربوں، کھربوں کے اخراجات عوام ہی سے ٹیکسزیا مہنگائی کی صُورت وصول کیے جاتے ہیں، کیوں کہ حکومت کے پاس خسارے پر قابو پانے کے لیے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس موقعے پر اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری حکومت کا پسندیدہ نعرہ ہوتا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں سُست پڑ جاتی ہیں اور روزگار کے مواقع بھی کم ہونے لگتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے ہی سادگی اپنانے کا درس دینا شروع کر دیا تھا۔ آئی ایم ایف مالی معاملات میں اس قدر احتیاط برتنے کی ہدایت کرتی ہے کہ معیشت جمود کا شکار دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی بینک نے جی ڈی پی کی شرحِ نمو 4فی صد تک ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ تاہم، اگر مذکورہ بالا حالات جنم لیتے ہیں، تو پھر حکومت اپنا ایک کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ کیسے پورا کرے گی، جب کہ دوسری جانب ہر سال ہی بے روزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

آئی ایم ایف کی ایک اور کڑی شرط کرنسی کی قدر میں کمی لانا ہے۔ رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیرِ خزانہ، مفتاح اسمٰعیل نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو 10فی صد کم کیا تھا اور موجودہ حکومت نے اس کی وقعت مزید گھٹادی۔ خیال رہے کہ درآمدات اور برآمدات میں پائے جانے والے عدم توازن میں کمی لانے کے لیے کرنسی کی قدر گھٹائی جاتی ہے، تاکہ برآمدات سَستی کر کے انہیں عالمی مارکیٹ کے لیے پُر کشش بنایا جا سکے۔ برآمدات بڑھنے سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے اور ادائیگیوں کا توازن بھی برقرار رہتا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت کئی ممالک نے اپنی برآمدات میں اضافے کے لیے جان بوجھ کر اپنی کرنسی کی قدر گھٹا رکھی ہے، جن میں چین اور بھارت جیسے مضبوط معیشت کے حامل ممالک بھی شامل ہیں، لیکن کرنسی کی قدر کم ہونے سے افراطِ زر بڑھ جاتا ہے اور عوام کو ہوش رُبا مہنگائی کا سامنا کرناپڑتا ہے، جب کہ ایک ایسے مُلک کے عوام پر، جس کی صنعتی پیداوار کم اور غیر معیاری ہو اور جو بیش تر اشیا درآمد کرنے پر مجبور ہو، زیادہ منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ اب ہمیں درآمدی اشیا پر اپنا انحصار کرنا ہو گا، ورنہ اس کا خمیازہ مہنگائی کی صُورت میں بھگتنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف سرکاری اداروں کی نج کاری پر بھی زور دیتا ہے اور اس وقت صرف دو اداروں یعنی پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کا مجموعی قرضہ 780ارب روپے سے زاید ہے، جب کہ بعض سیاسی جماعتوں کے مفادات کی وجہ سے کوئی حکومت خسارے میں چلنے والے ان اداروں کی نج کاری کا فیصلہ نہیں کر پارہی، حالاں کہ ہر ماہ عوام کے ٹیکسز کی رقوم میں سے انہیں کروڑوں روپے ادا کیے جا رہے ہیں۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت ان اداروں کی نج کاری کا فیصلہ کر ے گی۔ اسی کے ساتھ ہی آئی ایم ایف اداروں میں بہتری کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات پر بھی زور دیتا ہے۔ یعنی اداروں میں انتظامی و مالیاتی نظم و ضبط پیدا کیا جائے۔ مثال کے طور پر آج سے چند برس پیش تر عوام گھنٹوں قطار میں کھڑے ہو کر اپنے یوٹیلیٹی بِلز ادا کرواتے تھے، جب کہ آج انہیں جمع کروانا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا اور یہ تبدیلی آئی ایم ایف کی ہدایات کے نتیجے میں آئی۔ المختصر ، آئی ایم ایف سے قرضہ یا بیل آئوٹ پیکج لینا، تو آسان ہے، لیکن اگر حکومت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرے، تو اس کے چُنگل میں پھنس جاتی ہے اور اگر فراست پر مبنی اقدامات کرے، تو یہ مُلکی معیشت کو ترقّی کی راہ پر گام زن کر سکتا ہے۔ 

تازہ ترین