• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مستقبل کی’ گلوبل لیڈر شپ‘ کیسے تیار کی جائے؟

آج کی دُنیا اختراع (Innovation)کی دُنیا ہے اور وہی کمپنیاں کامیاب ہیں، جن کی ٹاپ لیڈرشپ اختراع پر یقین رکھتی ہے۔ یہ جیمز ڈائسن کی اختراعی سوچ ہی تھی کہ وہ تھیلے یا پٹارے کے بغیر ویکیوم کلینر(Bagless Vacuum Cleaner) بنانے کی 5,126بار کوششوں کے بعد بھی نہیں تھکا اور بالآخر 5,127ویں کوشش میں وہ جدید ویکیوم کلینر بنانے میں کامیاب ہوا۔ایڈیسن نے 1,000ویں کوشش میں جاکر بلب ایجاد کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔

کمپنیاں اپنی مصنوعات اور خدمات میں اس وقت ہی اختراع لاسکتی ہیں، جب انھیں لیڈرشپ میسر ہو۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب پوری دنیا سُکڑ کر آپ کے موبائل فون میں آچکی ہے، کارپوریٹ ورلڈ کو ’گلوبل لیڈرز‘ کی ضرورت ہے، جو کمپنیوں کو تیزی سے عالمی سطح پر متعارف کرانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

کمپنیاں کئی طریقوں سے عالمگیریت کو اپنا سکتی ہیں۔ میک کنزی کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق، اگر دو ممالک کے درمیان کوئی مشترک زبان نہ ہو تو صرف اس بات سے ہی کاروبار کا حجم 30فیصد کم ہوجاتا ہے۔اسی طرح ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا کے جنوب میں واقع ملک چلی اگر کینیڈا کی طرح امریکا کے قریب ہوتا تو چلی اور امریکا کے درمیان دوطرفہ تجارت موجودہ حجم سے6گنا زیادہ ہوسکتی تھی۔ جاپانی ملٹی نیشنلز کی اپنی ثقافتی، سیاسی اور معاشی پیچیدگیاں ہیں، جن کے باعث انھیں بیرونی منڈیوں تک پھیلنے میں مسائل درپیش رہتے ہیں۔ اسی طرح اُبھرتی ہوئی ایشیائی منڈیاں یورپ اور شمالی امریکا سے دور ہونے کے علاوہ مختلف نوعیت اور حالات کی حامل ہیں۔ ان سب پیچیدگیوں کے باوجود، ایک بات انتہائی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اُبھرتی ہوئی منڈیوں میں تیز تر ترقی اور ترقی یافتہ منڈیوں میں طویل عرصے تک معاشی نمو کی رفتار سُست رہنے کی پیش گوئیوں نے کمپنیوں کو تیزترقی کے لیے عالمگیریت اختیار کرنے پر مجبور کیاہے۔

ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کارپوریٹ ورلڈ ایسے ’گلوبل لیڈرز‘ تیار کرے، جو ان کمپنیوں کو ایک شہر اور ملک سے اُٹھاکر، سرحدیں پھلانگ کر خطے اور عالمی سطح پر متعارف کرانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس میں یقیناً تعلیمی اداروں کوبھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کہ وہ جاب مارکیٹ کی نئی حقیقتوں کے مطابق، گریجویٹس تیار کریں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل پہلوؤں کو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

’عالمی کمپنی‘ کی حقیقت

میک کنزی کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق، ملٹی بلین کمپنیاں اکثر ایک غلط فہمی کا شکار رہتی ہیں کہ کیا ہوا اگر عالمی تجارت مشکل دور سے گزر رہی ہے اور عالمی معیشت کی شرحِ نمو سست ہے، کم از کم وہ تو عالمی کمپنی (Global Company)ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ فارچون کی گلوبل500فہرست میں شامل 2فیصد سے بھی کم کمپنیاں اپنی 20فیصد سے زائد آمدنی بیرونِ ملک سے حاصل کرپاتی ہیں۔ فہرست میں شامل اکثر کمپنیاں، مقامی طور پر ہی کام کرتی ہیں، جیسے بی ایم ڈبلیو اپنی 64فیصد پیداوار اور 73فیصد ورک فورس جرمنی سے ہی حاصل کرتی ہے۔ رپورٹ میں اس سلسلے میں Rooted Cosmopolitanismکی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ کمپنیوں کو اپنی مقامی اقدار کے ساتھ جڑے رہتے ہوئے بیرونِ ملک منڈیاں تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیڈرشپ اور ملازمین کے لیے بھی یہی اصول اختیار کرنا چاہیےکہ سمندر پار کام کرنے والے پروفیشنلز، اس وقت ہی کامیاب ہوتے ہیں، جب وہ اپنے آبائی ملک اور رہائشی ملک، دونوں کی ثقافتوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، جو شخص اپنی آبائی ثقافت کو بھول جاتا ہے، اسے آگے چل کر معاشرے سے بیزاری کا احساس ہوتا ہے اور نتیجتاً وہ اختیار کی گئی ثقافت کے ساتھ بھی تعلق نہیں جوڑ پاتا۔

گلوبل لیڈرشپ اور تجربہ

عالمی سوچ کے لیے صرف تجربہ کافی نہیں ہوسکتا۔ گلوبل لیڈرز کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے کاروبار کو کس طرح کے عالمی تعلقات اور باہمی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ ہر ملک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، انھیں انڈسٹری میں تجربے سے زیادہ ان تضادات کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، جسے Conceptual لرننگ کا نام دیا جاتا ہے۔ایگزیکٹوز کو اپنے ذاتی تجربات کو عالمی منظرنامے کے پس منظر میں، سائنسی اعدادوشمار کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات محدود طور پر باہر گزارے گئے وقت سے کبھی بھی نہیں سیکھی جاسکتی۔

لیڈرشپ کے معیارات

لیڈرشپ کے لیے پہلے سے متعین کردہ معیارات کی فہرست نصابی کتب میں جس قدر مؤثر معلوم ہوتی ہے، عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ توبس ابتداء ہے۔ ہر انڈسٹری کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں اور ہر انڈسٹری کوایک الگ نظریہ درکار ہوتا ہے۔گلوبل لیڈرشپ کے لیے one-size-fits-allکا نظریہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔

بہترین ٹیلنٹ حاصل کرنا

نوےکے عشرے میں ایک اصطلاح ’ٹیلنٹ کی جنگ‘ متعارف کرائی گئی تھی اور آج تین دہائیوں بعد کارپوریٹ سیکٹر میں یہ جنگ ہر طرف دیکھی جاسکتی ہے۔ کمپنیوں کو باصلاحیت پروفیشنلز اور نوجوانوں کی تلاش ہے۔ باصلاحیت سے مراد، کمپنی کو کسی ایک پوزیشن کے لیے ایسے شخص کی تلاش ہے، جو مجموعی صلاحیتوں کا حامل ہو اوراسکی مطلوبہ ذمہ داریاں بخوبی ادا کرے۔ ہمارا نظامِ تعلیم مطلوبہ تعداد میں اعلیٰ پایہ کے باصلاحیت پروفیشنلزپیدا کرنے کی سکت نہیں رکھتا اور ناہی ادارے انھیں نوکری دینے کے بعد مطلوبہ تربیت فراہم کرنے پر توجہ دیتے ہیں، جس پر کام کرنا ہوگا۔

تازہ ترین