وہ لوگ کل تک جن کی معاشی عاقبت نااندیشیوں کے سبب پاکستانی عوام ان سے پناہ مانگتے تھے آج وہ دنیا میں پناہ مانگتے پھر رہے ہیں ۔یہ حکمرانوں کےلئے جائے عبرت ہے ۔کل تک جو داتاعلی ہجویری کے خدا سے مدد مانگنے کے دعوے دار تھے آج برطانیہ سے امداد کے طالب ہیں ۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی طرف سے دی گئی یہ اطلاع بالکل درست ہے کہ’’ اسحاق ڈار نے برطانیہ میں سیاسی پناہ مانگ لی ہے اور بے شک یہ درخواست برطانوی نظام انصاف کےلیے ایک امتحان ہے۔‘‘برطانوی قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو صرف اُسی صورت میں برطانیہ میں پناہ مل سکتی ہے جب اُس کےاپنے ملک میں اُس کی زندگی خطرے میں ہو ،اسے سزائے موت ہونے کا خدشہ ہو یا اس بات کا اندیشہ ہو کہ اسے قتل کر دیا جائے گا اور اِ س اندیشے کا بارِ ثبوت بھی درخواست دہندہ پر ہوتا ہے ۔عام طور پرسیاسی پناہ کی پچانوے فیصددرخواستیں برطانوی ہوم آفس مسترد کر دیتا ہے ۔صرف وہی درخواستیں کامیاب ہوتی ہیں جہاں ثبوت اتنے مکمل ہوتے ہیں کہ اُن سے انکار ممکن نہیں ہوتا۔
2000 میں ڈاکٹر شیر افگن خان کے بیٹے اور میانوالی کے پی ٹی آئی کے ایم این اے امجد خان کے بھائی بیرم خان اور میں نے بھی سیاسی پناہ کی درخواستیں دی تھیں ۔ہم دونوں نے یہ کام محترمہ بے نظیر بھٹو کے کہنے پر کیا تھا ۔تقریباًچھ ماہ کے بعد بیرم خان نے اپنی درخواست واپس لے لی تھی اور پاکستان واپس چلا گیا تھا مگر پاکستان پہنچنے کے چندماہ بعد بیرم خان ٹریفک کے ایک حادثے میں شہید کر دئیے گئے اور اس واقعہ کے چند دن بعد مجھے سیاسی پناہ دے دی گئی ۔
ایم کیو ایم کے بانی نے بھی جب سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی تو اس نےاپنی درخواست کے ساتھ اپنے خلاف درج قتل کے مقدمات کی ایف آئی آرز لف کی تھیں ۔جنرل ضیا الحق کے دور میں ’’الذولفقار ‘‘ نے جو طیارہ اغواکیا تھااور پیپلز پارٹی کے بہت سے کارکن رہا کرائے تھے وہ پاکستان سے دمشق گئے تھے اور پھر وہاں سے پوری دنیا میں پھیل گئے مگر اُن میں سے زیادہ تر نے برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کی تھی ۔اُن درخواستوں کا پس منظر بھی یہی تھا کہ پاکستان میں ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے ۔
اسحاق ڈار کی سیاسی پناہ کا فیصلہ یقیناً برطانوی نظام انصاف کےلئے امتحان سے کم نہیں کیونکہ اسحاق ڈار کسی صورت میں یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ پاکستان میں انہیں مار دیا جائے گا ۔وہ لوگ جن کے خلاف ماڈل ٹائون میں شہید ہونے والوں کی ایف آئی آر درج ہے یعنی شہباز شریف ، نواز شریف ، سعد رفیق ، رانا ثنااللہ وغیرہ وغیرہ اگر برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دیں تو انہیں فوری طور پر سیاسی پناہ مل سکتی ہے مگر اسحاق ڈار کا نام تو اُس ایف آئی آر میں بھی شامل نہیں ہے جو خود نواز شریف کے دور میں ایک چیف آف آرمی کے دبائو میں درج کی گئی تھی ۔
اطلاعات کے مطابق سیاسی پناہ کی درخواست میڈیکل کی بنیاد پر دی گئی ہے کہ وہ بیمار ہیں اورپاکستان میں اُن کا علاج نہیں ہوسکے گا کیونکہ انہیں پاکستان پہنچتے ہی گرفتار کر کےجیل بھیج دیا جائے گامگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ درخواست گزار یہ ثابت کیسے کرے گا کہ پاکستان میں جو لوگ جیلوں میں بیمار ہوتے ہیں ان کا علاج نہیں کیا جاتا جب نواز شریف جیل میں تھے تو ان کی صحت کی ذرا سی خرابی پر انہیں اسلام آباد پمزاسپتال میں داخل کرا دیا گیا تھا ۔ ان کے داماد کیپٹن صفدر کو بھی دو مرتبہ جیل سے اسپتال منتقل کیا گیا تھا ۔پھر آج تک پاکستان کی کسی عدالت میں ایسا کوئی کیس بھی نہیں درج نہیں ہوا کہ جیل میں کسی شخص کی اس لئے موت واقع ہوئی کہ جیل حکام نے اس کا علاج نہیں کرایا ۔یعنی اس میڈیکل کی بنیاد پر سیاسی پناہ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواست دو سال تک چلتی رہے۔اسحاق ڈار مختلف عدالتوں میں اپیلیں کرتے رہیں اور وقت گزرتا رہے ۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ اسحاق ڈار کے خلاف تمام مقدمات کرپشن کے ہیں ۔یہ بات برطانوی ہوم آفس کو بھی اچھی طرح معلوم ہوگی اور وہ یہ بھی جانتے ہونگے کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں صرف چھوٹی موٹی کرپشن پر بڑی سزا ہوتی ہے ۔بڑی کرپشن پر سزا نہیں ہوتی ۔ کرپشن کرنے والا غلط ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کا کچھ حصہ واپس کرکے رہا ہوجاتا ہے ۔نیب کے قوانین کے مطابق اسحاق ڈار بھی اگر لوٹی ہوئی رقم کا بیس پچیس فیصد حصہ واپس کردیںتو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا مگر دولت کے ساتھ محبت کاعالم نہ پوچھئے یہ لوگ ایک روپیہ بھی واپس کرنے پر تیار نہیں ہیں اور عمران خان کا توسلوگن ہی یہی ہے کہ لوٹی ہوئی رقم ملک میں واپس لانی ہے ۔یہ بھی ممکن تھا کہ اسحاق ڈار سودا بازی کر لیتے ،وعدہ معاف گواہ بن جاتے مگر نواز شریف اور شہبازشریف کی پاکستان میں موجودگی میں یہ ممکن نہیں ۔ان تمام معاملات میںایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہےکہ نواز شریف کے جتنے اثاثے برطانیہ میں موجود ہیں اگر حکومت برطانیہ وہ قانون کے مطابق پاکستان کو واپس کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے تو دنیا کےاور کئی ممالک بھی برطانیہ سے اپنے مجرموں کے اثاثے واپس مانگیں گے جو برطانوی معیشت کےلئے تباہ کن بات ہوگی ۔یہ وہ واحد وجہ ہے جس کی بنیاد پر یہ سوچا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے برطانیہ اسحاق ڈار کو سیاسی پناہ دے دے۔
آخر میں داتا علی ہجویری کے ماننے والے اسحاق ڈار کی خدمت میں مصطفیٰ زیدی کے تین شعر،ذرا سی ترمیم کے ساتھ
کربلا، ہم تو گنہگار ہیں لیکن وہ لوگ
جن کو حاصل ہے سعادت تری فرزندی کی
جسم سے، روح سے، احساس سے عاری کیوں ہیں
اِن کی مسمار جبیں، ان کے شکستہ تیور
گردشِ حسنِ شب و روز پہ بھاری کیوں ہیں
تیری قبروں کے مجاور، ترے منبر کے خطیب
فلس و دینار کے ڈالرکے بھکاری کیوں ہیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)