• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ نے آج سے 2برس قبل ’’بریگزٹ ریفرنڈم‘‘ کے ذریعے جس قوم پرستی کا آغاز کیا تھا، وہ اب برطانوی وزیرِ اعظم، تھریسامے کے لیے وبال بنتی جا رہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل نہ صرف سُست بلکہ انتشار کا شکار ہو چُکا ہے۔ نیز، بریگزٹ کے نتیجے میں پورے یورپ میں اُٹھنے والی قوم پرستی کی لہر اب طوفان کی شکل اختیار کرچُکی ہے۔ یہاں ایک دِل چسپ اَمر یہ ہے کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’امریکا فرسٹ پالیسی‘‘ کے سب سے بڑے ناقد قوم پرستی کی اس نئی تحریک کی بنیاد رکھنے والے یورپی رہنما ہی ہیں اور پھر ویسے بھی مغرب کی اکثر تحاریک یورپ ہی سے اُٹھیں۔ مثلاً انقلابِ فرانس اور یورپی یونین کی شکل میں یورپی ممالک کا اتحاد۔ واضح رہے کہ یورپی یونین کی تشکیل کے دوران امریکا نے نہ صرف یورپی ممالک کا بھرپور ساتھ دیا تھا، بلکہ اس اتحاد کو ’’نیٹو‘‘ کی شکل میں حفاظتی چھتری بھی فراہم کی تھی، جب کہ اس فوجی اتحاد میں یورپی ممالک کا مالی حصّہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہر چند کہ امریکا کے بیش تر سابق صدور نیٹو میں یورپ کے کم مالی حصّے پر شاکی تھے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے تو دھمکی آمیز زبان استعمال کرتے ہوئے یورپ سے یہ تک کہہ دیا کہ ’’پیسے دو، ورنہ حفاظت ختم۔‘‘ یورپ میں جاری قوم پرستی کی تحریک کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اٹلی میں ایک نیشنلسٹ جماعت بر سرِ اقتدار آ چُکی ہے، جب کہ جرمنی میں قوم پرستوں نے چانسلر، اینگلا مِرکل کے 16سالہ اقتدار کو کم زور کر دیا ہے اور فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکروں کا مستقبل بھی خطرے سے دو چار ہے، لیکن یہاں سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب یورپی یونین برقرار رہے گی؟ یورپ کے علاوہ جنوبی امریکا میں جاری قوم پرستی کی تحریک نے برازیل میں بولسانارو کو تقریباً اقتدار تک پہنچا دیا ہے۔ اگر ایشیائی ممالک کی بات کی جائے، تو فلپائن میں دیتورتے جیسے سخت گیر رہنما حُکم راں ہیں، جب کہ مغرب مخالف بلاک قرار دیے جانے والے ممالک، چین اور رُوس میں بالتّرتیب شی جِن پِنگ اور پیوٹن جیسے قوم پرست لیڈرز برسرِ اقتدار ہیں۔ نیز، جاپان کے وزیرِ اعظم، شینزو ایبے کا شمار بھی نیشنلسٹ لیڈرز میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دُنیا میں تجارتی جنگ کا آغاز بھی ہو چُکا ہے، جو عالمی ماہرین کے مطابق، دُنیا کی معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ سو، یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا کوئی نیا عالمی اقتصادی نظام جنم لینے کو ہے؟

ہم سب سے پہلے برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی کے معاملے پر نظر ڈالتے ہیں۔ گزشتہ دِنوں برطانوی وزیرِ اعظم، تھریسامے بریگزٹ کے راستے میں آنے والی اُلجھنوں کو سُلجھانے کے لیے برسلز گئیں۔ خیال رہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل مارچ 2019ء میں شروع ہو گا اور ایک برس بعد مارچ 2020ءمیں پایۂ تکمیل کو پہنچے گا اور اس ایک سالہ عبوری دَور میں افرادی قوّت اور مالیاتی و سرحدی امور جیسے ٹھوس معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی غرض سے برطانیہ اور یورپی یونین نے اپنے اپنے نمایندے مقرّر کیے ہیں، جو مسلسل گفت و شُنید میں مصروف ہیں۔ برسلز میں موجودگی کے دوران تھریسامے نے اپنے یورپی ہم منصبوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر واضح کیا اور چند ماہ کے لیے بریگزٹ کے التوا کا خدشہ بھی ظاہر کیا۔ اس پر یورپی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ التوا سے مالی معاملات متاثر ہو سکتے ہیں، جو فریقین کے لیے منفی اثرات کے حامل ہوں گے کہ اس سے بے یقینی کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔ یاد رہے کہ بریگزٹ ریفرنڈم کا نتیجہ سامنے آتے ہی یورپی رہنمائوں نے یورپ کے مالی معاملات میں بے یقینی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کر دیا تھا اور یورو کے دبائو میں ہونے کی وجہ سے اسے یورپی اتحاد کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ یورپی یونین کے نمایندوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ علیحدگی میں تاخیر سے قوم پرستی کے رُجحانات کو فروغ ملے گا۔ لہٰذا، جتنی جلدی برطانیہ، یورپی یونین سے الگ ہوئے، اتنا ہی بہتر ہو گا۔ تاہم، برطانیہ کے لیے یہ سب اس لیے مناسب نہیں کہ نہ صرف اس کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقتدر رہنمائوں نے بریگزٹ کی مخالفت کی تھی، بلکہ برطانیہ نے علیحدگی کے لیے کوئی تیاری بھی نہیں کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ریفرنڈم کا نتیجہ سامنے آتے ہی برطانیہ میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ اس موقعے پر اُس وقت کے وزیرِ اعظم، ڈیوڈ کیمرون کو، تب جن کی مقبولیت عروج پر تھی، نہ صرف استعفیٰ دینا پڑا، بلکہ اس صدمے نے انہیں ہمیشہ کے لیے سیاست کو خیر باد کہنے پر بھی مجبور کر دیا۔ کیمرون کی جانشین، تھریسامے بھی بریگزٹ کی مخالف تھیں اور انہوں نے بادلِ نخواستہ حکومت کی ذمّے داری قبول کی۔ تاہم، انہیں سیاسی محاذ پر شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور پھر ایک سال بعد ہونے والے قبل از وقت انتخابات کے نتائج نے اُن کے ہاتھ پائوں باندھ دیے۔ ان انتخابات کے بعد تھریسامے کی جماعت، لیبر پارٹی کو ایک کم زور اتحادی حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا اور یہ تک کہا جانے لگا کہ شاید اب لیبر پارٹی کا دَور گزرنے کو ہے، جب کہ قائدِ حزبِ اختلاف، جیریمی کوربائن، جنہیں چند ماہ قبل تک ایک قابلِ ذکر لیڈر بھی نہیں سمجھا جا رہا تھا، اچانک متبادل قیادت کی بات کرنے لگے۔

بریگزٹ کے ممکنہ اثرات اور نیا عالمی نظام
برطانوی وزیرِاعظم، تھریسا مے

بریگزٹ کا عمل کس طرح پایۂ تکمیل کو پہنچے گا؟ یہ سوال یورپ کے علاوہ خود برطانیہ کے لیے بھی بڑی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے، کیوں کہ ریفرنڈم کے فوراً بعد ظاہر کیے جانے والے خدشات دُرست ثابت ہو رہے ہیں اور برطانیہ کی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے، جب کہ اب اسے یورپ کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ اس وقت برطانیہ کی صورتِ حال یہ ہے کہ یہاں مقیم یورپی ماہرین پر مشتمل افرادی قوّت واپس جا رہی ہے اور ان کا خلا پُر کرنا ایک چیلنج بن چُکا ہے۔ یورپی ماہرین کی اپنے وطن واپسی کا سب سے زیادہ اثر این ایچ ایس یعنی صحت کی خدمات پر مرتّب ہوا ہے اور اب معالجین کی شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ مستقبل میں انجینئرز کی کمی کے سبب برطانیہ میں تعمیرات کی صنعت بھی متاثر ہو گی، جب کہ آئی ٹی کے شعبے پر بھی دبائو بڑھے گا۔ نیز، یورپی تارکینِ وطن کے انخلا سے جائیداد کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہو گی اور اس ساری صورتِ حال میں برطانیہ کا مستقبل بے یقینی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔

بریگزٹ کے ممکنہ اثرات اور نیا عالمی نظام
روسی صدر، ولادی میرپیوٹن

دوسری جانب بریگزٹ کے ممکنہ اثرات نے یورپ کو بھی ہِلا کر رکھ دیا ہے۔ خیال رہے کہ برطانیہ، جرمنی کے بعد یورپ کا سب سے زیادہ معاشی طور پر مضبوط مُلک تھا، جب کہ دفاعی اعتبار سے بھی اس کی اہمیت اقوامِ عالم میں مسلّم ہے۔ برطانیہ نے اپنی طاقت کے بَل پر مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا، کیوں کہ اس خطّے میں رُوس کی پیش قدمی مغرب کے لیے کسی طور بھی قابلِ قبول نہ تھی۔ تاہم، آج رُوس، شام میں S-300نامی جدید دفاعی میزائل سسٹم نصب کر رہا ہے اور بحیرۂ روم میں بھی اس کے جنگی جہازوں کی آمد و رفت جاری ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ قوم پرستی کے نتیجے میں یورپی یونین میں پڑنے والی دراڑ کا سب سے زیادہ فائدہ پیوٹن کی قیادت میں رُوس کو پہنچا۔ رُوس نے مشرقِ وسطیٰ میں پیش قدمی کے ساتھ یوکرین میں بھی اپنا اثر و نفوذ بڑھایا۔ تاہم، اس کے نتیجے میں امریکا کی جانب سے عاید کی گئی اقتصادی پابندیوں نے اس کی معیشت کو بے حال کر رکھا ہے اور امریکا کے نیوکلیئر ڈِیل سے نکلنے کے بعد ایران کو بھی اسی قسم کی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ گو کہ ایرانی حکومت اس بات پر مُصر ہے کہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اس کی معیشت پر زیادہ منفی اثرات مرتّب نہیں ہوں گے، لیکن درحقیقت تہران کی معیشت کو نقصان ضرور پہنچا ہے اور اس کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک امریکی ڈالر ایک لاکھ 15ہزار ایرانی ریال کے مساوی ہو چُکا ہے۔ امریکا کے جوہری معاہدے سے دست بردار ہونے کے بعد ایران نے یورپی یونین سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے سپریم کمانڈر، آیت اللہ خامنہ ای بار ہا ایرانی صدر، حَسن رُوحانی کی حکومت کو اس کی نا اہلی پر خبردار کر چُکے ہیں۔ نومبر میں امریکا ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی جیسا ایک اور سخت قدم اُٹھانے جا رہا ہے۔ ایسے میں ایران کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایران کے معاشی منتظمین کی کارکردگی دیکھنے کے لائق ہو گی۔ ان کا ماننا ہے کہ مزید پابندیوں کی صورت میں ایران، یورپ سے یورو میں کاروبار کرے گا، بھارت کو روپے میں تیل فروخت کرے گا اور چین سے اس کی کرنسی میں تجارت کرے گا، لیکن معاشی ماہرین کے نزدیک ان تمام فیصلوں کو عملی شکل دینا بہت مشکل ہو گا۔ پھر یورپی حکومتوں کے بیانات کے برعکس ملٹی نیشنل کمپنیز ایران پر عاید امریکی پابندیوں کے بعد یہ سب قبول کرنے پر آمادہ نہیں، کیوں کہ وہ اس کے نتیجے میں ہونے والا خسارہ برداشت نہیں کر سکتیں۔ عالمی امور کے ماہرین کافی عرصے سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایران کو براہِ راست امریکا سے بات کرنی چاہیے اور امریکی صدر، ٹرمپ اس کا عندیہ بھی دے چُکے ہیں، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایرانی صدر ایک بار پھر لچک دکھانے پر آمادہ ہو جائیں گے، کیوں کہ اُن پر قدامت پسند سخت گیروں کا شدید دبائو ہے اور وہ عراق اور شام میں اپنی کام یابی کو امریکا کے خلاف فتح کی شکل میں پیش کر رہے ہیں۔

بریگزٹ کے ممکنہ اثرات اور نیا عالمی نظام
امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ

ڈونلڈ ٹرمپ نے چین، یورپ اور کینیڈا کے خلاف جو ’’ٹیکس وار‘‘ شروع کر رکھی ہے، جسے ’’ٹریڈ وار‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اُسے بھی قوم پرستی کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے، حالاں کہ ٹرمپ انتظامیہ کا اصرار ہے کہ وہ اُس عدم توازن کو دُرست کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے امریکا کو گزشتہ 15برس سے شدید تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ ٹرمپ نے چین، کینیڈا اور یورپی ممالک پر بھاری ٹیکسز عاید کیے ہیں، جس کے جواب میں ان ممالک نے بھی امریکا پر ایسے ہی ٹیکسز عاید کر دیے ہیں اوراس پر فریقین کی جانب سے تلخ بیانات کا تبادلہ بھی ہوا۔ نیز، گزشتہ دنوں آئی ایم ایف نے انڈونیشیا کے شہر، بالی میں منعقدہ اپنی کانفرنس میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ تجارتی جنگ سے دُنیا بَھر میں مالی مسائل پیدا ہوں گے، لیکن اکثر عالمی مالیاتی اداروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ امریکا کی تیز رفتار ترقّی کی وجہ سے عالمی اقتصادی صورتِ حال کو خاصا سہارا مل رہا ہے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ نے برسرِ اقتدار آتے ہی اپنے مُلک کی اقتصادی صُورتِ حال پر خصو صی توجّہ دی اور ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کے نتیجے میں امریکی معیشت کی کارکردگی گزشتہ 16برسوں کے مقابلے میں بہتر ہوئی اور صنعتی پیداوار بھی بحال ہوئی، جس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہے۔ نیز، امریکی شہریوں کے لیے روزگار کے مواقع اور ان کی آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔ ماہرینِ معیشت کے مطابق، مالی بُحران کے بعد پہلی مرتبہ ٹرمپ کے دَور میں امریکا کے متوسّط اور نچلے متوسّط طبقے نے سُکھ کا سانس لیا، وگرنہ صدارتی انتخابات کے زمانے میں تو یہ تک کہا جا رہا تھا کہ یہ طبقات اپنی آمدنی سے گھریلو بجٹ بنانے کے بھی قابل نہیں۔ دوسری جانب اس اقتصادی استحکام نے ٹرمپ انتظامیہ کو بڑا سہارا دیا اور میڈیا کی تمام تر تنقید و مخالفت رائیگاں گئی۔ آیندہ دِنوں امریکا میں وسط مدّتی انتخابات ہونے والے ہیں اور اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ ان الیکشنز میں ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ ایک بار پھر اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائے گی، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرمپ اپنے انتخابی وعدوں کو عملی شکل دینے کے لیے نئی قانون سازی کر سکیں گے۔ امریکا کی موجودہ صورتِ حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے ’’امریکا فرسٹ‘‘ کی پالیسی اختیار کر کے اپنے مُلک کی معیشت کو مستحکم کیا اور کم از کم امریکی عوام اُن سے مطمئن ہیں۔ گرچہ چین اور یورپ جوابی بیانات اور کارروائیوں میں تو مصروف ہیں، لیکن امریکا سے براہِ راست تصادم سے گریزاں ہیں۔

بریگزٹ کے ممکنہ اثرات اور نیا عالمی نظام
چینی صدر، شی جِن پِنگ

ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی و علاقائی سیکوریٹی امور کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کا اعلان بھی کر دیا ہے اور اس میں شمالی کوریا سے لے کر ایران اور افغانستان تک شامل ہیں۔ اس پالیسی میں رُوس اور چین کو امریکا کا سب سے بڑے مقابل قرار دیا گیا ہے اور ہر ممکن حد تک ان ممالک کی پیش قدمی روکنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ خیال رہے کہ امریکا، رُوس کو یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دینا چاہتا اور اسی لیے اس نے فوجی دبائو کے ساتھ رُوس پر سخت اقتصادی پابندیاں بھی عاید کی ہیں، جب کہ چین پر بھی اقتصادی پابندیوں کے ذریعے دبائو ڈال رہا ہے۔ تاہم، امریکا نے جنوب مشرقی ایشیا میں موجود اپنے سب سے طاقت وَر حلیف، جاپان کے نہ صرف فوجی طاقت بلکہ ایٹمی طاقت بننے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے، جس پر چین خاصی پریشانی کا شکار ہے، کیوں کہ وہ فی الوقت کسی فوجی تصادم سے گریزاں ہے۔ تاہم، ٹرمپ، شی جِن پِنگ، پیوٹن اور شینزو ایبے میں یہ قدر مشترک ہے کہ یہ تمام قوم پرست اور سخت گیر حُکم راں ہیں اور انہوں نے اپنے اپنے مُلک کو دُنیا میں ایک اہم مقام دلانے کے لیے اپنی حکمتِ عملی وضع کر رکھی ہے، جس پر وہ بڑی عرق ریزی سے کام کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان سے متاثر ہو کر یورپ میں بھی قوم پرستی کی تحریک کو تقویّت مل رہی ہے، لیکن پھر اُس عالم گیریت یا گلوبلائزیشن کا کیا ہو گا کہ جس سے گزشتہ تین عشروں تک یہ تمام ممالک فائدہ اُٹھاتے رہے۔ عالمی مالیاتی ادارے عالم گیریت کے حق میں ہیں اور قوم پرستی کی لہر کو دیکھتے ہوئے ان کا ماننا ہے کہ یہ عالمی رہنمائوں کو باہمی تعاون کے لیے کسی نئے چارٹر کی تشکیل پر مجبور کر دے گی اور نئے عالمی نظام کا انحصار بھی اسی میثاق پر ہو گا۔

تازہ ترین