• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدلیہ اور نیب کی آزادی ، سرگرمی اور ملک کو عمران خان جیسی دیانتدار قیادت نصیب ہونے سے نتیجہ خیز احتسابی عمل کی شدید اور بڑی قومی ضرورت تو پوری ہونے کا عمل شروع ہوگیا، وگرنہ پاناما کیس کے بعد کوئی اور حکومت آنے پر یہ رک جاتا۔ پاکستان کی قومی معیشت، عوامی خدمات کے اداروں اور نظام تعلیم ، صحت اور ٹیکس کے نظام کی تباہی کی مرتکب اب اسٹیٹس کو کی سابق ’’جمہوری‘‘ حکومتوں کے قائدین کا کڑا احتساب بالآخر شروع ہو کر جاری ہے۔ دو ن لیگی قائد نیب زدہ ہو کر زیر عتاب ہیں۔ جماعت کے سربراہ شہباز شریف تو گرفتاری کے بعد نیب کی حوالات میں ہیں جبکہ سابق وزیر اعظم اور ن لیگی قائد نواز شریف ان کی سیاست میں سرگرم ہونے والی صاحبزادی اور داماد پر ضمانت پر رہائی کے بعد بھی کسی اور وائٹ کالر کرائمز میں دوبارہ سپرد زنداں ہونے کی تلوار سروں پر لٹکی ہوئی ہے۔

اس پس منظر میں بابائے اسٹیٹس کو یا’’مفاہمتی سیاست‘‘ کے چمپئن آصف زرداری بھی اب کوئی بڑا خطرہ بھانپ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کے مہینوں پر محیط سخت احتسابی مرحلے سے گزرنے کے دوران، میاں صاحب کی جانب سخت گیر رویہ اختیار کرنے والے اسٹیٹس کو کی سیاست میں ان کے ہم پلہ آصف علی زرداری ایک بار پھر’’قومی مفاہمت‘‘ کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس میں تو وہ جیسے موم ہوگئے۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اپنے جس آخری دور اقتدار سے نکل کر میاں صاحب، سڑکوں پر آکر نیم آبدیدہ ہوتے ہوئے سراپا سوال ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ بنے، اس میں ان کی حکومت نے آصف زرداری کو احتساب کے لئے مطلوب جانتے ہوئے ان پر یا ان کے ساتھیوں پر جو مقدمات قائم کئے ان پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے، بابائے اسٹیٹس کو نے میاں صاحب کی جانب اپنے مہینوں سے اختیار کئے گئے سخت رویے میں بالآخر پیدا ہونے والی لچک کا واضح اظہار کیا۔ کہا’’نواز شریف کے ہی بنائے کیس بھگت رہا ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ فاصلے کم نہیں ہوسکتے، حکومت ملک نہیں چلا سکتی۔ تمام سیاسی جماعتیں اس کی ناکامی کی قرار داددلائیں ‘‘ پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تیر ضرور ہے، لیکن اب یہ وہ تیر نہیں کے کمان سے نکلتے ہی اس کا کوئی شکار ہوجائے، پہلےتو وہ اسی تیر سے کئی کئی شکار کرچکے ہیں لیکن اب تو خود قائد جماعت کتنے ہی احتسابی تیروں کا شکار ہیں۔ نیب کی کمان سے نکلا ہر تیر نشانے پر لگتا معلوم دے رہا ہے۔

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا،یہ جھانسا ہی تھا کہ زداری نواز انداز سیاست کوئی الگ الگ ہے۔ گزرے عشرے میں تو روایتی بے رحم اپوزیشن کا تصور ہی ختم ہوگیا اور یہ فرینڈلی ہوگئی ،یہ جو کبھی کبھی جدائی نظر آتی رہی، یہ اسٹیٹس کو کی فنکاریوں میں سے ایک ہے کہ جب ایک خطرے میں ہو اور دوسرے کی بچت چپ رہنے میں نظر آرہی ہو تو ’’چپ رہنا‘‘ کوئی دوسرے سے بے وفائی نہیں تھی۔ اسٹیٹس کو کا تو خمیر ہی خود غرضی سے تیار ہوا ہے، اب جبکہ آصف زرداری کا بظاہر حکومت پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمتی رویہ اصل میں ’’شریف برادران‘‘ کے زیر عتاب آنے پر خود کو بچانے کے لئے خاموشی کی راہ تھی، اسی میں انہیں اپنی خیر و بچت نظر آرہی تھی، سو انہوں نے شریف خاندان کے خلاف کڑے احتساب پر چپ بذریعہ مفاہمت سادھ لی، لیکن اس سے ان پراحتساب کی لٹکی تلوار سر سے اونچی تو کافی ہوگئی تھی لیکن لٹکی رہی اور اب یہ قریب تر ہے ،مفاہمت پھیکی پڑتی جارہی ہے اور اسٹیٹس کو کا خمیر بظاہر الگ الگ زرداری صاحب کو میاں صاحب کے قریب لارہا ہے جس کے انتظار میں میاں صاحب تھک کر مایوس ہوگئے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دو ماہی عمران حکومت کے خلاف آصف زرداری نے حکومت سے باہر پارلیمان کی جماعتوں کے اکٹھے ہو کر قرار داد لانے کی جس خواہش کا اظہار پریس کانفرنس میں کیا ہے، کیا ایوان میں وہ قرار داد منظور ہوجائے گی؟ اور ہوگئی تو اسٹیٹس کو کی اجتماعی قیادت عمران خان کی دیانتدار، فکر مند اورعوام دوست قیادت(لیکن اناڑی حکومت) کا کیا کچھ بگاڑ سکتی ہے؟

اناڑی حکومت کے متحدہ اپوزیشن کے کچھ بگاڑنے یا نہ بگاڑنے کا سوال یوں پیدا ہوتا ہے کہ عمران حکومت اناڑی تو واقعی ہے لیکن اس کے جو امتیازات ہیں، وہ پاکستان میں کسی پاپولر پارٹی کے نہیں۔ سب سے بڑھ کر برسہابرس کے بعد ملک میں ایسی حکومتی قیادت آئی ہے جس کی دیانت اور صداقت مسلمہ ہے، جو کڑے احتساب اور سب شہریوں پر قانون کے یکساں اطلاق پر یقین رکھتی ہے، جس کی تمام ریاستی اداروں سے ہم آہنگی ہے، جو پیپلز پارٹی کے مکمل زوال پذیر ہونے پر واحد وفاقی پارلیمانی جماعت کا درجہ حاصل کررہی ہے جس نے تیس سال سے کراچی میں قومی سیاست کے بحران کے بعد پھر کراچی کو پاکستانی سیاست کا رخ دکھادیا ہے اور وہاں اپنی جگہ بھی بنالی ہے، اگرچہ اسٹیٹس کو کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں لیکن گزشتہ دو سال میں مختلف پاپولر پارٹیوں کے ٹوٹے ہوئے تارے اس میں شامل ہو کر نئی قومی سیاست اور عمران خان کی قیادت کے رنگ سے متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ عمران خان پارٹی کے اندر بھی احتسابی انداز اختیار کرتے معلوم دے رہے ہیں اور یہ جو بلاول شہباز شریف اور زرداری جیسے ان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کا طعنہ دے رہے ہیں، اسے ضمنی انتخابات کے انتہائی شفاف اور اطمینان بخش نتائج نے ناصرف لغو ثابت کردیا بلکہ عام انتخابات کی کریڈیبلٹی بھی اس سے بڑھ گئی ۔ وگرنہ اسٹیٹس کو کی حکومتیں ضمنی انتخابات جیتنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتی تھیں۔ پھر ایسا نہیں کہ عمران حکومت کے ابتدائی اقدامات کوئی اہمیت نہیں رکھتے، بیوروکریسی کے اللے تللے اور سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ کا انداز حکومت دم توڑتا معلوم دے رہا ہے۔ قومی معیشت کو تباہی کے دہانے پر جس طرح پہنچایا گیا، عمران خان اس پر فقط شدید فکرمند ہی نہیں بلکہ عملاً بہت کچھ کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان کی بین الاقوامی قبولیت اور پاکستان کی خودی کا گراف ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔

اس کے مقابل، متحدہ اپوزیشن کس الزام پر محاذ آرائی کرے گی کہ یہ احتساب کیوں کر رہی ہے؟ ملک کی لوٹی دولت لانے کے لئے اس نے نیب ، ایف آئی اے اور متعلقہ اداروں کو آزاد کردیا ہے۔ عدلیہ سرگرم ہے اور ملکی وسائل سے انرجی تیار کرنا ٹاپ قومی ایجنڈا بن گیا۔ متحدہ اپوزیشن، اسٹیٹس کو کی بحالی کے لئے محاذ آرائی کرے گی؟ دم توڑتا اسٹیٹس کو جس نے پاکستان کا دم نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن عمران کی مزاحمت سے وہ پاکستان کو مکمل تباہی سے دو چار کرنے میں ناصرف بری طرح ناکام ہوگیا بلکہ اپنے کرتوتوں پر آج بمطابق آئین و قانون زیر احتساب ہے۔

تازہ ترین