• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب ریفرنس میں احد چیمہ کی پراپرٹی مالیت دعوے سے مختلف

اسلام آباد(انصار عباسی) قومی احتساب بیورو (نیب) نے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ ادارے کی جانب سے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ کیخلاف ذرائع سے زیادہ آمدن کا ریفرنس دائر کیا گیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بیورو پریشانی کا شکار ہے کہ اس کیس میں شامل رقم کروڑوں میں ہے یا اربوں میں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے پریس ریلیز میں نیب نے اعلان کیا کہ چیمہ کے پاس ان کے نام پر اور ان کے اہل خانہ کے نام پر اربوں روپے کی جائیداد ہے۔ تاہم، اپنے ریفرنس میں بیورو نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم کے پاس 44؍ کروڑ 90؍ لاکھ (449؍ ملین) روپے کی پراپرٹی اپنے اور اپنے زیر کفالت افراد اور بے نام داروں کے نام پر ہے۔ ریفرنس میں بتایا گیا ہے کہ 449؍ ملین میں سے 352؍ ملین (35؍ کروڑ 20؍ لاکھ) روپے ذرائع سے زیادہ آمدن میں شمار ہوتے ہیں۔ جس وقت نیب کے پریس ریلیز میں ’’اربوں روپے‘‘ لیکن ریفرنس میں 352؍ ملین روپے کی بات کی گئی ہے، لیکن اسی وقت آشیانہ کیس کے ملزم کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر دائر کردہ ریفرنس کو کیس اسٹڈی کے طور پر لیا جائے تو یہ بیورو کے تفتیش کاروں کی ساکھ اور ان کی مہارت کو بے نقاب کر سکتا ہے۔ نیب ریفرنس کے مطابق، احد چیمہ نے آمدن سے زیادہ ذرائع میں 352؍ ملین روپے جمع کیے لیکن افسر کے قریبی ذریعے کا کہنا ہے کہ بیورو کی جانب سے ظاہر کی گئی پراپرٹی اور دکھائی گئی مالیت میں 18؍ کروڑ (180؍ ملین) روپے کے اثاثے ان کے رشتہ داروں حتیٰ کہ کاروباری شراکت داروں (بزنس پارٹنرز) کے ہیں۔ باقی 7؍ کروڑ روپے (70؍ ملین) ملزم کو تحائف کی مد میں ملے تھے جبکہ 45؍ ملین روپے کی اقساط کو بھی ادا شدہ قرار دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تیہرا نامی گائوں میں 99؍ کنال زمین اور بیدیاں نامی گائوں میں 3 کنال زمین کی موجودگی کا جو دعویٰ کیا گیا ہے وہ بے بنیاد ہے۔ ریفرنس میں جان بوجھ کر ارتداد سرمایہ اور دیگر مشترکہ خاندانی وسائل کے حوالے سے جو ثبوت پیش کیے گئے تھے انہیں نظرانداز کیا گیا، ان ثبوتوں میں آبائی جائیداد اور بھائی سے ملنے والی رقم کے ثبوت شامل ہیں۔ اگرچہ نیب کے دعوے پر فیصلہ عدالت میں ہوگا لیکن کوئی یہ تو پوچھے کہ نیب نے احد چیمہ کی گرفتاری کے فوراً بعد میڈیا میں جو دعوے کیے تھے، کہ ان کے ترکی اور پرتگال میں آف شور اکائونٹس ہیں، اور شہ سرخیوں میں ذرائع نے دعوے کیے تھے کہ اربوں ڈالرز کے اثاثے ملے ہیں، ان کا کیا ہوا۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر کیا نیب یہ بتائے گا کہ میڈیا کو اثاثوں کی مالیت کا اربوں کا بتایا گیا تو یہی اثاثے ریفرنس میں کروڑوں کے کیسے ہوگئے! ذریعے نے کہا کہ ابتدا سے ہی جس انداز سے اس کیس کو چلایا جا رہا ہے اس سے نیب کی قابلیت اور غیر جانبداریت کے حوالے سے شکوک و شبہات بڑھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں نیب کا طریقہ کار بہت عجیب ہے، حتیٰ کہ کچھ معاملات میں ادارے کی کارکردگی اس کی روایتی پولیس چالبازی سے بہت مختلف ہے۔ اثاثوں کی انکوائری میں کسی بھی شہری کے خلاف مقدمہ کیا جا سکتا ہے۔ دوستوں، رشتہ داروں اور جان پہچان کے لوگوں کو بے نام دار بتا کر انہیں بھی ملزمان قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کے متعلق بتائیں اور ان کے ثبوت دیں۔ یہ الزامات عائد کیے جا تے ہیں کہ گواہان کو ہراساں کیا جاتا ہے اور ان کی توہین کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اہل خانہ میں شامل خواتین سے بھی بدسلوکی کی جاتی ہے اور انہیں گرفتاری کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی طرح ملزم سے جڑا ہوا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے لین دین اور کاروبار کے متعلق تفصیلات مکمل اور جامع انداز سے دستاویزات کی صورت میں پیش کریں تاکہ انہیں ملزم کے ساتھ اثاثہ کیس میں نہ گھسیٹا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گواہان کی بیشتر تعداد کو نیب کی جانب سے اثاثہ جات کا پروفارما دیا جا رہا ہے جسے وہ پر کریں اور تفتیشی افسر (انوسٹی گیشن آفیسر) کی مرضی کا بیان دے کر اپنی جان چھڑائیں۔ مبینہ طور پر وہ رشتہ دار جنہیں بے نام دار‘‘ بتایا گیا ہے ان کی آزاد آمدنی کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ احد فیملی کا دعویٰ ہے کہ ملزم کے ٹیکس کی تفسیلات کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ اثاثوں اور دولت کے گوشوارے جمع کراتے رہے ہیں۔ نیب کے ریفرنس میں جو جائیدادیں دکھائی گئی ہیں ان کی زیادہ تر تعداد اعلانیہ ہے اور ٹیکس گوشواروں میں ان جائیدادوں کے حصول کے ذرائع بھی بتائے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ احد چیمہ نے دعویٰ کیا ہے کہ نیب کے ریفرنس میں ایک بھی اثاثہ ایسا نہیں ہے جو ان کے ہے اور اس کا ذکر انہوں نے ٹیکس گوشواروں میں نہیں کیا۔ نیب کے ریفرنس میں جن دیگر اثاثہ جات کا ذکر کیا گیا ہے وہ احد چیمہ کے ہیں اور نہ ہی ان اثاثوں سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ یہ صرف نیب کی خواہش پر مبنی فہرست ہے جو ریفرنس کی صورت میں کیس بنانے کیلئے تیار کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ معاملات میں دفاع میں ملزم کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ مثلاً پلاٹ کی فروخت کا اعتراف کیا گیا ہے لیکن اس سے حاصل ہونے والی دولت کا نہیں بتایا گیا کیونکہ یہ جائیداد ملازمت شروع کرنے سے پہلے کی ہے اور اس وقت کوئی زیادہ بچت تھی، آمدنی اور ذرائع نہین تھے جو کروڑوں روپے کے ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ آٹھ مہینوں سے زیر حراست شخص اپنے متعلق بمشکل ہی ثبوت دے سکتا ہے کیونکہ تمام تر ریکارڈ نیب کے پاس ہے اور ملزم کی اس ریکارڈ تک رسائی نہیں۔ احد فیملی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ احد چیمہ اور ان کی اہلیہ کے اثاثہ جات کے گوشوارے اور دولت کے گوشوارے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مندرجہ ذیل اثاثے ظاہر کر رکھے ہیں۔ ۱) پلاٹ نمبر 710؍ ڈی ایل ڈی اے ایونیو ون لاہور جسے 2017ء میں فروخت کیا گیا۔ ۲) بینک الفلاح سوسائٹی میں دو پلاٹ جن پر تاحال کوئی تعمیرات نہیں کی گئیں۔ ۳) حافظ آباد میں 123؍ کنال زرعی زمین جس پر کاشتکاری جاری ہے۔ ۴) حافظ آباد میں 188؍ کنال زرعی زمین (جس میں سے 54 19 کنال فروخت کیے گئے) اس زمین پر بھی کاشتکاری جاری ہے۔ ۵) اسلام آباد کی ایمپلائز سوسائٹی میں پلاٹ نمبر 71؍ ون بی، ملکیت میں ہے۔ ۶) لاہور کے کرباتھ ولیج میں تین کنال زرعی زمین جس پر کاشتکاری جاری ہے۔ ۷) کرباتھ لاہور میں 14؍ کنال 7؍ مرلہ زمین جس پر کاشتکاری جاری ہے۔ ۸) کرباتھ لاہور میں 3؍ کنال 12؍ مرلہ زمین جس پر کاشتکاری جاری ہے۔ ۹) لاہور کی تحصیل ماڈل ٹائون کے گائوں جھلکے میں اقساط پر حاصل کی گئی زرعی زمین۔ ۱۰) دھوری لاہور میں زرعی زمین جو بطور تحفہ ملی، اس پر کاشتکاری جاری ہے۔ ۱۱) تہرا میں 8؍ کنال زرعی زمین جس پر کاشتکاری جاری ہے۔ ۱۲) ہلوک ویو اسلام آباد میں فلیٹ نمبر 1004؍ جو ابھی تیار نہیں ہے لیکن قسطوں پر حاصل کیا گیا۔ ۱۳) ایف آئی اے سوسائٹی اسلام آباد میں دو پلاٹس ہیں جس کی صرف ڈائون پیمنٹ کی گئی ہے لیکن ابھی تیار نہیں ہے۔ ۱۴) ایف آئی اے سوسائٹی اسلام آباد میں دو پلاٹس، جن کی ڈائون پیمنٹ کردی گئی ہے لیکن تیار نہیں ہیں۔ ۱۵) فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائونسنگ فائونڈیشن میں دو پلاٹس ہیں، جن کی صرف پہلی ادائیگی کی گئی ہے، یہ بھی تیار نہیں ہیں۔ ۱۶) فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ فائونڈیشن جی تھرٹین اسلام آباد میں دو فلیٹس، اقساط پر بکنگ کی، ابھی تیار نہیں ہیں۔ ۱۷) فیصل ٹائون اسلام آباد میں پلاٹ 240؍، اس کی بکنگ اقساط پر کی گئی ہے اور یہ بھی تیار نہیں ہے۔ ۱۸) پلاٹ 1570؍ فیصل ریزیڈنشیا اسلام آباد، اقساط پر بکنگ کی گئی، تیار نہیں ہے۔ ۱۹) اسلام آباد کے سیکٹر آئی 15؍ میں فلیٹ اے ون، ابھی تیار نہیں ہے۔

تازہ ترین