• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ
(انتیسویں قسط)
ابو محمد فلسطینی کے ہاں دعوت طعام
نمازکے بعد ہمیں قریبی گیٹ سے باہر نکل گئے۔ ہمارا رخ دیوار گریہ کے متصل سٹریٹ کی طرف تھا جہاں ابو محمد کی دوکان تھی۔ جونہی ہم باب السلسلہ سے باہر نکلے تو ابو محمد ہمارے انتظار میں کھڑے تھے عربی روایات کے مطابق انہوں اہلا و سہلا و مرحبا سے ہم سب کا استقبال کیااور وہ اپنی دوکان میں لے گئے ۔ دوکان میں ان کی اہلیہ بھی ہمارے قافلے کی منتظر تھیں انہوں نے بھی خوش آمدید کہا۔ ان کی اہلیہ بہت سادہ مزاج کی خاتون ہیں اور دوکان کے پچھلے حصے میں کرسیوں پر براجمان ہوگئے ۔دونوں میاں بیوی نے یہاں کے احوال سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔ابو محمد پیدائشی طورپریہاں کا باسی ہے ۔ ابومحمد کا والد یہاں ستر سال کی عمر تک مسجد اقصی کے پڑوس میں یہ چھوٹی سی دوکان چلاتارہا۔ لیکن ابومحمد کی قسمت نے یاوری کی اور یہ دوکان بہت بڑی بن گئی ۔والد کے انتقال کے بعد ابو محمد نے یہ کاروبار سنبھال لیا ۔ایک دن دیوار کے ساتھ کچھ کام کرتے ہوئے ایک کونے میں کچھ چیزٹھونکنے کیلئے ہتھوڑا مارا تو ایک بہت بڑا تودا ان پرآن گرا۔ ریت اور ملبے کو صاف کیا انہیں اندر سرنگ محسوس ہوئی۔میاں بیوی بڑے حیران ہوئے انہوں نے وہ ساری ریت صاف کی تو اندر سے سرنگ مزید چوڑی ہوتی گئی ۔ جو پھر نیچے کی طرف جارہی تھی ۔اور بڑی آسانی کے ساتھ باقی سرنگ صاف نکل آئی جیسے عموماً پہاڑوں میں ہوتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے کسی زمانے میں یہاں سے مسجداقصیٰ کی جانب کوئی سرنگ تھی جہاں سے کوئی خاص مہمان نماز ادا کرنے کیلئے جایا کرتے تھے ۔چونکہ مسجد اقصی کی تاریخ بہت قدیم ہے کتنے زمانے بیت گئے لاکھوں کہانیاں اس کے ساتھ وابستہ ہیں ۔
ابومحمد نے بتایا کہ ہم نے اس راز کو چھپائے رکھنے کی بہت کوشش کی۔لیکن جب روزانہ ریت پلاسٹک کے بیگوں میں بھرکرباہر پھینکنے کیلئے جانے لگے تو اسرائیلی فورسز کو شک گزار انہوں نے آکر چیک کیا تو ابومحمد کو دھمکانے لگے لیکن کچھ نہیں کرسکتے تھے ۔ پھر اس کی قیمت لگانے لگے اس نے بتایا کہ اسرائیلیوں نے کئی ملین ڈالر کی قیمت لگائی ہے بلکہ اب تو وہ اس کی منہ مانگی قیمت دینے کیلئے تیار ہیں ۔لیکن ہمارا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ یہ ہماری نہیں امت اسلام کی پراپرٹی ہے اسے ہم یہودیوں کے ہاتھ نہیں بیچ سکتے ۔ یہ بڑی دلچسپ سٹوری ہے جسے سن کرایمان تازہ ہوجاتاہے ۔کیونکہ اسرائیلی یہاں ملکیت حاصل کرنے کیلئے ہر قسم کی قیمت دینے پر تیار ہوجاتے ہیں لیکن غیرت مند مسلمان نہیں مانتے ۔جیسا کہ حکایات مقدسیہ میںالحاج موسی الخاص کے بارے میں بتایا گیاکہ ایک یہودی وزیر نے دو لاکھ ڈالر میں چھوٹی سی دوکان بیچنے کی آفرکی جس کا انہوں نے انکار کردیا اوپر آپ نے مریم بی بی کے جذبات بھی سنے کہ ان کے چھوٹے سے حجرے کی منہ مانگی قیمت دینے کیلئے اسرائیلی تیار ہیں لیکن وہ ارض مسجد اقصیٰ کسی قیمت پر بھی یہودیوں کے حوالے کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ابو محمد بھی دوسرے فلسطینیوں کی طرح آئے دن کے ہنگاموں سے کافی پریشان رہتاہے ۔ جس سے ان کا کاروبار بھی ڈانواڈول رہتاہے۔لیکن عادی ہوچکا ہے اس کا کہنا ہے کہ میرا باقی سارا کنبہ یہاں سے پچاس ساٹھ میل دور غزہ میں مقیم ہے ۔انہیں وہاں جانا زیادہ مشکل نہیں کیونکہ ان کے پاس یروشلم میں ریذیڈنسی کا پرمٹ ہے ۔ لیکن اُن لوگوںکا یروشلم میں داخلہ ممنوع ہے ۔ جیسا کہ حل حلول کے شیخ عصام کی بابت میں نے بتایا تھا کہ انہیں القدس الشریف کی زیارت کیے ہوئے 19سال بیت چکے ہیں۔ یروشلم اور غزہ والوں کا حال بھی کشمیری خاندانوں جیسا ہے ہر خاندان میں یتیموں ،بیواؤں اورمسکینوں کی بہتات ہے ۔ابومحمد اور ان کی اہلیہ نے عربوں کے طریقے کے مطابق بڑے بڑے طباقوں میں کھانا پروس دیا۔ ان کی اہلیہ نے معذرت کی کہ شہر کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہم شہر سے باہر نہیں جا سکےاس وجہ سے سامان خوردو نوش کم پڑگیاہے ۔کھانے کے آخر میں انہوں نے چھوٹے چھوٹے پیالوں میں ’’کافی‘‘ پیش کی ۔کھانے کے بعد کافی کا دور چلا۔ فارغ ہوکر انہوں نے کچھ یادگار تصاویر یا گروپ فوٹو بنائے ہم سب نے ابومحمد اور ان کی اہلیہ کی ان حالات میں مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مسنون دعا پڑھی۔ یہ تو ان کی دوکان ہے لیکن ان کا گھر ذرا فاصلے پر ہے سب خواتین کو ان کی اہلیہ نے اپنے گھر لیجانے کا پروگرام بنا ڈالا جہاں اور بھی لوگ ملیں گے ۔ ہم سب اپنے میزبانوں ، فلسطینی بھائیوں اور مسجد اقصی کے پڑوسیوں سے ملنے کی خاطر روانہ ہوئے لیکن عزرائیلی فورسز نے ’’طریق الآلام‘‘ پر ناکہ لگا رکھا تھا انہوں نیاس قافلے کو آگے بڑھنے سے منع کردیا ۔بہتیرا سمجھایا گیا کہ ہم زائرین ہیں اور یہ ہمارے میزبان ہیں لیکن وہ نہیں مانے ۔مجبوراً ہمیں یہ پروگرام کینسل اور ہوٹل واپسی کاراستہ اختیار کرنا پڑا۔ ہم سب القدس کی تنگ گلیوں سے بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگے کیونکہ ماحول میں سخت کشیدگی تھی ۔ہرجگہ عزرائیلی فوجیوں نے بیرئیر لگا رکھے تھے ۔ طریق الآلام سے دمشقی گیٹ تک روکاوٹیں ہی روکاوٹیں تھیں ۔ ہم تو مہمان تھے ایک دو دن بعدہم نے اپنے وطن جانا تھا لیکن یہاں کے باسیوں کی یہ بیچارگی اور مظلومیت ہر وقت خوف کے سائے منڈلاتے دیکھ کرخاص طور پر ہم آزاد ملک (پاکستان اور برطانیہ ) کے باسیوں کو بہت دکھ پہنچا اور نعمت آزادی کی قدر دو چند ہوگئی ۔ دمشقی گیٹ سے بیرونی دیوار تک بہت اونچائی تھی باقی سب راستے بند کیے ہوئے تھے اس لیے یہاں رش بھی زیادہ تھا ۔جگہ جگہ اسرائیلی فوجی کھڑے تھے ہر آنے جانے والے کو گھورتی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ میری اہلیہ اچانک پاؤں پھسلنے کی وجہ سے ایک فوجی لڑکی کے اوپر جاگری ۔حیرت یہ ہوئی کہ اس لڑکی نے سوری بولا اور پوچھا کوئی چوٹ تو نہیں آئی لیکن لہجے سے لگا کہ یہ لڑکی اسرائیلی نہیں پاکستانی ہے کیونکہ اس کی شکل بھی پاکستانیوں کی طرح کی تھی اور لہجہ بھی ۔ بعد میں احساس ہوا کہ شاید یہ لڑکی ان لوگوں میں سے ہو۔ جنہیں اسرائیلی فون میں بھرتی کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ قادیانیوں کے بارے میں مشہور بات ہے ۔بہرحال ہم بخیریت اپنے ہوٹل پہنچے اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔راستے میں شیخ امجد الہاشمی ہوٹل کے مالک کا پیغام ملا کہ صبح میرے ہوٹل میں تمام دوستوں کا ناشتہ ہے اس بہانے کئی مشائخ سے ملاقات ہوجائے گی ۔ ہم بھی بچتے بچاتے ان کے پاس سے گزر گئے ۔ اہلیہ تھکاوٹ کی وجہ سے ساتھ دینے اکتاگئی میں نے کہا آرام سے چلی آؤ ۔ ایک دفعہ تو ہم ایک نوجوان اسرائیلی فورس کے ساتھ ٹکراگئے گھبرا کر دیکھا تو وہ نوجوان لڑکی تھی ۔ مجھے بڑا تعجب ہوا جب اس نے مسکرا کرsorryکہا حالانکہ ڈرنا ہمیں چاہیئے تھا۔ورنہ یہ ازرائیلی اس طرح اوپر گرنے کو کہاں برداشت کرتے ہیں ۔ بعد میں ایک دوست نے بتایا کہ کچھ قادیانیوں نے یہاں کی فوج میں شمولیت کی ہوئی ہے مجھے آج ازرائیلی فوج کی لڑکی کے لب و لہجے سے یہ بات سچی ثابت ہوتی معلوم ہوئی ۔نیم تاریک رات تھی ۔اس لیے زیادہ دیر تک وہاں ٹھہرا نہیں جاسکتاتھا۔ بہرحال ہم اس طرح اپنے مستقر پر پہنچے۔ وہاں پہنچتے ہی ہاشمی ہوٹل والے بھائی کا پیغام ملا کہ صبح کا ناشتہ میں آپ نے ہمارے ہوٹل میں جمع ہوں القدس الشریف کے معززین سے آپ کو ملوانا ہے ۔پھر غزہ سے فون کال ریسیو ہوئی عربی زبان میں گفتگو کرنے والے بھائی ایک نوجوان عالم دین’’ الشیخ محمود حمدان ‘‘ تھے کہ آپ کا فلسطین میں آنا بہت مبارک ہو میں نے ان سے پوچھا میرا نمبر آپ کو کیسے ملا انہوں نے بتایا۔لاہور سے الشیخ مبشرربانی صاحب نے بتایا تھا کہ آپ فلسطین آئے ہوئے ہیں ۔سنا ہے کہ آپ کے اساتذہ میں پاکستان، مصر، سعودی عرب ، سودان اور شام کے بڑے بڑے مشائخ شامل ہیں ، یوں میں آپ سے سند لینا چاہتاہوں ۔میں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے ہماری تو کل واپسی ہے ۔اورآپ یہاں آبھی نہیں سکتے ۔غزہ یہاں سے ۸۰کلومیٹر دورہے ۔انہوں نے بتایا کہ ہمارے ایک اور دوست یہاں رہتے ہیں وہ صبح آپ سے ملیں گے ۔انہوں نے پوچھا ممکن ہو توحج پرملاقات ہوجائے گی ؟الشیخ حمدان تو اس بار حج کیلئے پہنچ گئے لیکن میں حاضری نہ دے سکا لیکن انہوں نے برابر رابطہ رکھا اور جن جن مشائخ سے ملے ہماری بھی ملاقات کرواتے رہے ۔ اب وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کیلئے سوڈان جا رہے ہیں ۔
تازہ ترین