کسے ووٹ دیا جائے، اس وقت یہ سوال ہر سوچنے والے پاکستانی کے دماغ میں سلگ رہا ہے ۔پیپلز پارٹی سے قوم مایوس ہو چکی ہے۔مسلم لیگ نون نے بھی پچھلے پانچ سال میں اپنی جس کارکردگی کاپنجاب میں مظاہرہ کیا ہے وہ پیپلز پارٹی سے زیادہ مختلف نہیں،امیدوبیم کے بیج لٹکتی ہوئی نگاہیں صرف عمران خان کی طرف دیکھ رہی ہیں۔اگرچہ تحریکِ انصاف ، پی پی پی اور نون لیگ سے بہت بہتر ہے مگریہ بھی سچ ہے کہ اس کے آنے کے باوجود کسی بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔صرف اتنی توقع ہے کہ کسی حدتک کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا۔عمران خان سے کسی انقلابی تبدیلی کی امید کیوں نہیں کی جاسکتی ۔اس کا سیدھا سادہ جواب تو یہی ہے کہ تینوں پارٹیوں کے منشور میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں۔تینوں پارٹیاں سرمایہ داری اور جا گیرداری کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ملک کو ایک فلاحی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں ۔ ہاں البتہ نون لیگ اور پی پی پی نے اپنے اِس منشور پر بھی کبھی عمل درآمد نہیں کیا جب کہ عمران خان کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا وہ عملی مظاہرہ کریں گے معاملہ صرف انتخابی نعروں تک محدود نہیں رہے گاجہاں تک پارٹیوں کے منشور کی بات ہے تو ایم کیو ایم کے علاوہ تمام پارٹیوں کا ایک ہی منشور ہے ۔صرف ایک ایم کیو ایم ملک کی ایسی جماعت ہے جو جاگیرداری اور سرمایہ داری اور ملائیت کا خاتمہ چاہتی ہے جس نے اس دیس کے بند بند کو مضمحل کر رکھا ہے ۔یہاں سوال سامنے آتا ہے کہ ایسا عوامی منشور رکھنے کے باوجودایم کیو ایم صرف کراچی اور حیدر آباد تک کیوں محدود ہے باقی تمام ملک میں لوگ اسے کیوں ووٹ نہیں دیتے۔اس سوال کا جواب شایدکسی کے ساتھ ہونے والی میری اس گفتگو سے مل جائے ۔
(گذشتہ دنوں ایک چھوٹی سی خبر میری نظر سے گزری تو میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک دردمند دوست سے کہا” الطاف حسین کے خلاف کراچی میں ایک اور قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیاہے ۔ کیوں ۔۔پھرمقدمہ الطاف حسین ہی کے خلاف کیوں درج ہوا ہے۔ قتل کا کوئی مقدمہ آصف زرداری کے خلاف کیوں نہیں درج کیا جاتا۔اسفند ولی خان کے خلاف ایسی کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی ،کیا کراچی میں ہونے والے کئی قتل ایسے نہیں ہوتے جن کے وارث چیخ چیخ کر اپنے مقتول کے قتل کا الزام انہی لیڈروں پر لگا رہے ہوتے ہیں ۔ یقیناً ایسا ہی ہوتا ہے مگر پولیس ایسا کوئی مقدمہ درج کرنے پر تیار نہیں ہوتی ۔کیوں۔میرے خیال میں تواس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام اور ملائیت کی بقا کی جنگ لڑنے والے نہیں چاہتے کہ الطاف حسین پاکستان آسکیں۔اور ملک انقلاب کی طرف رواں دواں ہو“ میراوہ دوست جس کا دل پاکستان کے لئے دھڑکتا ہے اس نے پریشان کن نظرسے مجھے دیکھا اور کہا کہ” یہ تم کیا کہہ رہے ہو کیاتم چاہتے ہو پورے پاکستان کی وہی صورت حال بن جائے جو کراچی کی ہے “مجھے ان کی بات سن کر بہت دکھ ہوااور میں اس ہولناک پروپیگنڈے کے متعلق سوچنے لگا جومسلسل الطاف حسین کے خلاف جاری ہے۔میں نے ان سے کہا ”پہلی بات تو یہ ہے کہ کیاپاکستان کے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں جو حالات ہیں۔کراچی میں صورت حال اس سے بھی بدتر تو نہیں ہے۔اگران علاقوں ہونے والی تمام دہشت گردی کے ذمہ دار طالبان ہیں تو کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمہ داروہ کیوں نہیں وہاں کے حالات کی ذمہ داری متحدہ قومی موومنٹ پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ کراچی تو ایم کیو ایم کا شہر ہے وہ کیوں اپنے شہر میں دہشت گردی کریں گے۔“ میرے اس بزرگ نے بڑے تحمل سے میری تمام گفتگو سنی اور کہنے لگے ۔”میں نے اس طرح کبھی سوچا نہیں مگر ماضی میں کراچی میں جتنے آپریشن فوج نے کئے وہ ایم کیو ایم کے خلاف کئے گئے ۔ٹیلی ویژن پر جو عقوبت خانے اور جناح پور کے نقشے دکھائے گئے تھے پتہ نہیں ان کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں لیکن ذہن سے ابھی تک چپکے ہوئے ہیں ۔“میں نے کہا ”یہ بات تو بڑے دنوں سے ثابت ہوچکی ہے کہ جناح پور اور وہ عقوبت خانے پروپیگنڈے کاحصہ تھے جو آپریشن کا جواز پیدا کرنے کیلئے بنائے گئے تھے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپریشن کیوں کئے گئے ۔تو اس کا صرف اتنا جواب ہے کہ جب کوئی اپنا حق لینے پر بضد ہوجاتا ہے تو اسے دبانے کیلئے ہر طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ کراچی کے لوگ ایم کیو ایم کو ووٹ کیوں دیتے ہیں۔کیا آپ کا یہی خیال ہے کہ لوگ خوف کی وجہ سے ایم کیوایم کو ووٹ دیتے ہیں“کہنے لگے ”ہاں میرا یہی خیال ہے۔“میں نے ان سے کہا ” لاکھوں لوگوں کو ڈرا کران سے ووٹ نہیں لئے جا سکتے ہیں اگر سو دو سو ووٹوں کی بات ہوتی تو یہ ممکن تھامگرپندرہ ،بیس لاکھ لوگوں کو ڈرانے کیلئے بھی ایک ڈیڑھ لاکھ ڈرانے والوں کی ضرورت ہے۔یہ سب کہانیاں ہیں جناب۔“کہنے لگے ”یار تم نے میرے دماغ میں ایک نئی کھڑکی کھولی ہے ۔ میں کسی وقت اس میں جھانک کر اچھی طرح دیکھوں گا۔ کیونکہ ان باتوں کے علاوہ تو ایم کیو ایم سب سے بہتر پارٹی ہے ان کا منشور سب سے بہتر ہے وہی حقیقی طور پر جاگیرداری ، سرمایہ داری اور ملا ازم کے خلاف ہے ۔اور اس کا عملی ثبوت بھی فراہم کرتی رہتی ہے ان کا کوئی ایم این اے کوئی ایم پی اے کوئی منسٹر سرمایہ دار یا جاگیردار نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی ملا کو اپنی پارٹی کا ٹکٹ دیا ہے۔ اگر ان کے خلاف یہ جو الزامات ہیں ان کا تدارک کرلیاجائے تو ایم کیو ایم بہت کم وقت میں پورے ملک کی سب سے مقبول جماعت بن سکتی ہے )۔
جس بات پر اس گفتگو کا اختتام ہوا ہے میرے خیال میں فوری طور پر ایسا ممکن نہیں۔کیونکہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کو تحفظ دینے والے اس راستے میں دیوار کی طرح موجود ہیں دوسراجب تک ایم کیو ایم کی لیڈر شپ میں پنجابیوں پٹھانوں ، بلوچوں ، سندھیوں اور سرا ئیکیوں کوبھر پور نمائندگی نہیں ملتی اس وقت تک پورے ملک میں نہیں پھیل سکتی۔ سواِس وقت عمران خان کے علاوہ ہمارے پاس اور راستہ ہی نہیں ہے ۔اب تو یہ ممکن نہیں کہ ہم پاکستانی مسلمان بار بارانہی دوسوراخوں سے ڈسے جاتے رہیں۔مسلسل نام نہاد شریفوں اورباطن بھری زر داریوں کے دام ِ ہم رنگ ِ زمیں میں گرفتار رہیں۔ اب قوم اِ س مقام تک آگئی ہے جہاں وہ ہر حال میں تبدیلی چاہتی ہے۔اسے روٹی کپڑا اور مکان چاہئے جو شاید پاکستان میں پہلی بار تحریک انصاف کے دور میں غریبوں کو میسر آجائے۔
میری الطاف حسین سے اس سلسلے میں انتہائی مودبانہ گزارش ہے کہ پاکستان کی بہتری کیلئے وہ عمران خان کی حمایت کا اعلان کریں ۔میں یہ بھی جانتا ہوں کچھ عرصہ پہلے عمران خان نے ایم کیو ایم کے متعلق کوئی اچھی گفتگو نہیں کی تھی مگرمیں اس میں عمران خان کا کوئی قصور نہیں سمجھتا کیونکہ جس طرح کا خوفناک پروپیگنڈا ایم کیو ایم کے خلاف ہر دور میں جاری ہے اس کے نتیجے میں اصل منظر کو دیکھنا قطعاً آسان کام نہیں تھامجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آخر کار عمران خان بھی اس سلسلے میں حقائق تک پہنچ گئے ہیں اور الطاف حسین کی دور رس نگاہیں بھی یقیناً دیکھ رہی ہوں گی کہ اس وقت پاکستان کی بہتری کیلئے امید کا آخری چراغ عمران خان ہی ہیں۔