• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پختونخوا کے اسپتال سندھ سے بدتر، خود دیکھ کر آیا ہوں، آپ کا دوسرا دور حکومت، اب تک کیا کیا، جعلی اکائونٹس کیس ایک ہفتے میں انجام تک پہنچے گا، چیف جسٹس

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے اسپتال سندھ سے بھی بدتر ہیں، خود دیکھ کر آیا ہوں۔ چیف جسٹس نے صوبائی وزیر صحت سے مکالمہ کیا کہ آپ نے اب تک کیا کیا ہے؟ آپ کا دوسرا دور حکومت ہے۔ ڈیم کے بعد سب سے اہم کام آبادی کنٹرول کرنا ہے، اس کیلئے لانگ مارچ پر بھی تیار ہوں۔سی ڈی اے کے جس کام میں ہاتھ ڈالا وہی غلط، ا ب ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی ، بوتلوں کے بجائے گھڑے کا پانی پئیں، منرل واٹر کے نام پر لوگوں کودھوکا دیا جارہا ہے، پاکستان کیالوٹ کامال ہے، جے آئی ٹی کو جعلی اکائونٹس میں معلومات ملنے لگیں، موجودہ مقدمہ کو ایک ہفتہ کے اندر منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں، نمر مجید ایک ہفتہ میں بنکوں سے معاملات طے کریں، ہمار ا اصل مقصد پیسے کی ریکوری ہے تعاون نہ کیا گیا تو نمر مجید کو بھی گرفتار کروائیں گے ۔چیف جسٹس نے یہ ریمارکس مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران دیئے۔ جبکہ زیر زمین پانی نکالنے کے معاملے پر آئندہ سماعت پرپانی کی تمام کمپنیاں طلب کو طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں خیبرپختونخوا کے اسپتا لو ں کے فضلے کی تلفی کے معاملے کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں خیبرپختونخوا کے وزیر صحت ہشام انعام اللہ خان اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کتنا فضلہ ہے، کتنے انسنریٹر لگائے ہیں؟ فضلہ اکٹھا کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟ نجی اسپتالوں سے کتنا فضلہ اکٹھا ہوتا ہے اور کیسے تلف کرتے ہیں؟ڈی جی ہیلتھ کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری اسپتالوں سے روزانہ 173 اور نجی اسپتالوں سے 63 کلو فضلہ اکٹھا ہوتا ہے، 27 نجی ہسپتا لوں میں انسنریٹر لگے ہوئے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے صوبائی وزیر صحت سے مکالمہ کیا کہ آپ نے اب تک کیا کیا ہے؟آپ کا دوسرا دور حکومت ہے۔ وزیرصحت ہشام انعام اللہ خان نے کہا کہ میں اپنے کام سے اتنا ہی مخلص ہوں جتنا آپ اپنے کام سے، اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم آپ کے جذبے کی قدر کرتے ہیں لیکن 3000 کلو فضلہ انسنریٹر کے ذریعے نہیں جلایا جا رہا۔ عدالت نے صوبائی وزیر کو 10 دن کے اندر مکمل رپورٹ دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ مکمل رپورٹ دیں، یہ لوگوں کی صحت کا معاملہ ہے۔سپریم کورٹ میں آبادی میں اضافے پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ انسانوں کو درکار وسائل کم ہو رہے ہیں، ملک میں پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے، پانی کم اور پینے والے زیادہ ہو رہے ہیں، ڈیم کے بعد سب سے اہم کام آبادی کنٹرول کرنا ہے لیکن آبادی کنٹرول کرنے کے لیے مناسب مہم نہیں چلائی جا رہی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ذمہ داری پوری نہ کی تو ہم آنے والی نسلوں کے مجرم ہونگے جبکہ اپنے بچوں کو کہنا پڑے گا بچے دو ہی اچھے، خود سڑک پر چڑھ کر آگاہی فراہم کرونگا اور لانگ مارچ کیلئے بھی تیار ہوں۔ دوسری جانب دوران سماعت عدالتی حکم پر قائم کمیٹی نے آبادی میں اضافے سے متعلق سفارشات بھی پیش کیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دو ہفتے بعد عدالت سیمینار منعقد کریگی جس میں وزرائے اعلی سمیت اعلی حکام شرکت کرینگے جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سفارشات پر جوب جمع کرائیں اور تمام سفارشات ٹی وی چینلز پر نشر کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ منگل کو سپریم کورٹ میں جعلی اکا ئو نٹس کیس کی سماعت ہوئی ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جے آئی ٹی کو معلومات ملنے لگی ہیں اور اب رپورٹ کا انتظار ہے، ابھی اس بارے میں کوئی حکم جاری نہیں کرینگے۔ سماعت کے دوران ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ اومنی گروپ کے 11 ارب 29 کروڑ کے اثاثے بینکوں کے پاس رہن ہیں۔ چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے مالک انور مجید کے صاحبزادے نمر مجید سے متعلق استفسار کیا کہ کیا وہ آئے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہم نے نمر مجید کو گرفتار نہیں کرایا، کیونکہ کاروباری اور بینکوں کے قرضوں کے معاملات ہیں، اس وقت بینک کا نقصان ہو رہا ہے، وہ آپ کو پورا کرنا ہے۔اومنی گروپ کے وکیل منیر بھٹی نے کہا کہ ہم بینکوں سے مذاکرات کر رہے ہیں 10 دن کا وقت دیدیں، اومنی گروپ کے دوسرے وکیل خواجہ نوید نے عدالت سے استدعا کی کہ اومنی گروپ کے پیسے بینک میں منجمد ہیں اور قرضے وہاں سے ادا کرا دیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی اس بارے میں کوئی حکم جاری نہیں کرینگے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر 5 نومبر تک کیلئے ملتوی کردی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے زیر زمین پانی نکالنے کے معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔سپریم نے پانی بیچنے والے تمام کمپنیوں کو عدالت میں طلب کرلیا گیا۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نے بوتل کا پانی پینا بند کر دیا قوم سے بھی کہتا ہوں آپ بھی بوتل والا پانی بند کر کے گھڑے کا پانی پی لیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ میں کراچی میں ملک کی سب سے بڑی پانی بیچنے کی کمپنی کے پلانٹ کو دیکھنے گیا اس پانی کا پورا پلانٹ معیاری نہیں تھا، انہیں زمین مفت لیز پر دی گئی ہے،اسکا پانی کا نمونہ حاصل کیا وہ بھی معیاری نہیں تھا۔پانی کی کوالٹی دیکھ کر ہمارے ایکسپرٹ نے کہا کہ اس سے اچھا دریا کا پانی پی لیجئے، منرل واٹر کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ کراچی میں ایک گھنٹے میں 20 ہزار ٹن پانی نکالا جا رہا ہے، پانی بیچنے والی کمپنیوں کے مالکان بڑے بڑے لوگوں کے پاس بھاگ رہے ہیں، سفارشیں کرا رہے ہیں کہ 10 پیسے فی لیٹر ٹیکس لگائیں، کیوں لگا دیں پاکستان کیا لوٹ کا مال ہے، جو مقدمات ہم سب رہے ہیں انہیں منطقی انجام تک پہنچائیں۔ دورانِ سماعت ماہر ماحولیات نے بتایا کہ منرل واٹر کمپنیاں جو بوتلیں استعمال کر رہی ہیں وہ خوراک کے طے کردہ اصولوں پر پورا نہیں اترتیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جی ٹی روڈ پر جائیں سارا دن بوتلیں ہوٹلوں پر دھوپ میں پڑی رہتی ہیں، دھوپ میں رہنے کے باعث پلاسٹک کی بوتل سے خرابی ہوتی ہے۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ زیر زمین پانی عوامی ملکیت ہے، منرل واٹر کمپنیاں مفت پانی بیچ رہی ہیں، سندھ میں ایک روپیہ بھی نہیں دیا جارہا۔جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ پانی پر ڈیڑھ روپے فی لیٹر پیسے لینے کی تجویز ہے، سندھ لوکل گورنمنٹ کے تحت تمام صنعتوں سے ٹیکس لینگے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ منرل واٹر کمپنیاں اربوں روپے کھا گئی ہیں پاکستان کو کچھ دینا بھی ہے، چھوٹی کمپنیاں ویسے بند کر رہے ہیں بڑی کمپنیاں آکر جواب دیں۔ سیکرٹری پنجاب نے عدالت میں کہا کہ پنجاب میں فی لیٹرایک روپے اور خیبر پختونخوا میں ایک روپے 20 پیسے نرخ مقرر ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 18 لیٹر پانی کی بوتل کی لاگت 160 روپے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک بوتل پر 60 روپے منافع کمایا جا رہا ہے۔بعدازاں چیف جسٹس نے آئندہ منگل کو منرل واٹر کمپنیوں کے مالکان کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسلام اباد میں سوئمنگ پول پلاٹ پر پلازے کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ا ب ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی ۔ جس چیز کو ہاتھ ڈالا جاتا ہے وہی غلط ہے۔ سب چاہتے ہیں ملک میں قانون کی حکمرانی ہو،۔ سی ڈی اے کے کاموں کی بطور جج بھی سمجھ نہیں آرہی ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر تین افراد کو طلب کیا تھا عدالتی کمیٹی نے بھی اپنی تجاویز مرتب کر لی ہیں۔ اس دوران پلازہ مالک کے وکیل نے عدالت سے کہاکہ میری گزارش تھی دوکانداروں کو 2016 کے طے کردہ ریٹ پر ہی دوکانیں دی جائیں ۔کرایہ داروں کے وکیل نے کہاکہ دوکاندار سو فیصد اضافے کرایوں میں اضافہ کیلئے تیار ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دوکانداروں کا کوئی حق نہیں عدالت انکو پلازہ میں واپس لارہی ہے۔ دوسری صورت میں آپ پگڑیاں واپس لینے کے لیے ٹرائل کورٹ میں کیس دائر کریں۔کیس میں کرایہ داروں کانخرہ نہیں دیکھو ں گا۔کرایہ داروں کے وکیل نے کہاکہ پانچ سال کا ایڈوانس دینا مشکل ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایڈو انس ایک سال کا کرایہ داروں سے لے لیں۔ سالا نہ کرایہ میں اضافہ ہو گا۔دوکانوں کا کرایہ240 روپے فی مربع فٹ ہو گا۔کیس میں دوسرا مسئلہ سیکنڈ فلور کی کمر شلا ئز یشن کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سی ڈی اے کے جتنے مقدمات پر ہاتھ ڈالتے ہیں کامران لاشاری کا نام نکلتاہے۔ہر کیس میں لاقانونیت کی انتہا کر دی گئی میں تو سوچ رہا ہوں یہ مقدمات نیب کو بھیجوا دوں۔

تازہ ترین