• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ
درانی…بریڈفورڈ
(تیسویں قسط)
طول اللہ عمرہ و فضلہ الشیخ امجد الہاشمی سے ملاقات
اگلی صبح سوموار 17جولائی 2017، 23شوال 1438ھ کو ہم نماز تہجد کیلئے حسب معمول مسجد اقصیٰ چلے گئے۔ اشراق پڑھ کر واپس طریق الآلام میں ایک بہت خوبصورت اور جدید سہولیات سے آراستہ ہوٹل ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے بالکل متصل ہے۔ اس ہوٹل کا نام الہاشمی ہوٹل ہے جسے الشیخ ابو عثمان سلہب المعروف شیخ امجد اپنے بھائی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے ہم سے گزشتہ رات صبح کیلئے وعدہ لیا تھا آٹھ بجے ہم وہاں پہنچ گئے۔ شیخ موصوف نے ہمارا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا۔ وہ یروشلم کے مکینوں میں سے ہیں۔ فلسطینیوں کی طرح خوبصورت چوڑے چکلے، فراخ سینہ اور کشادہ دل و دماغ کے مالک ہیں، دینی تعلیم انہوں نے سعودیہ یونیورسٹیوں سے حاصل کی اور دونوں بھائیوں نے امریکی یونیورسٹی سے ہوٹل مینجمنٹ کی ڈگری لی ہوئی ہے۔ عربی تو ان کی مادری زبان ہے لیکن انگریزی بھی بڑی فصاحت کے ساتھ بولتے ہیں اور ہماری طرح انہیں بھی محدث زمان فضیلۃ الشیخ علامہ ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک واسطہ سے شرف تلمذ انہیں حاصل ہے۔ علم و عمل کا نور ان کے چہرے مہرے سے ٹپک رہا ہے۔ شیخ امجد پانچوں نمازیں باجماعت مسجد اقصیٰ میں ادا کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ جب بھی بحران پیدا ہوتا ہے، مسجد بند ہو کوئی امام پہنچے نہ پہنچے شیخ امجد وہاں ضرور پہنچتے ہیں۔ دو دن کے تعطل کے بعد مسجد اقصی کے چبوترے پر کھڑے ہوکر اذان دینے والے یہی مرد مجاہد تھے۔ تلاوت قرآن کریم بڑی خوبصورت کرتے ہیں، فلاحی کاموں میں بڑھ چرھ کر حصہ لیتے ہیں فلسطینیوں کے مظلوموں کی مدد کرنے کیلئے انہوں نے ایک فاؤنڈیشن بنا رکھی ہے۔ کئی قسم کی تصنیفات چھپواتے رہتے ہیں۔ ان کے ہوٹل کاؤنٹر پر حساب و کتاب کے رجسٹر نہیں فضیلۃ الشیخ امام ابن باز اور الشیخ ابن عثیمین کی تصانیف ترتیب سے رکھی ہوتی ہیں جو آنے جانے والوں کو ہدیہ کے طور پر دی جاتی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے مسجد اقصی کی تاریخ ایک A3پیپر پر مختلف رنگوں میں طبع کروائی ہے۔ ہوٹل میں طبعی رنگ انہوں نے بھر رکھے ہیں اسی دوران امام مسجد اقصی الشیخ علی العباسی بھی ہم سے ملنے تشریف لے آئے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے برطانوی زائرین کا ایک ہجوم ناشتے میں موجود تھا۔ ہر قسم کی چیزیں بوفے میں موجود تھیں، ہم نے کھانے سے زیادہ وہاں کے متاثرکن ماحول کا جائزہ لیا۔ امام عباسی نے بڑی تاریخی معلومات فراہم کیں۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ اوقاف کے سینئر رکن الشیخ ابوالعالی سے بھی ملاقات ہوگئی ان کی اسی بازار میں تاریخی اشیاء کی دوکان ہے۔ ناشتے سے فارغ ہوکر ہمیں لفٹ کے ذریعے چوتھی منزل پر لے جایا گیا جہاں کھلا ماحول تھا۔ شیخ امجد نے ہوٹل کی چھت پر سے پورے یروشلم کا نظارہ کروایا وہاں کی تاریخ بتائی اور الشیخ امجد نے اس گنجان آباد شہر کے سارے محلوں کا تعارف کروایا۔ ہم نے اس نظارے کی وڈیو بنائی۔ باتوں باتوں میں الشیخ امجد نے غزہ والے عالم کاذکر کیا کہ انہوں نے جو نمبر دیا تھا وہ تو آپ کا نکلا۔ بہرحال بڑی خوشی ہوئی آج کی ملاقات سے ۔کافی دیر ہم الہاشمی ہوٹل کی ضیافت سے ظاہری و روحانی لطف اٹھاتے رہے اور پھر گیارہ بجے کے قریب ہم اپنے ہوٹل واپس پہنچ گئے ۔ کل چونکہ واپسی ہے اس لیے کافی مصروف رہے یروشلم کی گلیاں احتجاجی نعروں سے گونجتی رہیں کیونکہ ازرائیلی فورسز نے مسجد اقصی کے اکثر دروازے بند کیے ہوئے تھے۔ کیونکہ وہ دروازوں کے باہر ڈیٹیکٹر نصب کررہے تھے جس کا انہیں کوئی حق نہ تھا ۔اس کے خلاف پورے القدس الشریف میں نوجوان اشتعال میں تھے ۔ یہ مصیبت جو اہل قدس اور اہل فلسطین پر آئی ہوئی ہے کوئی نئی بات نہیں ہے ۔پچھلی صدی کے ابتدائی سالوں میں حالات دگر گوں ہونا شروع ہوگئے تھے ۔فلسطین کے علاقے پر اسرائیلی ریاست کے قیام کا فیصلہ بھی برطانیہ نے ہی کیا تھا جس کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی طرح مقبوضہ فلسطین بھی مسلسل تباہی وبربادی میں مبتلاہے یہاںآئے دن نوجوانوں کو قتل کیا جارہاہے اور ان کے گھروں کو مسمار کردیا جاتاہے۔ باپردہ خواتین کے ساتھ زیادتیاں کی جاتی ہیں ۔ اسرائیل ایک ایسا خنجر ہے جو جنگ عظیم دوئم کے زمانے کی عالمی سپر طاقت برطانیہ کے وزیر اعظم بالفور نے مشرق وسطی کے قلب میں گھونپ دیا تھا۔تاکہ تیل کی دولت سے مالا مال اس علاقے پرسامراجی تسلط قائم ہوسکے اسرائیل نے اپنے قیام کے ساتھ ہی توسیعی پالیسی کے تحت فلسطینی علاقوں پر قبضہ شروع کرکے اسرائیلی بستیاں قائم کرنا شروع کردیں اور مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرکے ان کی زرخیز زمینوں کوہتھیانا شروع کردیا۔معلوم نہیں ظلم کی یہ سیاہ رات کب تمام ہوگی ؟ میرے لبوں پر علامہ اقبال کی یہ شاعری مچلنے لگی۔
اس بھٹکے ہوئے آہو کو، پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو، پھر وسعت صحرا دے
پیدا دل ویراں میں پھر شورش محشر کر
اس محمل خالی کو، پھر شاہد لیلا دے
رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر
خود داری ساحل دے، آزادی دریا دے
احساس عنایت کر، آثار مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشہ فردا دے
میں بلبل نالاں ہوں، اک اجڑے گلستان کا
تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو داتا دے
تازہ ترین