• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ڈائو یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنس کے تحت ’’ای ڈاکٹر ‘‘کے نام سے شروع کیا گیا منصوبہ

کسی زمانے میں یہ سوچنا بہت مشکل تھا کہ کبھی ایسا وقت بھی آئے گا جب ہر کام گھر بیٹھے کسی مشین کے ذریعے ہدایات دے کر کرنا ممکن ہو جائے گا۔ اُس وقت یہ بات مذاق لگتی تھی، لیکن آئی ٹی کے انقلاب نےایسا نہ صرف ممکن بلکہ بہت آسان کر دیا ہے ،جس طر ح اب لوگ گھر بیٹھے کپڑے ،جوتے ،گھر کا سامان ،الیکٹرانکس کی مصنوعات اور دیگر اشیاخرید رہے ہیںاسی طر ح آئن لائن درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس ضمن میں ڈائویونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس نے نجی کمپنی کے ساتھ ایک منصوبہ شروع کیا ہے ،جس کے ذریعے گھر بیٹھی لیڈی ڈاکٹرز کوآ ن لائن تعلیم اور ٹریننگ دی جارہی ہے۔اس منصوبے کے لیے جامعہ نے پورٹل بنایا ہے ،جس کے ذریعے پوری دنیا میں موجود ڈاکٹر ز کو بہ یک وقت بآسانی لیکچرزدیےجاسکتے ہیں ۔ آن لائن تعلیم دینے کا یہ سلسلہ ان لیڈی ڈاکٹرز کے لیے بہت کار آمد ثابت ہو گا جو اپنی مجبوریوں کے باعث پریکٹس جاری نہیں رکھ سکی تھیں ۔ اس پروجیکٹ کےبارے میں ہم نے ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کی گانئی ایند آپس ٹیٹرکس کی سربراہ ڈاکٹر جہاں آراء سے گفتگو کی جو نذر قارئین ہے۔

س:اس منصوبےکا پس منظر اور مقاصد کیاہیں ؟

ج :ملک میں ہر سال متعدد لڑکیاں ایم بی بی ایس کی ڈ گری حاصل کرکے پریکٹس کرنے کے بعد کسی وجہ سے پریکٹس کا سلسلہ جاری نہیں رکھ پاتیں ۔اس منصو بے کا مقصد انہیںدوبارہ ان کی فیلڈ میںلاناہے ،تا کہ وہ اپنی پریکٹس دوبارہ شروع کر سکیں۔اس منصوبے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے لیے خواتین کو گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ گھر بیٹھے ہی اس منصوبے سے بھر پوراستفادہ کر سکتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً 70 فی صد خواتین ڈاکٹرز بنتی ہیں،جن میں سے90 فی صد مختلف وجوہ کی بناءپرپریکٹس جاری نہیں رکھ پاتیں ۔اس منصوبے کے تحت وہ تمام خواتین ڈاکٹرز جو اپنا پرو فیشن دوبارہ شروع کرنے کی خواہش مند ہیںوہ بآسانی یہ کام کر سکتی ہیں ۔ا سے مزید بہتر بنانے میں ڈائو یونیورسٹی کے چانسلر،وائس چانسلر اور سنیئر گائنا کو لوجسٹ ایند آپس ٹیٹرکس ،ڈاکٹر جہاں آراء بہت اہم کر دار ادا کررہی ہیں ۔انہو ں نے آن لائن پڑ ھانے کےلیے لیکچرز ریکارڈکر وائے،تا کہ خواتین بآسانی اپنے گھر پر ہی ان کا مطالعہ کرسکیں ۔ اس پروگرام کو ’’ای ڈاکٹر‘‘(edoctor)یعنی الیکٹرانک ڈاکٹر کا نام دیا گیا ہے ۔

س:یہ منصوبہ شروع کرنے کا خیال کیسے آیا ؟

ج:ہمیںیہ خیال پاکستان میں لوگوں کودرپیش صحت کےبڑھتے ہوئے مسائل دیکھ کر آیا۔یہ بھی اندازہ ہوا کہ ہمارے ملک میں ڈاکٹرز کی قلت ہے ۔پھر سرکاری اداروں،خاص طورپروزارت صحت، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن،حکومت سندھ کے طبی اداروں اوراس شعبے میں فعال غیر سرکاری انجمنوں اور اداروںسے وابستہ افرادسے ملاقاتیں کر کے انہیںاس منصوبے کی تفصیلات فراہم کی گئیں ۔ان اداروں سے اس حوالے سے آراحاصل کی گئیں۔سب نے اس خیال کو بہت سراہا ۔ سب ہی کا یہ کہنا تھا کہ ہمارے سرکاری شعبے میں ڈاکٹرز کی بہت کمی ہے۔ یہ قدم گھر بیٹھی ڈاکٹرزکے لیے کافی سود مند ثابت ہوگا ۔ اس منصوبےکےلیےجدیدٹیکنالوجی استعما ل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ہم ورچوئل ٹیچنگ اور ورچوئل ٹیکنالوجی استعمال کر کے ڈاکٹرز کو تربیت دیناچاہتے تھے،تا کہ انہیں گھرسے نکلنے کی ضرورت ہی نہ پڑے کیوں کہ ان ڈاکٹرز کو دوبارہ کالجز میں لاکر تربیت دینا بہت مشکل کام تھا ۔لہٰذا ہم نےانہیں گھروں میں رہتے ہوئےہی تربیت دیناشروع کی۔اس منصوبے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر خواتین کامنصوبہ ہے اور اسے خواتین ہی چلارہی ہیں ۔

س:پاکستان میںہر سال کتنی لڑ کیاں ڈاکٹرز بنتی ہیں ،ان میں سے کتنی پریکٹس جاری رکھتی ہیں اور کتنی چھوڑ دیتی ہیں ؟

ج:بالکل درست تعداد بتا نا تو مشکل ہے،لیکن اندازاً ہزاروں کی تعداد میں ہر سال لڑ کیاں ڈاکٹرز بنتی ہیں،جن میںسے چند ہی بعد میں طب کی پریکٹس جاری رکھ پاتی ہیں۔زیادہ تر لڑکیاں کسی نہ کسی وجہ سےپریکٹس چھوڑ دیتی ہیں ۔حالاں کہ ایک ڈاکٹر کی پوری تعلیم پر50 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں ۔اس طر ح محکمہ ٔ صحت کو ہر سال بھاری نقصان ہوتا ہے۔ اس منصوبے کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ محکمہ ٔ صحت کو ان ڈاکٹرز کے پریکٹس جاری نہ رکھنے سے جو نقصان ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی حد تک پورا ہو جائے گا ۔

س:اب تک اس منصوبے کے تحت کتنی ڈاکٹرزکو تربیت دی جاچکی ہے؟

ج:پہلے بیچ میں 120 ڈاکٹرزکو تربیت دی گئی ۔ پہلے بیچ میں 350 ڈاکٹرز نے تربیت حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دی تھیں۔ان میںپاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں مقیم ڈاکٹرزبھی شامل تھیں۔ان 350 ڈاکٹرز میں سے کچھ ایسی بھی تھیں جن کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت مو جود نہیں تھی اوربعض ایسی تھیں جن کے پاس یہ سہولت تو تھی مگروہ اسےمناسب اندازمیں استعمال کر نانہیں جا نتی تھیں ۔پھر ان میںسے بعض کی اسناد وغیرہ تصدیق شدہ نہیں تھیں۔اس طرح شارٹ لسٹ کر کے ہم نے 120 کا انتخاب کیا ،جن میں سے 80 ڈاکٹرز کا تعلق پاکستان سے اور17 کا سعودی عرب سے ہے ۔ بعض کا آسٹریلیا ،بحرین ،چین ،کینیڈا ،سنگاپوراور امریکاسے ہے۔ لیکن ان سب ڈاکٹرز کی قومیت پاکستانی ہے۔ پہلے بیچ کی تربیت رواں سال دسمبر میںختم ہوگی۔ ایک کورس کا دورانیہ 6 ماہ ہے ۔ دوسرے بیچ کے لیے 160 لیڈی ڈاکٹرز کا انتخاب کیا گیا ہے،جن میں سے 60 بیرون پاکستان مقیم ہیں۔اس بیچ کی تربیت یکم نومبر سے شروع ہو چکی ہے۔ ہم نے ان ہی ڈاکٹرز کا انتخاب کیا جو پاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈ ی سی ) سے رجسٹرڈ تھیں ۔

س:اس کورس کی فیس کتنی ہے ؟

ج:پہلے بیچ کی ماہانہ فیس ڈھائی ہزارروپے تھی ۔ دوسرے بیچ کی 5 ہزار مقرر کی گئی ہے ،کیوں کہ اس میں ہم نے کچھ چیزوں کا اضافہ کیا ہے۔مثلاً اب تک ہم ا ن ڈاکٹرز کو صرف پڑھا رہےتھے۔ اب ہم ان کے گھروں کے قریب واقعےکلینکس کے ساتھ پارٹنر کلینک کے معا ہد ے بھی کررہےہیں،تاکہ وہ انہیںاپنے کلینکس میں انٹرشپ کر واسکیں ۔علاوہ ازیں دوسرے بیچ میں فنانسنگ بھی کی جارہی ہے ،تاکہ یہ ڈاکٹرزاپنے کلینکس قائم کرسکیں ۔ اس کے لیے ہم حکومت سے رابطہ کریں گے۔فی الحال ہم اپنے وسائل سے کام کررہے ہیں ۔ تین ،تین مہینے کی فیس ایک ساتھ وصول کی جاتی ہے ۔

س: تربیت کا طریقہ کارکیا ہے ؟

ج:انہیں فیملی میڈیسن کی تربیت دی جارہی ہے اور ان ڈاکٹرز کو فیملی میڈیسن کا سر ٹیفیکیٹ بھی دیا جائے گا ۔لیکچرزکے لیے ہمارا ’’ای ڈاکٹر ‘‘کاپورٹل بنا ہواہے ۔ ہفتے میںدو روز(پیر اور جمعرات) کلاس ہوتی ہےجس کا دورانیہ دوگھنٹے ہو تا ہے ۔اگر اس دوران کوئی لیکچر نہ لے سکے تو اسے لیکچر کی ریکارڈ نگ واٹس ایپ یا ای میل پر بھیج دی جاتی ہے ۔بعدمیں لائیو سیشن بھی کر وایا جا تا ہے ،جس میں ڈاکٹرز اپنے سوالا ت کے جوابا ت بآسانی حاصل کر سکتی ہیں ۔سوال،جواب کے لائیو سیشن کے بعد دوبارہ ریکارڈڈ لیکچربھیجا جاتا ہے ،تا کہ ہر نکتہ ان پر پوری طرح واضح ہوجائے۔ لیکچرز بھیجنے کے لیے ’’فلپ ماڈل ٹیکنا لو جی ‘‘ استعمال کی جارہی ہے جو جدیدہے ۔ہم نے ایک رو بوٹ بھی تیار کیا ہے ،جس کا قدپانچ فیٹ ہے ۔اس میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور جی پی آر ایس بھی نصب کیا گیا ہے ۔اسے دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔اس کی مدد سے اساتذہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر بآسانی پڑھا سکتے ہیں اورڈ ا کٹر زاس کی مدد سے کہیں بھی موجود مریض کا علا ج کرسکتے ہیں۔مثلااگر امریکامیں کوئی آپریشن ہورہاہو تو یہ روبوٹ پاکستان سے آپریشن کو مانیٹر کر سکتا ہے۔ اسےمتعدد طبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے ۔

س:کیا ان ڈاکٹرز کو ٹیلی میڈیسن کی بھی تربیت دی جارہی ہےیا عام فزیشن کے طور پریاپھردونوں طریقوں سے دی جارہی ہے ؟

ج:تربیت توٹیلی میڈیسن کے حوالے سے دی جا ر ہی ہے،لیکن لیکچرز عام فزیشن کے طور پر دیے جارہے ہیں ،تا کہ یہ دونوں طر ح سےتر بیت حاصل کر سکیں۔ویسے بھی یہ دور ٹیلی میڈیسن ہی کا ہے ۔اس لیے اس سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ہمارا یہ پروگرام مکمل طور پر آن لائن ہے۔تاہم ،اگر مستقبل میں ان ڈاکٹرز کو ڈائو یونیورسٹی بلا کر کلاسز میں پڑھانے کی ضرورت پڑی تو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے لیے ڈائویونیورسٹی کے پوائنٹس ہیں ۔ دوسرے بیچ کےلیے ہم یہ منصوبہ بنارہے ہیںکہ جو ڈاکٹرز پاکستان میں رہتی ہیںانہیں ڈائو یونیورسٹی بلا کر ان کے لیےمہینے میں ایک مرتبہ ورک شاپ کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے لیے ڈائو یونیورسٹی انہیں ٹر انسپورٹ کی سہولت فراہم کرے گی ۔

س:یہ خواتین توپہلے سے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز ہیں تو آپ انہیں کیا پڑھارہے ہیں ؟

ج:دراصل ہم انہیں جو تربیت دے رہے ہیں وہ ایم بی بی ایس کی پانچ سال کی تعلیم کا نچوڑ ہے ۔ہم نے پانچ سال کی تعلیم کو 6 مہینے کے اندر 70 لیکچرز میں سمودیا ہے۔ ان تمام لیکچرز کو ڈائو یو نیورسٹی کی فیکلٹی نے تیار کیا ہے ۔ اس کے ساتھ جو نئی چیزیں ،ٹیکنالوجی،ڈیولپمنٹ اوراپ ڈیٹس انڈ سٹری میں آرہی ہیں اس حوالے سے بھی آگاہی فراہم کی جارہی ہے ۔ہماری پوری کوشش ہے کہ تربیت کے فوری بعد انہیں کسی نہ کسی کلینک ،ملٹی نیشنل یا سرکاری ادارےمیں خدمات انجام دینے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اگرچہ ہم نے ان سےاس کام کا وعدہ نہیں کیا ہے، پھر بھی ہم اس بارے میں سوچ رہے ہیں ۔

س:کیا ڈائو یونیورسٹی میں اس منصوبے کے لیے کچھ خاص افراد مخصوص کیے گئے ہیں ؟

ج: اس منصوبے میں ڈائو یونیورسٹی کافی اہم کردار ادا کررہی ہے۔اس کے وائس چانسلر ،پرو وائس چانسلر اورگائنی اینڈ آپس ٹیٹرکس کی ہیڈ اپنی خدمات فراہم کررہی ہیں ۔اس پورے منصوبے کی ساکھ صرف ڈائو یونیورسٹی کی وجہ سے ہی بنی ہے ۔اگر اس یونیورسٹی کے ڈاکٹرز ہمارا ساتھ نہ دیتے توشاید ہم یہ منصوبہ اتنی اچھی طر ح سےنہیں چلا سکتے تھے ۔

س:اس منصوبے کے ذریعے تربیت پانے والی لیڈی ڈاکٹرز کا ردِعمل کیا ہے ؟

ج:اس منصوبے کےحوالے سے بھی ڈاکٹرز بہت خوش ہیں۔ہم نے تین مہینے بعد کال کر کےان کی آرامعلوم کیں تو وہ سب بہت زیادہ جذباتی ہو رہی تھیں،دعائیں دے رہی تھیں ۔سب کا یہی کہنا تھا کہ انہیں پہلی مرتبہ ایسا پلیٹ فارم ملاہے،جس کی مدد سے ہم اپنی پریکٹس دوبارہ شروع کرنے کے قابل ہوئی ہیں ۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہو اکہ دنیا میں موجود تما م پاکستانی ڈاکٹرز کا آپس میں تعلق قائم ہو گیا ہے ۔اس طرح یہ ساری ڈاکٹرزجو سالوں پہلے گھر بیٹھ گئی تھیں، وہ آج پالش ہوکرنئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ای ڈاکٹر کے طور پر اپنی فیلڈ میں واپس آرہی ہیں۔

س:اس منصوبے کو دنیابھر میںپھیلی ڈاکٹرز تک کس طرح توسیع دینے کا ارادہ ہے ؟

ج: اسے آہستہ آہستہ پھیلانے کا ارادہ ہے ،ورنہ اسے سنبھالنا ہمارے لیے کافی مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ یہ مناسب رفتار کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلے ،تا کہ اس کا معیارکم نہ ہو اور جس طر ح ہم ڈاکٹرز کوتربیت دینا چاہتے ہیں ،اسی طر ح یہ کام کریں۔

س:مستقبل میں جو لڑ کیاں ڈاکٹرز بنیںگی انہیں اس منصوبےسے کتنا فائدہ ہوگا؟اس منصوبے کو دیکھتے ہوئے کیا وہ اپنی پریکٹس جاری رکھیں گی ؟

ج:مستقبل کی ڈاکٹرز میںاس پرو جیکٹ کے سبب اپنی پریکٹس جاری رکھنے کاجوش وجذبہ لازماًپیدا ہوگا ۔اسے دیکھتے ہوئے وہ اپنےپرو فیشن سے تعلق برقرار رکھنے کے بارے میں بھی ضرور سوچیں گی ۔

تازہ ترین
تازہ ترین