کراچی (ٹی وی رپورٹ)سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے آسیہ بی بی کی بریت کیخلاف احتجاج پر تقریر کر کے بڑی غلطی کی، آسیہ بی بی کیس میں عدالتی فیصلے کو معاشرے کے بڑے حصے نے متنازع سمجھا ،یہ بڑی بدنصیبی ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کو متنازع سمجھا جارہا ہے، حکومت نے معاہدہ کر کے تسلیم کیا کہ وہ ریاستی رِٹ قائم کرنے کے قابل نہیں ہے، حکومت نے دھمکیاں دینے کے بعد معاہدہ کر کے یوٹرن لیا جس کیلئے مشہور ہے۔وہ جیوکے پروگرام ’’نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ‘‘ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نےکہا کہ تحریک لبیک کے ہمارے اور موجودہ دورِ حکومت میں کیے گئے مظاہروں کے ایشوز میں بہت فرق ہے، ن لیگ کے دور میں ناموس رسالتؐ کی قانون سازی میں تبدیلی واپس لینے کے باوجود احتجاج کیا گیا، قانون کی تبدیلی میں تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں مگر کسی نے ن لیگ حکومت کاساتھ نہیں دیا، وزیراعلیٰ پنجاب پر پہلے ہی سانحہ ماڈل ٹائون کی تحقیقات ہورہی تھی، نظام ریاست و حکومت اس وقت مفلوج ہوچکا تھا، ہم نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے بلکہ عوام کی سہولت کیلئے مذاکرات کیے تھے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی فورس استعمال کیے بغیر دھرنا ختم کرانے کیلئے ڈیڈ لائن دیدی تھی، آئی جی پولیس نے عدالت کے حکم پر بے دلی سے آپریشن کیا جو ناکام رہا، اس صورتحال میں رینجرز کی مدد کے بغیر حکومت کے پاس مجمع ہٹانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ حالیہ احتجاج میں ریاست کی رِٹ برقر ار رکھنے کیلئے پوری اپوزیشن پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ کھڑی تھی، اپوزیشن لیڈر نے اس معاملہ پر بات کرنی تھی تو حکومت نے حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے اسمبلی کا کورم توڑ دیا، اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے والے ایک شخص سے کورم پوائنٹ آئوٹ کروایا گیا اور حکومتی ارکان اٹھ کر لابی میں چلے گئے، وزیراعظم نے آسیہ بی بی کی بریت کیخلاف احتجاج پر تقریر کر کے بڑی غلطی کی، معاملہ کی حساسیت دیکھیں تو اس تقریر کی ضرورت نہیں تھی، وزیراعظم اپنی تقریر میں کی گئی باتوں پر عملدرآمد نہیں کرسکے، عمران خان نے تقریر میں ایسی باتیں کردیں جو عوام کے علم میں نہیں تھیں، وزیراعظم کی تقریر کے بعد لوگوں نے سوشل میڈیا پر وہ کلپ تلاش کیا۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو معاشرے کے بڑے حصے نے متنازع سمجھا ،یہ بڑی بدنصیبی ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کو متنازع سمجھا جارہا ہے، ن لیگ کی حکومت متنازع عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ختم ہوئی جس پر ہم نے فوری عملدرآمد کیا، مظاہرین کے مطابق انہیں بھون ڈالنے کی دھمکی دی گئی، حکومت نے معاہدہ کر کے تسلیم کیا کہ وہ ریاستی رِٹ قائم کرنے کے قابل نہیں ہے، پی ٹی آئی حکومت نے دھمکیاں دینے کے بعد معاہدہ کر کے یوٹرن لیا جس کیلئے مشہور ہے، حکومت کیلئے بہتر ہوتا کہ سارا معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرتی جہاں تمام جماعتیں مدد کرنے کیلئے تیار تھیں۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں بھی اپنے دور میں حکومتی رِٹ قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیرقانون اور پولیس افسران کو عدالتوں میں گھسیٹیں گے تو حکومتی رِٹ کون قائم کرے گا، حکومتی رِٹ قائم کرنے میں جانی نقصان کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔