• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدہ کی صورت میں امن بحال ہوا اور پاکستان کے طول و عرض میں لوگوں نے سکھ کا سانس لیا لیکن لبرلز اور سیکولرز میں موجود ایک طبقہ اس صورتحال سے خوش نہیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت میں شامل کچھ افراد جن میں چند وزراء بھی شامل ہیں، بھی اس معاہدہ پر اپنے اپنے انداز میں نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ میڈیا میں موجود اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد بہت غصہ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جو جنرل پرویزمشرف پر لال مسجد پر آپریشن کے لیے دبائو بڑھاتا رہا اور رٹ آف دی گورنمنٹ کے نام پر ’’مارو مارو‘‘ کے نعرے لگاتا رہا۔ مشرف نے اس طبقہ کے دبائو میں بیوقوفی کی مگر جب آپریشن کر دیا گیا تو پھر اسی طبقہ نے عوامی پریشر کو دیکھتے ہوئے ’’مار دیا، مار دیا‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دئیے اور یوں لال مسجد آپریشن ایک طرف پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی بہت بڑی وجہ بن کر سامنے آیا تو دوسری طرف اس کارروائی نے جنرل مشرف کی ڈکٹیٹرشپ کو بہت کمزور کر دیا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے آسیہ مسیح کی سزائے موت کے فیصلہ کو ختم کرنے کے نتیجہ میں پاکستان بھر میں غم و غصہ کا ایک ردعمل سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان کو مظاہرین نے جام کر دیا۔ اس دوران پُرتشدد واقعات بھی ہوئے، لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ کچھ افراد کی جانیں جانے کی بھی خبریں ملیں اور مظاہرین کے رہنمائوں نے کچھ قابل اعتراض باتیں بھی کیں جن کا میڈیا نے تو بلیک آئوٹ کیا لیکن وزیراعظم صاحب نے سب کچھ عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا جس پر کافی تنقید ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر قوم سے خطاب کیا اور ایک ایسی جوشیلی تقریر کی جو حکمت سے عاری تھی۔ اس میں مظاہرین سے سختی کے نمٹنے کے اشارے تھے۔ ایک مخصوص سیکولر اور لبرل طبقہ نے عمران خان کی تقریر کو خوب سراہا اور مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کی حمایت کی لیکن حکومت اور ریاستی اداروں میں ایسے افراد بھی تھے جن کو اس بات کی خوب سمجھ تھی کہ ناموسِ رسالتؐ کے لیے جمع مظاہرین کے خلاف فورس کے استعمال اور آپریشن سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے اور ایک ایسی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے جسے بجھانا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر کہ فریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا اور یوں پاکستان میں امن کی بحالی ممکن ہوئی۔ لیکن اب حکومت کے اندر اور حکومت سے باہر موجود لبرلز اور سیکولرز کا ایک مخصوص طبقہ حکومت پر خوب طعنہ زنی میں مصروف ہے۔ یہ طبقہ اعتراض کر رہا ہے کہ مظاہرین سے معاہدہ کیوں کیا گیا۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی پُرتشدد مظاہرے کے حق میں نہیں، وہ چاہے کل ہو رہے تھے (جن کا تحریک انصاف حصہ تھی) یا آج ہو رہے ہیں۔ ہمارا دین بھی دوسروں کے جان و مال کی حفاظت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ میری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ خصوصاً دینی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں اور اُن کے پیروکاروں سے درخواست ہے کہ اختلاف اور احتجاج کرتے وقت اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے بلکہ حکومت و ریاست اور سیاسی و دینی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ افراد کی اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت اور کردار سازی کریں تاکہ ہم اچھے مسلمان اور اچھے انسان پیدا کر سکیں۔ اس قسم کے تشدد کو کسی مذہبی جماعت سے جوڑنا بھی انصاف نہیں ہو گا۔ جب بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو پورے ملک میں جلائو، گھیرائو ہوا، کھربوں روپے کی پراپرٹیز کا نقصان ہوا گویا ہمیں اصولوں کی بنیاد پر غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا چاہئے۔ تحریکِ لبیک کے رہنمائوں کی طرف سے وزیراعظم، آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے تین ججوں کو جو دھمکیاں دی گئیں، اُن کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن ہمارے لبرل اور سیکولر بھائیوں کو کون سمجھائے کہ اگر تحریکِ لبیک کے رہنمائوں کا ایسا کہنا غلط ہے تو پھر پشتون تحریک موومنٹ کے اسٹیج سے فوج اور ریاست کے خلاف لگنے والے نعرے بھی تو غلط ہیں۔ لیکن پی ٹی ایم کا تو یہ طبقہ پاکستان میں سب سے بڑا حمایتی ہے۔ اسی طرح بلوچ علیحدگی پسندوں کی ریاست، فوج اور اداروں کے خلاف ہر بات کو یہ طبقہ نظر انداز (Ignore) کر دیتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سپریم کورٹ کے پھانسی کے فیصلہ کو یہی طبقہ نہ صرف رد کرتا ہے بلکہ اسے جوڈیشل قتل گردانتا ہے لیکن آسیہ مسیح کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اعتراض کرنے اور اسے رد کرنے والوں کو یہ طبقہ ہدفِ تنقید بناتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ طبقہ #IStandWithSupremeCourtاور #ReleaseAsiaکی کمپین چلا رہا ہے لیکن جب پاکستان کی عدالتوں (پہلے ایڈیشنل سیشن جج اور پھر لاہور ہائی کورٹ) نے آسیہ بی بی کو سزائے موت کی سزا سنائی تو اُس وقت اس طبقہ کی مہم آسیہ مسیح کے حق اور عدلیہ کے خلاف تھی۔

بہرحال اب معاہدہ ہو گیا ہے، میری فریقین سے درخواست ہو گی کہ اس معاہدہ پر دونوں ایمانداری کے ساتھ عمل کریں اور کسی طبقہ کی طرف سے، کسی بھی قسم کے دبائو اور پروپیگنڈہ کا شکار نہ ہوں۔ جہاں تک آسیہ مسیح کا نام ECL میں ڈالنے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ری ویو پٹیشن دائر کرنے کے معاملات ہیں تو ان پر تو حکومت پیچھے ہٹنے کا رسک نہیں لے سکتی اور نہ اُسے ایسا کرنا چاہئے کیونکہ یہ معاملہ بہت نازک ہے۔ جہاں تک اُن افراد کے خلاف کارروائی کا معاملہ ہے جنہوں نے توڑ پھوڑ کی تو اُنہیں حکومت کو ضرور پکڑنا چاہئے، اگر معاہدہ میں اس کے برعکس کوئی اتفاق نہیں ہوا۔ اصولاً لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے والوں کو ایسے معاہدوں کے ذریعے رعایت نہیں دینی چاہیے لیکن جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا کہ اس مسئلے کا اصل حل افراد اور معاشرہ کی اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت اور کردار سازی ہے، جس پر کسی کی کوئی توجہ نہیں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین