نیشنل ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور میں سیاسی این آراو کی حمایت نہیں کررہابلکہ قوم کے ساتھ نیشنل ریکنسیلی ایشن کی بات کررہاہوں، اس کا مطلب ہے کہ ہمیں سچائی اور قومی غلطیوں کو جمع کرنے کی ضرورت ہے اور پھر ماضی کی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کیلئے بہترمنصوبندی کرنی چاہیئے۔ نیلسن منڈیلا نے نفرت اور مشکلات کے باوجود اس طرح کے مفاہمتی اقدام کی تجویز دی تھی۔ انھوں نے معاشرےمیں پوری قوت کے ساتھ مفاہمت کی حمایت کی تھی اور فیصلہ کیا کہ قوم کیلئے بہترین چیز قومی سطح پر مفاہمت ہے جہاں معاملات کو سیاسی طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ نیلسن منڈیلا کی جانب سے قائم کردہ ٹی آر سی (ٹروتھ اینڈ ریکنسیلی ایشن کمیشن ) کے مندرجہ ذیل مقاصد تھے۔1- ماضی میں جو کچھ ہوا، ٹروتھ کمیشن نے امن کے قیام کیلئے ’’انتظامی ریکارڈ‘‘ قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔2- مظلوموں کیلئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا جہاں وہ اپنی کہانیاں سنا سکیں اور انھیں اُن کا کچھ حل مل سکے۔3- قانونی، سٹرکچرل اور دیگر تبدیلیوں کی تجویز کرنا تاکہ ماضی میں ہوئےظلم کو روکا جاسکے؛اور4- یہ دیکھنا کہ کون ذمہ دار تھا اور ظالموں کےاحتساب کیلئے اقدامات کرنا۔ قوم نے اس خیال کو قبول کرلیا اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ قوم ترقی کررہی ہے اور وہاں کوئی نسلی مسائل نہیں ہیں۔ وہاں ’’نسلی امتیاز‘‘ کا رواج تھا وہاں افریکن لفظ کا مطلب تھا ’’اپارٹ ہوڈ‘‘ جو 1949میں آپسی شادیوں کی روک تھام کے قانون سے شروع ہوا۔ نسلی عصبیت کے نظام کا بنیادی مقصد معمولی امتحانات کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو نسلی گروہوں میں تقسیم کرنا تھا۔ آبادی چار گروپس میں تقسیم تھی: سفید فام، سیاہ فام، انڈینز، رنگ دارلوگ ۔ رنگ داراور انڈینز لوگوں میں مزید ضمنی گروہوں میں تقسیم تھے۔ رکاوٹیں زندگی کےتمام شعبوں میں بھی تھیں جبکہ ہر جگہ پر ہی تھیں کیونکہ سیاہ فام افراد کا داخلہ سفید فام افراد کے ہسپتالوں، سکولوں، بسوں، یونی ورسٹیسز اور چرچز میں بھی ممنوع تھا۔ جیسے ہی قومی یکجہتی اور مفاہمتی بل1995 کیلئے ٹی آرسی قائم کی گئی تو اس سے تحقیقات اور ماضی میں کی گئیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مکمل انکشافات سامنے آئے اور قومی یکجہتی اور مفاہمت پیدا ہوگئی۔ اس مفاہمت کے پیچھے یہ خیال تھا کہ ہر شہریو کو بلا امتیاز برابر کے حقوق مل سکیں۔ دوسرے لفظوں میں ہر سطح پر قانون کا نفاذ اور بلا امتیاز احتساب لازمی قراردیاگیا۔ ہم طویل تاریخ رکھنے والے ملک کے شہری ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہم ایسی قوم بن گئے ہیں جو مفلوج اور متعصب ذہین رکھتے ہیں جس کا مقصد ماضی کے عجیب یاداشتوں میں پھنسنا ہے۔ ہم اپنی قوم کے منفی ماضی کے ساتھ اپنی قوم کے حال کو تباہ کررہے ہیں۔ جس طرح کے این آر او کی ہمیں ضرورت ہے وہ اہم چارٹر آف ڈیموکریسی سے بھی بنا سکتے ہیں جس پر پاکستان مسلم لیگ کے نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو نے لندن میں 14مئی 2006کو دستخط کیےتھے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے سیریل نمبر13میں یہ کہاگیاتھاکہ ’’ تشدد، قیدوبند، ریاستی ظلم، ٹارگٹڈ قانونسازی کاشکار اور سیاسی احتساب کیلئے ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن قائم کیاجائےگا۔ کمیشن تحقیق کرے گا اور 1996کےبعد سےفوجی بغاوتوں اور سول حکومتوں کی برطرفی پر اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔‘‘ یہ محترجہ شہید بے نظیر بھٹوکا خواب تھا کہ ملک میں کوئی ایسا کمیشن قائم کیاجائےتاکہ سیاسی اختلافات، معاشی زوال اور قوم میں تقسیم کی وجوہات کا پتہ لگایاجائے۔ وہ اپنی شہادت تک اس کمیشن کی مضبوط حمایتی رہیں۔ چارٹر کے اہم مقاصد مندرجہ ذیل ہیں:1-1973کے آئین کو بالکل اسی طرح سے بحال کیاجائے گاجس طرح سے یہ اکتوبر1999تک تھا۔ 2- دونوں جماعتیں حکمران جماعت سے کسی طرح کی کوئی ڈیل نہیں کریں گے۔ 3- عدلیہ، قانون اور الیکشن کمیشن کو نیوٹرل بنایاجائےگا۔4-اگر کوئی بھی پارٹی الیکشن جیت گئی تو یہ حزب اختلاف پر کوئی سختی نہیں کرے گی، سوائے اس کے کہ یہ اپوزیشن کو سیاسی، معاشی، معاشرتی، علاقائی اور عالمی معاملات میں مشاورت کیلئے بلائےگی۔ اور کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیاجائے گا جو پارلیمنٹ کی ذہینیت کے خلاف ہو۔ اور اپوزیشن کی بھی یہ ہی ذمہ داری ہوگی کہ یہ حکومت کو ناراض نہیں کرے گی جس طرح سے ماضی میں کیاجاتا رہا تھا۔ 5-ایل ایف او اور ان اصولوں کوبحال کیاجائےگاجن کےمطابق ووٹرزکی کم ازکم عمر18سال ہو، خواتین کوپارلیمنٹ کارکن بننےکی اجازت ہواورپارلیمنٹ کی سیٹیں بڑھائی جاسکیں۔ 6-سول انتظامیہ اور فوج کے درمیان اچھےتعلقات قائم کیے جائیں گے۔ یہ بدقسمتی ہےکہ دستخط کنندگان میں سے ایک کی سیاسی خودغرضی کے باعث چارٹر آف ڈیموکریسی کی روح اپنی چمک دمک کھو بیٹھی ہے۔ اگر سختی سے اس کی پیروی کی جاتی اور اسے نافذ کیاجاتا تو قوم سیاسی طورپر مختلف ہوتی۔ قوم میں بڑھتی ہوئی تقسیم کے باعث نیشنل ٹروتھ اینڈ ریکنسیلی ایشن کمیشن اب زیادہ اہم ہوچکاہے۔ ضرورت سے زیادہ ردِ عمل دکھانے والا میڈیا جس میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے لیکن خود بے قابو ہے اُس نے غلط اور جعلی معلومات پھیلا کر مزید پھوٹ ڈالی ہے جس سے حقائق اور اصلیت پر پردہ پڑ گیاہے۔ اب وقت ہے کہ قوم کو ہراُس معاملے میں حقائق جاننے کی ضرورت ہے جو ان کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں ان میں سیاست اور سیاست دان بھی شامل ہیں۔ قوم کیلئے اب یہ جاننے کا وقت ہے کہ سیاسی تقسیم پھیلانے، معاشرے میں فرقے، نسلی اور لسانی پھوٹ ڈالنے اور معاشی زوال کا ذمہ دار کون تھایا تھے۔ لہذا، افسانوں اور حقیقت میں سے سچائی تلاش کرنے کیلئے پارلیمنٹ کو نیشنل ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن ضرور بنانا چاہیئےجس میں عدلیہ، سیاستدان اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل ہوں تاکہ ہماری مستقبل کی نسلیں ایک ایسے معاشرے میں نہ رہیں جو غلط فہمیوں کا شکار ہو۔کمیشن کو یہ بھی اختیار ہونا چاہیے کہ وہ قوم کی تعیمر میں میڈیا کے کردار کو بھی جانچنے یا قوم کی تعمیر کیلئے اسے مرکزی دھارے میں لانے کیلئے سفارشات مرتب کرے۔ کمیشن کے نتائج پر پارلیمنٹ میں ضرورت بحث ہونی چاہیئیے تاکہ ضروری قانون سازی کی جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ مستقبل میں کوئی بھی ریاستی ادارہ اپنی آئینی حدود عبور نہ کرے۔ آئیے سیاسی این آر او کی بجائے نیشنل ٹروتھ اینڈ ریکنسیلی ایشن کمیشن بنائیں ۔