• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا یہ طوفان ٹل چکا۔

نہیں۔ صرف وقتی طور پر۔ کسی وقت بھی یہ بھیانک مناظر دوبارہ دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔ مزاج وہی ہیں۔ نظام سے بیزاری وہی ہے۔

پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ جب پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو۔ کچھ واقفان حال نے کہا ہے کہ اب اس سے آگے کا مرحلہ آگیا۔ جب سنبھال نہیں سکتے تو پالتے کیوں ہو۔

یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا تھا۔ یہ ہونا ہی تھا کیونکہ ہم یہی فصل بورہے ہیں۔ معاہدہ بہرحال ایک کارخیرہے۔ دھرنے کی طوالت سے کاروبار زندگی مزید رکے رہتے۔ غریب اور متوسط طبقے کی موٹر سائیکلیں۔ چھوٹی کاریں۔ بسیں اور جلتیں۔ پھر ہم ہی شور مچارہے ہوتے ۔ ان سے کوئی بات کیوں نہیں کرتا۔ کیا ہورہا ہے۔

اب حالات پُر سکون ہیں۔ بظاہر ان تین دنوں میں جو کچھ ہوا وہ ہمیں اپنے ماضی اور آئندہ کو سمجھنے میں بہت مدد دے سکتا ہے۔ لیکن ہم اور آپ تو صرف لمحۂ موجود اور جو کچھ سامنے نظر آرہا ہوتا ہے، اس پر غور کرتے ہیں۔ جو گزرگیا اسے بھول جاتے ہیں۔ جو آنے والا ہے اس کی فکر نہیں کرتے۔وہ قومیں جو ایک مستقل سکون۔ دائمی استحکام کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ وہ ایسے ہنگاموں اور المیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ اس خوفناک رُجحان پر غور و خوض اس لئے ضروری ہے کہ ہم دُنیا سے پہلے ہی چالیس برس پیچھے تھے۔ یہ تین دن ہمیں مزید 10سال پسماندہ کرگئے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ ہے۔ جن دلائل اور شواہد کے ساتھ وہ اس نتیجے پر پہنچے وہ تفصیلی فیصلے میں بیان کردیے گئے۔ اس پر صرف اور صرف قانونی اور آئینی روشنی میںبات ہونی چاہئے اور یہ معاملہ بہت ہی حساس ہے۔ قوم رسول ہاشمیؐ اپنی ترکیب میں خاص ہے۔ ہم سیرت النبیؐ کی تقلید کریں یا نہ کریں لیکن حرمت پیغمبرؐ پر مر مٹنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اس لئے عدالتوں۔ انتظامیہ۔ میڈیااور بزنس کمیونٹی سب کو ہی بہت محتاط اور خبردار ہوکر آگے بڑھنا ہوتا ہے۔

با خدا دیوانہ باش و با محمدؐ ہوشیار

اور یہ بھی یاد رکھیں:

ادب گا ہیست زیر ِآسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا

آسماں کے نیچے ایک بہت ہی ادب والا مقام ہے۔ جو عرش سے بھی نازک ہے۔ یہاں جنیدؒ و بایزیدؒ جیسی ہستیاں اپنا سانس روکے ہوئے آتی ہیں۔

فیصلے کے بعد جو بھی ہمارے ہم وطن باہر نکلے ان کا ردّ عمل یہی ہونا تھا۔ یہ یقیناً منطقی بھی تھا اور تاریخی بھی۔ ان کی سوچ اور عقیدت کے مطابق۔ کیونکہ انہیں دن رات یہی بتایا جاتا ہے ۔ یہی سکھایا جاتا ہے ۔ شرح خواندگی تو کم ہے ہی لیکن اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھایا بھی یہی جاتا ہے۔ سلامتی کے دین کو اور جس مذہب کو قیامت تک کے لئے اُتارا گیا ہے۔ اس دین کی تعلیم اس کے تنوع ۔ اس کے دوام۔ اس کی ہزاروں جہات کے مطابق نہیں دی جاتی۔ اس کے شعائر میں بہت وسعتیں ہیں۔ ہم تدبر نہیں کرتے۔ تحقیق سے گریز کرتے ہیں۔ ہمارے اساتذہ۔ ہمارے علماء۔ ہمارے مرشد اس دین کی آفاقیت۔ ہمہ گیریت۔ ہر زمانے۔ ہر علاقے۔ ہر مزاج سے مطابقت کے بارے میں نہیں بتاتے۔ اسلامی نظام کا نعرہ ضرور بلند کرتے ہیں لیکن ایسی دستاویز سامنے نہیں لاتے جس سے عام مسلمانوں پر یہ واضح ہوسکے کہ آج کی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی۔ اقتصادی انتظام۔ نفسیات۔ کیمسٹری۔ فزکس کے تناظر میں اسلام کیا کہتا ہے۔ تقریری مقابلے۔ اسکول میں ہوں یا کالج میں اساتذہ کرام تقریروں میں باور کرواتے ہیں کہ ہمارے سپہ سالار۔ ہمارے امیر البحر۔ کس طرح فتوحات کرتے رہے۔ طارق بن زیاد کا کشتیاں جلانا محمد بن قاسم کا ایک مسلمان بیٹی کے لئےہندوستان آنا تو بتایا جاتا ہے۔ لیکن ابن سینا۔ فارابی۔ ابو حارث۔ ابن خلدون۔ ابن رشد۔ رازی۔ الکندی اور دوسرے مسلم سائنسدان۔ ماہرین ریاضی۔ ماہرین فلکیات کے بارے میں تقریریں نہیں کروائی جاتیں۔ ساتویں صدی سے تیرہویں صدی تک مسلمانوں نے کس طرح یونانی سے عربی میں سارے علوم کو منتقل کیا۔چین کی مدد سے کاغذ کا استعمال عام کیا۔ نظام شمسی پر غور کیا۔ تصویر بنانے کی جستجو کی۔ فضائوں اور سمندروں کی تسخیر کی۔ اس کے بارے میں ہم اپنے بھائی بہنوں کو نہیں بتاتے۔

ایک طرف ہماری یہ کوتاہی ۔ دوسری طرف ہم اپنے ملک میں سب کے لئے قانون کا نفاذ یکساں نہیں کرسکے۔منصفانہ اقتصادی نظام نہیں لاسکے۔ بزور بازو لوٹ مار۔ سرکاری خزانے کو مال غنیمت سمجھنا۔ ہر صاحب رسوخ کا وتیرہ بن چکا ہے۔ یہ سب کچھ عام پاکستانی دیکھتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بے بس پاتا ہے۔ روز جن مسائل کا سامنا ہے انہیں حل کرنے کا بندوبست نہیں ہے۔پڑھ لکھ کر بھی وہ مارے مارے پھرتے ہیں۔ اس قدر بے بسی، پریشانی ہوتی ہے کہ وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے موڈ میں ہوتے ہیں۔ انہیں اگر موقع ملے تو ہر روز اپنی جھنجلاہٹ کا اظہار اسی انداز میں کریں۔ ایسا نہیں کہ ہمارے سیاسی حکمراں ہمارے ایسے مزاج اور معاشرے کی ان کیفیات سے آگاہ نہیں ہیں۔ یہ سیاسی پارٹیاں۔ مذہبی جماعتیں۔ ٹریڈ یونین۔ اساتذہ، طلبہ کی تنظیمیں بھی اپنے احتجاج میں یہی کرتی ہیں۔ مہذب ملکوں میں بھی احتجاج ہوتا ہے۔ لیکن وہاں اس کے لئے باقاعدہ اجازت لی جاتی ہے۔ جگہ کا تعین کیا جاتا ہے۔ وقت بھی مقرر ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ روز مرہ کی زندگی میں ٹریفک میں خلل نہیں پڑے گا۔ مگر ہمارے ہاں احتجاج کی کامیابی کا تصوّر یہی ہے کہ ٹریفک روکنا ہے ۔ پھر یہ دعویٰ کرنا ہے کہ ہم نے پورا شہر جام کردیا۔

مذہبی جماعتیں پہلے سے موجود ہیں۔ جماعت اسلامی۔ جمعیت علمائے اسلام۔ جمعیت علمائے پاکستان اور وحدت المسلمین ان کو بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا وہ بے اثر ہوچکیں۔ ایک نئی جماعت اتنے بڑے پیمانے پر کیوں با اثر ہوگئی ہے۔ یقیناً اس میں غیر سیاسی قوتوں کا نام لیا جائے گا۔لیکن سوال تو یہی ہے کہ یہ مقبولیت پرانی تجربہ کار جماعتوں کے ہاتھ سے کیوں نکل گئی۔ہم میڈیا والوں کو بھی جائزہ لینا چاہئے کہ گزشتہ 16سال سے تو ہم معاشرے پر چھائے ہوئے ہیں۔ 24گھنٹے ہماری نشریات جاری ہیں۔ یہ جو کچھ ہوا یا تو ان نشریات کا نتیجہ ہے ۔ اگر ایسا نہیں تو کیا ہمارے سارے ٹاک شوز اور پروگرام بے اثر ہیں۔ ہم ذہن سازی نہیں کر پارہے۔

میری ان ساری معروضات کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے میڈیا ہائوسز۔ یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے اس احتجاج کا جدید انداز میں تجزیہ کریں۔ ان مظاہرین کو یکسر مسترد کردینا۔ جاہل قرار دے دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بلکہ ان علاقوں۔ ان بستیوں اور ان کی برادریوں کا مشاہدہ کریں۔ جائزہ لیں کہ وہاں کونسی صدی کا دَور دورہ ہے۔ وہ انٹرنیٹ۔ سوشل میڈیا۔ جمہوریت کے باوجود ایسے رویے۔ ایسے اشتعال پر کیوں آمادہ ہوتے ہیں۔ ان کو اس آگ کےکھیل میںکون دھکیلتا ہے۔ یہ ہمارے ہم وطن ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ ان کی یہی طاقت۔ معاشرے کے استحکام میں کیوں کام نہیں آسکتی۔

تازہ ترین