• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے اب تک(تادمِ تحریر) صرف دو ممالک کے دورے کیے ہیں، جن میں سعودی عرب کے دو پھیرے اور چین کا ایک دورہ شامل ہے اوران تینوں دوروں کا مقصد پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے امداد کا حصول تھا۔ سعودی عرب کے دو دورے رائیگاں نہیں گئے اور وفاقی وزیرِ خزانہ، اسد عُمر کے مطابق، برادر اسلامی مُلک سے ملنے والے 6ارب ڈالرز کے امدادی پیکیج نے ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ بڑی حد تک ختم کر دیا ہے، جب کہ وزیرِ اعظم کے دورۂ چین کے بعد انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط قبول کرنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے12ارب ڈالرز کی بہ جائے 6ارب ڈالرز کے لگ بھگ قرضہ لیا جائے گا ۔ گرچہ پاکستانی حکومت اس پیش رفت کو اپنی بڑی کام یابی قرار دے رہی ہے۔ البتہ دُنیا کی دوسری بڑی معیشت، چین سے ملنے والی امداد کی تفصیلات فی الوقت سامنے نہیں آئیں۔ تاہم، پاک، چین مشترکہ اعلامیے سے پتا چلتا ہے کہ چین نے مزید مذاکرات کے بعد ہی امداد فراہم کرنے کا عندیہ اور تجارتی خسارہ کم کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ تاہم، آیندہ چند دِنوں میں صورتِ حال مزید واضح ہو جائے گی۔

وزیرِ اعظم، عمران خان کے سعودی عرب اور چین کے دوروں کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ خارجہ پالیسی میں اقتصادیات کا گہرا عمل دخل ہوتا ہے۔ لہٰذا، معاشی معاملات کو ہمیشہ اوّلیت دی جانی چاہیے اوراگر گزشتہ پانچ عشروں کی عالمی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، تو بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس عرصے میں اپنی خارجہ پالیسی کو اپنے اقتصادی مفادات کے تابع کرنے والی اقوام ہی نے ترقّی کی۔ البتہ ہمارے حُکم ران اس کی اہمیت سمجھنے سے قاصر رہے اور انہوں نے ہمیشہ دیگر عوامل پر خارجہ پالیسی کو استوار کیا اور مُلک کے جغرافیے، نظریات اور ہم سایہ ممالک سے تنازعات کو اقتصادی صورتِ حال پر فوقیت دی۔ ہمارے اربابِ اقتدار اس بات پر مُصر رہے کہ صرف محلِ وقوع کے بَل ہی پر ترقّی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دیگر اقوام سے برادارنہ و دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی بہ جائے مخاصمت و عداوت کو ہوا دی گئی، جس کے نتیجے میں ہماری خارجہ پالیسی بھی انہی عوامل کے گرد گھومتی رہی۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس دوران جب بھی مُلک معاشی بُحران سے دوچار ہوا، تو حکومت کو یا تو کسی مُلک کے پاس کشکول لے کر جانا پڑا یا پھر عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑا۔ گرچہ اس عرصے میں امریکا ڈالرز کے ذریعے اکثر ریلیف دیتا رہا، لیکن مُلک کے ایک بڑے طبقے کی جانب سے اس امداد کو غلامی قرار دیے جانے کی وجہ سے دونوں ممالک میں خلیج بڑھتی چلی گئی۔ ماضی میں مُلکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے افرادی قوّت کو بھی بیرونِ مُلک منتقل کیا گیا، جو ترسیلاتِ زر کا ایک بڑا ذریعہ بنی۔ یہی وجہ ہے کہ آج دُنیا بَھر میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن کی تعداد 90لاکھ تک پہنچ چُکی ہے، جس میں سے دو تہائی مشرقِ وسطیٰ اور ایک تہائی برطانیہ و امریکا میں آباد ہیں، لیکن یہ حکمتِ عملی بھی کام نہ آئی اور مُلک کو بار ہا اقتصادی بُحرانوں سے گزرنا پڑا۔ نیز، ہر حکومت ہی مختلف ذرایع سے ملنے والی امداد کو مالی بُحران کا پائے دار یا مستقل حل تلاش کرنے کی بہ جائے صرف اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے استعمال کرتی رہی اور گزشتہ حکومت کو ہر خرابی اور نقصان کا ذمّے دار ٹھہراتی رہی، حالاں کہ اس قسم کے بیانات سے صرف سیاسی طور پر عارضی فائدہ ہوتا ہے اور مُلک و قوم تہی دامن رہتے ہیں۔

تاہم، ہمیں اس بات پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ اس مشکل وقت میں ہمارے دیرینہ دوست ممالک، سعودی عرب اور چین ہمارا ساتھ دے رہے ہیں، لیکن کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ ہمارے سیاست دان، چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، اس صورتِ حال کے ذمّے دار ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بیرونی امداد سے ہمارے مُلک کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں، لیکن اپنا شملہ اونچا رکھنے اور دوسرے کی پگڑی اُچھالنے کا سلسلہ جاری ہے، بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ اب ہمارے سیاسی رہنمائوں کے لہجے میں اس قدر تُندی و تلخی آ چُکی ہے کہ وہ ذرا سی مخالفت بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔ نیز، مُلک کی ساکھ کی پروا کیے بغیر ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر کرپشن اور بیڈ گورنینس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اور بڑے فخر سے اس بات کا اعتراف کیا جا رہا کہ ہم ایک انتہائی کرپٹ اور ناقابلِ بھروسا قوم ہیں اور پاکستان میں چند حکومتی عُہدے داروں کے سوا کوئی بھی قابلِ اعتماد نہیں۔ آخر یہ باتیں سُن کر کوئی غیر مُلکی یہاں کیوں سرمایہ کاری کرے گا؟ پھر اس قسم کی باتوں سے بیرونِ مُلک گرین پاسپورٹ کی ساکھ بھی مجروح ہوتی ہے، جو وہاں موجود پاکستانی باشندوں کی شناخت ہے اور وہ کس منہ سے غیروں کا سامنا کریں گے۔

مُلک کا شاید ہی کوئی شہری اس اَمر سے اختلاف کرے کہ بدعنوانی اور بے ایمانی ہمارے رگ و پے میں سرایت کر چُکی ہے اور کرپشن پورے پاکستانی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ یاد رہےکہ ہم اپنی بے اعتدالیوں اور بد پرہیزی کے سبب اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں اور اس کا علاج بھی اس قوم کے معالجین ہی نے کرنا ہو گا۔ ہر چند کہ بیرونِ مُلک سے ملنے والی امداد سے عارضی طور پر افاقہ تو ہو سکتا ہے، لیکن یہ اس مرض کا مستقل علاج نہیں۔ تاہم، یہ کوئی ایسی بیماری بھی نہیں کہ جس کا علاج ممکن نہ ہو ، کیوں کہ دُنیا بَھر میں کرپشن کے مرض کے خاتمے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ پھر ہمارے وزیرِ اعظم میں تو یہ خوبی بھی پائی جاتی ہے کہ وہ دیگر ممالک کی بہترین مثالوں سے سیکھنے پر ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر انہوں نے چین اور ملائیشیا کی ترقّی کے ماڈلز سے سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔سو، اگر چینی ماڈل کی بات کی جائے، تو 1979ء میں چین ایک بڑے بُحران سے گزر رہا تھا۔ تب اس کے بانیان رخصت ہو چُکے تھے اور کمیونسٹ پارٹی میں اختلافات عروج پر تھے۔ اس موقعے پر ڈینگ ژیائو پَھنگ نے اقتدار سنبھالا اور مُلک کو بُحران سے نکالنے میں کام یاب ہو ئے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں چین کی موجودہ ترقّی و عظمت کا معمار قرار دیا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ موجودہ چینی ریاست لانگ مارچ اور انقلاب کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اور چینی قوم اب بھی اس پر فخر کرتی ہے، لیکن ڈینگ ژیائو پَھنگ نے، جو ایک عظیم سیاسی مدبّر اور معاشی رہنما تھے، انقلاب کا ڈنکا بجانے کی بہ جائے اقتصادیات کو ترجیح دی، کیوں کہ وہ یہ بھانپ چُکے تھے کہ چین کی بے پناہ آبادی کو درپیش مسائل کا دیرپا حل معاشی استحکام میں پوشیدہ ہے۔ دسمبر 1979ء میں ڈینگ ژیائو پَھنگ کی جانب سے کی جانے والی تقریر چینی قوم کے لیے ایک میثاق اور رہنما اُصول کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ آج کے بعد مُلک کی تمام پالیسیز، اقتصادی پالیسی کے تابع ہوں گی اور ہر پالیسی کا مقصد مُلک کی اقتصادی ترقّی کو مضبوط و مستحکم کرنا ہو گا۔

غیر مُلکی امداد... اعتماد کا اشارہ
انڈونیشیا میں پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے وفد کے درمیان مذاکرات کا ایک منظر

یہ بہ ظاہر تو سادہ سے جملے تھے، لیکن ڈینگ ژیائو پَھنگ اور اُن کے جانشینوں نے ان پر عمل درآمد کے لیے جس قسم کے عزم، مستقل مزاجی اور لچک کا مظاہرہ کیا، اس کی مثال چین کے علاوہ شاید ایک دو ممالک ہی میں ملتی ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں چین بڑی حد تک اپنے خول میں سِمٹ گیا اور اس نے خود کو علاقائی و عالمی تنازعات سے بالکل الگ تھلگ کر لیا۔ مثال کے طور پر تب چین کے پڑوس میں واقع، افغانستان میں جنگ جاری تھی، لیکن اس نے اس میں کوئی دِل چسپی نہ لی اور بھارت سے دشمنی کو بھی معتدل تعلقات میں بدل لیا۔ نیز، اس موقعے پر چین نے مغرب کے ساتھ تعلقات میں پائے جانے والے تنائو کو ختم کرتے ہوئے امریکا اور یورپ سے ٹیکنالوجی درآمد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی، بلکہ چینی طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد کو تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لیے اُن ممالک میں بھیجا اور جب یہ طلبہ اپنے مُلک واپس آئے، تو انہوں نے مصنوعات سازی اور تجارت کے جدید طریقوں کو اپنے ہاں رائج کیا، جس کے نتیجے میں چین، دُنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوّت بن گیا۔ چین نے جس طرح اپنی خارجہ پالیسی کو اپنے اقتصادی اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا، وہ ہر ترقّی پزیر مُلک کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ بیجنگ نے نہ صرف مغربی ممالک سے اپنے تعلقات بہتر بنائے، بلکہ عالمی نظام میں شامل ہونے کے لیے غیر معمولی اقدامات بھی کیے اور یہ کوئی معمولی کام یابی نہ تھی، کیوں کہ اس کے نتیجے میں چین کے لیے دُنیا بَھر سے تجارت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی مشکل نہ رہی۔ پھر چین کے اقتصادی منتظمین نے ایسی سمت متعیّن کی کہ جس کے سبب چینی کمپنیز کے لیے عالمی منڈی کی کھپت کے مطابق مصنوعات تیار کرنا ممکن ہو گیا۔ نتیجتاً آج دُنیا کے گوشے گوشے میں چینی ساختہ اشیاء دست یاب ہیں، جب کہ پاکستان میں تو ان کی بھرمار ہے، جو چینی پالیسی کی کام یابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس وقت دُنیا کی نمبر ایک معیشت، امریکا سمیت شاید ہی کوئی مُلک ایسا ہو کہ جسے چین سے تجارتی عدم توازن کا سامنا نہ ہو اور اس کا ایک سبب یہ ہے کہ چین نے اپنے تمام دشمنوں کو نہ صرف اپنا دوست بلکہ اپنی مصنوعات کا شیدائی بھی بنا لیا ۔

پاکستان کی موجودہ معاشی صورتِ حال بھی اس اَمر کی متقاضی ہے کہ تمام پالیسیز کو اقتصادی پالیسی کے تابع کر دیا جائے۔ تاہم، ان نامساعد حالات میں یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ 70برس کے دوران کی گئی فاش غلطیوں کے باوجود دُنیا ہم سے مایوس نہیں ہوئی۔ دوست ممالک ہماری پُشت پر کھڑے ہیں اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بھی، جنہیں ہم اپنا مخالف تصوّر کرتے ہیں، ہمیں امداد دینے پر آمادہ ہیں۔ یاد رہے کہ اس قسم کے امدادی پیکیجز پاکستان کو پہلی مرتبہ نہیں مل رہے اور ماضی میں امریکا، یورپ، چین، جاپان اور سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک مختلف صورتوں میں ہماری مدد کر چُکے ہیں۔ مثال کے طور پر یورپ نے ہمیں جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دیا۔ امریکا نے ٹیکس فری درآمدات کی اجازت دی۔ چین نے ہم سے بارٹر سسٹم کی بنیاد پر تجارت کی۔ جاپان نے ٹیکنالوجی فراہم کی اور عرب ممالک نے ہمیں مفت تیل اور گیس فراہم کی۔ سو، ہمیں دوسروں پر انگلیاں اُٹھانے کی بہ جائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ان سے کتنا فائدہ اُٹھایا۔ مُلک کو اس حال تک پہنچانے کی ذمّے دار کوئی ایک سیاسی جماعت یا ادارہ نہیں، بلکہ ہماری قومی پالیسی ہے۔ ہم اپنی عاقبت نا اندیشی کے سبب مُلک میں پیدا ہونے والے سیاسی بُحران پر قابو نہ پا سکے، جس کی وجہ سے مُلک دو لخت ہو گیا۔ بعد ازاں، ہم افغان جنگ میں شامل ہو گئے، جس کے نتیجے میں مُلک میں غیر ریاستی عناصر اور دہشت گردی کو فروغ ملا۔

تاہم، اس کے باوجود تقریباً ساری دُنیا ہی ہمیں معاشی بُحران سے نکالنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اس صُورتِ حال سے وزیرِ اعظم، عمران خان اور اُن کی حکومت کو فائدہ اُٹھانا چاہیے اور ایک ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دینی چاہیے کہ جو اقتصادی اہداف حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو ۔ اس مقصد کے لیے وزارتِ خارجہ کی بہ جائے وزارتِ خزانہ کو ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنا ہو گی، جب کہ وزراتِ خارجہ کو اس کے معاون کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ چین میں اسی پالیسی سے خوش حالی آئی اور جنوبی کوریا، سنگاپور اور ملائیشیا نے بھی بہترین نتائج دیے، تو کیا پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے یہ سب ممکن ہو گا؟ اگر اس کے تبدیلی پر مبنی منشور کو دیکھا جائے، تو حکومت کے لیے یہ کوئی بڑا ہدف نہیں۔ تاہم، اسے اپنی توانائیاں اپنے سیاسی حریفوں کو زیر کرنے کی بہ جائے نئی منڈیوں کی تلاش پر صَرف کرنا ہوں گی۔ مُلک میں مصنوعات سازی کو فروغ دینا اور برآمدات کو بڑھانا ہو گا۔ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا اور سب سے بڑھ کر ان تمام عوامل سے پرہیز کرنا ہو گا کہ جو اس راہ میں رکاوٹ بنتے ہوں۔

تازہ ترین