اسلام آباد(بیورورپورٹ)نیب نے ملتان میٹرو بس سروس منصوبے سے متعلق خبروں کو من گھڑت اور فرضی قرار دیدیاہے۔نیب نے اپنی وضاحت میں کہا ہے کہ نیب کی تحقیقات میں منصوبے کی فزیبلیٹی رپورٹ اورمنظوری‘تعمیر کے ٹھیکے،زمین کا حصول اور چینی کمپنی کے اکائونٹس میں رقوم منتقلی وغیرہ شامل تھے۔جب کہ نمائندہ جنگ فخر درانی اپنے موقف پر قائم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نیب اپنی وضاحت میں11 سوالات کے جوابات دینے میں ناکام رہاہے۔تفصیلات کے مطابق،قومی احتساب بیورو(نیب) نے ملتان میٹرو بس سروس منصوبے کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں پر وضاحت دیتے ہوئے انہیں من گھڑت، قیاس آرائیوں پر مبنی اور فرضی قرار دے دیا۔نیب کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس طرح کی مجرمانہ میڈیا رپورٹس اور خبریں عام قاری کے لیے وقت گزاری کا سبب تو بن سکتی ہیں لیکن پروسیکیوشن کے مقصد کے لیے پیش کیے جانے والے ممکنہ معتبر ثبوت کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔اس کے ساتھ اس طرح کی بے بنیاد خبروں میں ریاستی ادارے کو ناکام اور غیر موثر دکھا کر پیش کرنے سے عام عوام میں اداروں کے خلاف نفرت اور عدم اعتماد پھیلے گا۔ ملتان میٹرو بس منصوبے کی تحقیقات مجاز اتھارٹی نے کی ہے جس میں 4 بنیادی نکات کا جائزہ لیا گیا۔ان 4 نکات میں منصوبے کی فزیبلیٹی رپورٹ اورمنظوری، تعمیر کے لیے ٹھیکے دینا اور اس سلسلے میں کی جانے والی ادائیگی، منصوبے کے لیے زمین کا حصول اور چینی کمپنی یا بائت کے اکاؤنٹس میں رقوم کی منتقلی شامل ہیں۔ تحقیقات کے طریقہ کار سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اسے 2 حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں تفتیشی افسران کی معاونت کے لیے انجینئروں، بینکروں اور ریونیو افسران پر مشتمل 3 ٹیمیں بنائی گئیں۔اس کے لیے متعلقہ محکموں سے ریکارڈ حاصل کیا گیا، جبکہ ان اداروں کے افسران، کنسلٹنٹس، بینکس، اکاؤنٹ ہولڈرز، زمین کے مالکان، سپلائرز وغیرہ سے بھی تفتیش کی گئی جس کے شواہد اکھٹے کرنے کے لیے نیب ٹیم لاہور، کراچی اور اسلام آباد بھی گئی۔اس سلسلے میں قومی خزانے سے ادا کی جانے والی رقوم کے لیے ریکارڈ کے ڈھیر کا جائزہ لیا گیا اور ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے گئے جبکہ متعدد ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ تاہم کچھ نے معزز عدالتوں سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی، تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ منصوبے میں قومی خزانے کو 2 ارب 20 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔نیب کے بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ 6 میں سے 3 تعمیراتی کمپنیاں غیر قانونی طور پر حاصل ہونے والے فوائد واپس قومی خزانے میں جمع کروانے کے لیے نیب کو درخواست دے چکی ہیں، اس کے علاہ سرحد پار رقوم کی منتقلی اور متعلقہ حکام سے معلومات حاصل کرنے کے لیے باہمی قانونی تعاون بھی تشکیل دیا گیا۔بیان میں کہنا تھا کہ نیب ملتان قانون کے مطابق تفتیش کررہا ہے جس کی تکمیل کے بعد اس کی رپورٹ مزید جائزے کے لیے نیب ہیڈ کوارٹر کو ارسال کی جائے گی جس پر آپریشن ڈویژن اور قانوی لحاظ سے نظر ثانی کی جائے گی۔ بعدازاں شواہد کی بنیاد پر جانچ پڑتال اور قانونی چارہ جوئی کرنے کے بعد تفتیشی رپورٹ ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پیش کی جائے گی جو اس کی جانچ کا سب سے اعلیٰ سطحی فورم ہے، جس کے بعد اس پر بحث کی جائے گی اور قانون کے مطابق ثبوتوں کا جائزہ لینے کے بعد نیب کا ایگزیکٹو بورڈ مزید اقدامات کا فیصلہ کرے گا۔چناچہ مندرجہ بالا معاملات کے تناظر میں میڈیا سے درخواست کی جاتی ہے کہ براہِ مہربانی مجرمانہ کیسز کی مفروضوں پر مبنی خبروں کی اشاعت نہ کریں کہ اس سے قانونی تقاضے متاثر ہونے اور ریاستی ادارے کے تشخص کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔اس ضمن میں نمائندہ جنگ کا کہنا تھا کہ نیب کی وضاحت سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ دی نیوز کی اسٹوری درست تھی کیوں کہ اسٹوری میں بیان کردہ حقائق کسی ایک بات سے بھی متصادم نہیں ہیں۔نمائندہ جنگ اپنی اسٹوری پر قائم ہے۔نیب اپنی طویل اور غیر متعلقہ وضاحت میں درج ذیل سوالات کے جوابات دینے میں ناکام رہا ہے۔سوال1، کیا ایف آئی اے نے ملتان میٹرو بس میں ہونے والی منی لانڈرنگ کا ریکارڈ نیب کو دیا ہےیا نہیں؟سوال2، پاکستان کی دو کمپنیاں ہوریزون انٹرنیشنل اور اے جی انٹرنیشنل کا جون 2016سے مارچ تک کا 2اعشاریہ8ملین ڈالرز کی ٹرانزیکشن تفصیلات ایف آئی اے نے نیب کو دی ہیں یا نہیں؟سوال3،ہوریزون انٹرنیشنل کے مالک اسلم خان جو کہ پاکستان سے چین منی لانڈرنگ میں ملوث تھے ، کیا نیب نے انہیں طلب کیایا نہیں اور کیاانہیں مزید تحقیقات کے لیے حراست میں لیا گیا؟سوال4،کیا نیب نے یابائت پاکستان کے معاون ڈائریکٹر شیخ اعجاز اصغر کو طلب کیا یا نہیں اورکیا ان سے ملتان میٹرو بس منصوبے سے متعلق پوچھ گچھ کی گئی؟سوال5،کیا نیب نے سلمان سہگل کو طلب کیا یا انہیں حراست میں لیا ، جنہوں نے پنجاب پولیس کے سامنے اقرار کیا تھا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب، سینیٹر مشاہد حسین سید اور سینیٹر کلثوم پروین کے جعلی خطوط بنائے تھے؟سوال6،کیا نیب کے کسی تفتیشی افسر نے اعجاز اصغر شیخ اور سلمان سہگل کی ضمانت کی سماعت میں شرکت کی تھی؟سوال 7،نیب نے اعجاز اصغر شیخ اور سلمان سہگل کی ضمانت کی مخالفت کیوں نہیں کی اور نیب نے انہیں کھلی چھوٹ کیوں دی تھی؟سوال8،کیا نیب نے کبھی سونیری بینک کلاتھ مارکیٹ برانچ کراچی کے کمپیوٹر اور دیگر ریکارڈ کو فارینزک آڈٹ کے لیے ضبط کیا تھا ؟دو پاکستانی کمپنیوں ہوریزون انٹرنیشنل اور اے جی انٹرنیشنل نے پیسہ پاکستان سے چین بذریعہ دبئی اسی برانچ سے منتقل کیا تھا۔سوال9،نیب نے سلمان سہگل کے کمپیوٹر کو ضبط کیوں نہیں کیا ، جس کے ذریعے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور دو سینیٹرز کے جعلی خطوط بنائے تھے؟کمپیوٹرز کو پنجاب پولیس نے ملز م سلمان سہگل کے اقرار کے بعد ضبط کیا تھا۔کیا نیب نے باضابطہ طور پر مذکورہ کمپیوٹر کی فارینزک رپورٹ حاصل کرنے کی درخواست کی تھی؟سوال10،نیب نے چینی کمپنی یابائت کے سی ای او سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی، جو کہ میگا اسکینڈل کے اہم کردار ہیں؟سوال11،نیب کے ایف آئی اے سے کیس لیے جانے کے 11ماہ گزر جانے کے باوجود نیب نے اس کیس سے متعلق منی لانڈرنگ میں ملوث کتنے افراد کو گرفتار کیا ہے؟نیب نے اپنی وضاحت میں ان سوالات کا جواب دینے کے بجائے ایک عام سا بیان جاری کیا۔اس بیان نے خود دی نیوز کے اسٹوری کی تصدیق کردی کہ نیب تحقیقات کا مرکز منی لانڈرنگ نہیں ہے بلکہ اس نے پوری تحقیقات کی سمت ہی تبدیل کرکے منی لانڈرنگ سے تکنیکی نوعیت کی کردی ہے۔جس کے باعث اس میگا اسکینڈل میں نیب کے اصل مقاصد سے متعلق سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔