• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دُنیا نے عالمی جنگوں سے کیا سبق سیکھا؟
پہلی عالمگیر جنگ کے خاتمے کے ایک سو برس مکمل ہونے پر پیرس میں منعقدہ تقریب میں شریک عالمی رہنماؤں کا گروپ فوٹو

 11 نومبر کو فرانس کے دارالحکومت، پیرس میں 90سے زاید سربراہانِ مملکت و حکومت نے عالمی امن برقرا رکھنے اور جنگ سے گریز کے عزم کا اعادہ کیا۔ عالمی رہنمائوں کے اس اجتماع میں امریکا، رُوس، یورپ اور تُرکی کے سربراہانِ مملکت نمایاں تھے۔ خیال رہے کہ اس اجتماع سے پورے ایک سو برس قبل 11نومبر 1918ء کو پہلی عالم گیر جنگ اختتام پزیر ہوئی تھی اور بعد ازاں معاہدۂ ورسلیز ہوا۔ عالمی رہنمائوں نے پیرس کے مشہور ’’محرابِ فتح‘‘ (arc de triump) تک مارچ کیا اور پہلی جنگِ عظیم جیسا واقعہ نہ دُہرانے کا عہد کیا۔ خیال رہے کہ کم و بیش 5برس تک جاری رہنے والی اس جنگ میں لگ بھگ ایک کرو ڑ شہری اور اتنے ہی فوجی لقمۂ اجل بنے، نیز کم و بیش 2کروڑ افراد زخمی ہوئے اور سیکڑوں شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے تھے۔ پہلی عالم گیر جنگ کا مرکز، یورپ تھا اور اس میں جرمنی ،آسٹریا۔ ہنگری اور سلطنتِ عثمانیہ ، فرانس، برطانیہ، امریکا، سربیا اور رُوس کے مدِ مقابل تھے۔ اس جنگ میں جرمنی اور اس کے حلیف ممالک کو شکستِ فاش ہوئی اور انہیں غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنا پڑے، جب کہ مذکورہ معاہدے کے بعد جرمنی بالکل بے بس ہو گیا۔ اس کے اکثر علاقوں پر فاتح ممالک نے قبضہ کر لیا اور اس پر فوج نہ رکھنے کی پابندی بھی عاید کر دی گئی۔ تاہم، اس جنگ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے حصّے بخرے کر دیے گئے اور 1300برس بعد خلافت کا نظام انجام کو پہنچا۔ نیز، یروشلم یعنی بیت المقدس پر بھی برطانوی فوج نے قبضہ کر لیا۔ دوسری جانب یہی معاہدہ دوسری عالم گیر جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوا، جو پہلی عالم گیر جنگ سے بھی زیادہ خوف ناک اور ہلاکت خیز تھی۔

بہ ظاہر پہلی عالمی جنگ کا محرّک ،قتل کا ایک عام سا واقعہ تھا۔ ایک جلوس میں شرکت کے دوران سربیا کے ایک باشندے نے آسٹریا۔ ہنگری کے شہزادے، فرانزفرڈی نینڈ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد 28جولائی 1914ء کو آسٹریا ہنگری اور سربیا کے درمیان جنگ چِھڑ گئی۔ ابتدا میں یہ جنگ صرف ان دو ممالک تک محدود تھی، لیکن پھر پورا یورپ اور دُنیا کے دوسرے ممالک بھی اس میں کود پڑے۔ جرمنی نے آسٹریاہنگری کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اٹلی بھی ان کا حلیف بن گیا اور ان ممالک کی افواج نے مل کر سربیا پر حملہ کر دیا۔ اس موقعے پر برطانیہ اور فرانس کی افواج سربیا کے دفاع کے لیے میدان میں آگئیں اور رُوس اور امریکا بھی ان کے حلیف بن گئے، جب کہ سلطنتِ عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا، جس کے نتیجے میں یہ جنگ یورپ سے نکل کر افریقا اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیل گئی کہ ان خطّوں کے مسلمان صوبےسلطنتِ عثمانیہ کا حصّہ تھے۔

درحقیقت، پہلی عالم گیر جنگ کے کئی اسباب تھے، جن میں جرمنی کا غیر معمولی استحکام بھی شامل ہے۔ 1914ء میں جرمنی ایک سُپر پاور تھا اور اس کی ترقّی نہ صرف یورپ بلکہ پوری دُنیا ہی کے لیے چیلنج بن چُکی تھی۔ تب جرمنی کا صنعتی شعبہ جدّت کا حامل، تجارت غیر معمولی منافع بخش اور فوجی قوّت قابلِ رشک تھی اور جرمن باشندے ایک فلاحی مملکت میں خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے۔ اسی بنا پر ناقدین کا استدلال ہے کہ اگر جرمن رہنما پہلی عالمی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ نہ کرتے، تو آج جرمنی عالمی طاقت ہوتا۔ تاہم، اس عالم گیر جنگ نے جرمنی کو تباہ کر دیا۔ اعداد و شمار کے مطابق، اس جنگ میں تقریباً 7کروڑ سپاہیوں نے حصّہ لیا، جن میں سے 6کروڑ یورپی تھے، جب کہ 74,000ہندوستانی فوجی بھی اس جنگ کا ایندھن بنے۔ پہلی عالم گیر جنگ میں پہلی مرتبہ وسیع پیمانے پر جنگی و کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا، جو انسانی وحشت و درندگی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انسان ہی انسانیت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے پر تُل گیا ہے۔ دوسری جانب اس جنگ کے سیاسی مضمرات بھی کم خوف ناک نہ تھے کہ معاہدۂ ورسلیز نے پائے دار امن کی بہ جائے ایک ہول ناک جنگ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ مثال کے طور پر اس معاہدے کی رُو سے جرمنی کو جس ذلّت آمیز انداز میں شرائط قبول کرنے پر مجبور کیا گیا، اس نے ایڈولف ہٹلر جیسے آمرِ مطلق کو جنم دیا۔ گرچہ جرمنی نے گھٹنے ٹیک دیے تھے، لیکن اس کا ترقّی یافتہ انفرا اسٹرکچر اور جرمن قوم میں پایا جانے والا احساسِ برتری ختم نہ کیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہٹلر، جرمنز کے جذبۂ قوم پرستی کو بیدار کرنے اور انہیں جنگ پر آمادہ کرنے میں بہ آسانی کام یاب ہو گیا اور یوں پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے 22برس بعد دوسری عالم گیر جنگ چِھڑ گئی، جس میں 10کروڑ افراد پیوندِ خاک ہوئے اور جاپان کے دو شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کا نہایت دِل دوز سانحہ بھی پیش آیا، جس کے نتیجے میں چشمِ زدن میں لاکھوں بے گناہ افراد لقمۂ اجل بن گئے۔

دُنیا نے عالمی جنگوں سے کیا سبق سیکھا؟
1914ء سے 1918ء تک جاری رہنے والی پہلی عالمی جنگ کے مناظر

پہلی عالم گیر جنگ کے نتیجے میں جہاں دُنیا بَھر میں تباہی پھیلی، وہیں سلطنتِ عثمانیہ کی تقسیم کے سبب کئی نئی ریاستیں بھی وجود میں آئیں، جنہیں پہلے فرانس، برطانیہ اور رُوس نے اپنے تسلّط میں لیا اور جب انہیں برائے نام آزادی ملی، تو فوجی آمروں نے شہریوں کو اپنا غلام بنا لیا اور ان کی عاقبت نا اندیشی کے سبب ہی آج مشرقِ وسطیٰ آگ میں جل رہا ہے، جب کہ عرب ممالک اور ایران ایک بے مقصد برتری کی جنگ میں ایک دوسرے کو مٹانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اگر جنوبی ایشیا پر نظر دوڑائی جائے، تو یہاں پاکستان اور بھارت وراثت میں ملنے والی دشمنی ختم کرنے پر آمادہ نہیں، جب کہ یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا ترقّی کے نِت نئے ریکارڈز قائم کر رہے ہیں۔ بد قسمتی سے اقوامِ عالم نے پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے کوئی خاص سبق نہیں سیکھا، تب ہی آج بھی دُنیا بَھر میں قوم پرستی کی تحریکیں سَر اُٹھا رہی ہیں،حالاں کہ اسی قوم پرستی پر قابو پانے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد کئی بین الاقوامی اداروں کا قیام عمل میں آیاتھا۔ مثال کے طور پر اقوامِ متّحدہ میں ہر مُلک کو رُکنیت دی گئی اور مالیاتی توازن پیدا کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے تشکیل دیے گئے۔ علاوہ ازیں، ممالک کے درمیان تعاون کے لیے مختلف تنظیمیں بھی بنائی گئیں، جن میں یورپی یونین سب سے زیادہ جامع و مؤثر ثابت ہوئی۔ مزید برآں، نیٹو، وارسا پیکٹ، غیر وابستہ ممالک کی تنظیم، آسیان، سیٹو، سینٹو، سارک اور شنگھائی تعاون تنظیم اور بِرکس بینک جیسے ادارے، بین الاقوامی پلیٹ فارمز سامنے آئے، جن کے سبب گلوبلائزیشن یا عالم گیریت کو تقویّت ملی اور دُنیا نے ایسی تیز رفتار ترقّی کا مشاہدہ کیا، جس کا تصوّر بھی ممکن نہ تھا۔ اسی دوران عالمی منڈی کے تصّور نے اُبھرتی ہوئی معیشتوں، بالخصوص چین کو ایک عالمی اقتصادی طاقت بننے میں مدد فراہم کی اور سرمائے کا بہائو مغرب سے مشرق کی جانب ہوگیا۔ گوکہ اس عرصے میں دُنیا میں کئی انقلابی تحریکیں اُٹھیں، لیکن اس کے باوجود بیسویں صدی کے اختتام تک عالم گیریت نے سب پر کامل برتری حاصل کر لی۔ تاہم، اسے حالات کی ستم ظریفی یا وقت کا جبر ہی کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ برسوں میں دونوں عالمی جنگوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے یورپ ہی سے قوم پرستی کی ایک لہر اُٹھی، جو اب بہ تدریج ایک طوفان میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر آج سے چند برس قبل یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے برطانیہ میں بریگزٹ ریفرنڈم ہوا اور اب دوسرے یورپی ممالک میں بھی قوم پرست جماعتیں پزیرائی حاصل کر رہی ہیں، جب کہ امریکا میں ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا غلغلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیرس میں منعقد ہونے والے عالمی رہنمائوں کے اجتماع میں فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکروں نے پہلی مرتبہ یورپ کی حفاظت کے لیے ایک فوجی تنظیم قائم کرنے کی تجویز دی، تو اس پر امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ سیخ پا ہو گئے اور انہوں نے ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پہلے یورپ، نیٹو میں اپنے حصّے کی ادائیگی کرے، جس کے لیے امریکا ہی سرمایہ فراہم کرتا رہا ہے۔ گرچہ فی الوقت یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا ہے، لیکن اس سے یورپی ممالک کے مزاج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم، ماہرین اس اَمر پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ تمام تر اختلافات کے باوجود عالمی رہنما دُنیا کے امن کو فوقیت دے رہے ہیں اور وہ براہِ راست محاذ آرائی سے گریزاں ہیں۔

پہلی عالمی جنگ سے اب تک ایک سو سال میں دُنیا کی آبادی میں 7گُنا اضافہ ہوا۔ تب کرّۂ ارض پر ایک ارب انسان بستے تھے، جب کہ آج دُنیا کی آبادی 7.5ارب ہے۔ اس دوران ٹیکنالوجی نے نہ صرف انسانیت کو سہارا دیا، بلکہ یہ معیارِ زندگی بھی بلند سے بلند کرتی چلی گئی، جس نے انسانوں میں امید کی ایک نئی کرن جگائی۔ ہر چند کہ آج دُنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصّہ غُربت کی چکّی میں پِس رہا ہے اور تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی عاری ہے، لیکن اس کے باوجود اقوامِ عالم میں ترقّی اور فلاح و بہبود کی سوچ پہلے سے زیادہ قوی ہوتی جا رہی ہے۔ گوکہ وقتاً فوقتاً عالمی رہنمائوں کے تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور قوم پرستی بھی اپنا رنگ دِکھاتی رہتی ہے، لیکن جب اجتماعی فیصلوں کا وقت آتا ہے، تو عالمی لیڈر شپ کی نظروں کے سامنے پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والی تباہی کے مناظر گھومنے لگتے ہیں اور وہ تنازعات کی شدّت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیرس میں منعقدہ اجتماع میں نہ صرف پہلی جنگِ عظیم کے فاتح اور مفتوح ممالک کے رہنما ایک ساتھ بیٹھے تھے، بلکہ جرمنی اور فرانس کے، جو پہلی عالمی جنگ میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، رہنما قیامِ امن کی کوشش میں آگے آگے تھے۔ خیال رہے کہ اس وقت ان دونوں ممالک ہی نے یورپ میں قوم پرستی کی لہر کے آگے بند باندھ رکھا ہے اور یہ ٹرمپ کی ’’امریکا فرسٹ‘‘ پالیسی کی بھی ڈٹ کر مخالفت کر رہے ہیں۔ اس موقعے پر تُرکی کے صدر، رجب طیّب اردوان بھی موجود تھے، جن پر مغرب کی جانب سے دیگر الزامات کے علاوہ ایک یہ الزام بھی عاید کیا جاتا ہے کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ کا احیا چاہتے ہیں۔ اگر ہم جنگوں سے متاثر ہونے والے جاپان اور جرمنی کی مثالیں سامنے رکھیں، تو یہ ممکن بھی ہے، لیکن اس خلافت کی شکل مختلف ہو گی۔ خیال رہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے شکست خوردہ، جرمنی اور جاپان ہزیمت اُٹھانے کے چند برس بعد ہی ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر اُبھرے۔ لہٰذا، نہ صرف تُرکی بلکہ پورے عالمِ اسلام ہی کو اس سوال پر غور کرنا پڑے گا کہ آخر اُمتِ مسلمہ دُنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام کیوں حاصل نہیں کر پا رہی اور اس راہ میں کوتاہیاں رُکاوٹ ہیں یا کوئی سازش؟ اگر کوئی سازش آڑے آ رہی ہے، تو پھر تدبّر سے اسے ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ افسوس، صد افسوس کہ سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے ایک سو سال بعد بھی عالمِ اسلام زوال پزیر ہے۔ آج خلافت کے احیا کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہر اسلامی مُلک انفرادی طور پر اقتصادی قوّت حاصل کرے اور پھر تمام اسلامی ممالک ایک دوسرے سے تعاون کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں۔

پہلی اور دوسری عالم گیر جنگ کا ایک بڑا سبب یورپ میں پائی جانے والی معاشی ناہم واری بھی تھی، جو آج بھی کسی حد تک موجود ہے، لیکن ان حالات میں جنوب مشرقی ایشیا امید کی کرن ہے۔ اس خطّے کی برق رفتاری اور وسیع البنیاد ترقّی نے ساری دُنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ تاہم، اس ترقّی میں امریکا، جاپان اور چین کا اہم کردار ہے۔ گرچہ شمالی کوریا جیسا مُلک بھی اسی خطّے میں موجود ہے، لیکن اب اس کے رویّے میں بھی مثبت تبدیلی واقع آرہی ہے۔ اسی طرح مشرقی ایشیا سے متّصل دُنیا کی دو تہائی آبادی کے حامل دو ممالک، چین اور بھارت نے بھی، جو عالمی جنگوں میں مفتوح رہے، اپنی تمام تر توجّہ اقتصادی ترقّی پر مرکوز رکھی ہوئی ہے اور تصادم سے گریزاں ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم سے ہمیں ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ دُنیا کے امن کی خاطر، دشمن بھی ایک دوسرے کے دیرینہ اتحادی بن سکتے ہیں، جیسا کہ فرانس اور جرمنی اور جاپان اور امریکا۔

ہو سکتا ہے کہ اب پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی تاریخ دُہرانا ممکن نہ ہو، لیکن ہائبرڈ وار کے نتیجے میں انسانی جانوں کے زیاں کی روک تھام کیسے ہو گی؟ یہ سوال پیرس میں جمع ہونے والے سربراہانِ مملکت کو بھی پریشان کرتا ہو گا۔ آج پوری دُنیا کو دہشت گردی اور شدّت پسندی کی شکل میں ایک نئی جنگ کا سامنا ہے، جو بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہے۔ خیال رہے کہ ٹیکنالوجی نے شدّت پسندی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا کہ آج سہولت کے لیے ایجاد کیے گئے موبائل فونز اور انٹرنیٹ شدّت پسندوں کا اہم ہتھیار بن چُکے ہیں اور کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عالمی طاقتیں بھی اس عفریت کے سامنے بے بس ہو چُکی ہیں۔ بہر کیف، امید ہے کہ عالمی رہنمائوں نے اس پر بھی غور و فکر کیا ہو گا، کیوں ابھی تک اقوامِ متحدہ نے اس سے بچائو کے لیے کوئی متّفقہ لائحہ عمل پیش نہیں کیا اور صرف امدادی کارروائیوں ہی میں مصروف ہے۔

تازہ ترین