عنوان بظاہر مایوس کن ہے لیکن اِس تحریر کا مقصد مایوسی کا فروغ ہر گز نہیں ہے۔ بات ’’صرف‘‘ اِتنی ہے کہ پوری دنیا اِس وقت ایک ایسے عہد سے گزر رہی ہے کہ جب کسی اِنقلابی تو کیاکسی جمہوریت پسند یا اعتدال پسند شخص کا بھی عزت کے ساتھ گزر بسرمشکل ہوتا جارہا ہے۔ بحرِ اوقیانوس اور بحر الکاہل کے شمال مغربی، بحرِ ہند کے شمالی اور بحیرہِ روم کے شمال مشرقی کناروں پر بسنے والی قومیں یا تو رُجعت پسند قیادتوں کے شکنجے میں ہیں یا پھر مطلق اَلعنان حکمرانوں کے زیر اثر سیاسی و نفسیاتی تنزلی کا شکار ہیں۔ اَیسے حالات میں سب سے طاقتور حملہ سچائی پر کیا جاتا ہے، اوربار بار کیا جاتاہے۔ لہٰذا سچ بولنے اور سچ لکھنے والوں کے لئے فی الحال عالمی ماحول بظاہر ساز گار نہیں۔
امریکا اور ہندوستان جیسی جمہوریتوں میں ذرائع ابلاغ پر تنگ نظرحکمرانوں کا غلبہ ہے جبکہ روس، چین، مشرق وسطیٰ، مشرقی یورپ، ترکی اور شمالی افریقی خطوں میںصحافت و اِظہار کی آزادی کی مبہم صورتحال سے بھلا کون واقف نہیں۔پاکستان میں بھی ذرائع ابلاغ پر پابندیاں، ایڈیٹرز اور صحافیوں پر جبر اور اظہارِ خیال کی حوصلہ شکنی کی روایات بہت پرانی ہیں۔ لہٰذا اِس عالمی صورتحال میں اِن معاملات سے نمٹنا ملک کے نئے حکمرانوں کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ اِن دِنوں ’’اُمید پر دنیا قائم ہے‘‘ اور ’’مایوسی گناہ ہے‘‘ جیسے محاوروں کے کثرت ِ اِستعمال کے باجود سوچنا پڑتا ہے کہ کیا کیرئیر کیلئے نیوز میڈیا کا اِنتخاب پیشہ ور صحافیوں اور طلبا کو دیر سویر مہنگا پڑسکتا ہے؟
جنرل پرویز مشرف کے دَور میں الیکٹرانک میڈیا پر قدغن اور احتجاج کرنے والے صحافیوں پر تشدّد کے واقعات میڈیا سے جڑے کم و بیش ہر فرد کو آج بھی یاد ہیں۔ اُن ہی دنوں حالات قدرے بہتر ہوئے تو ایک ٹی وی شو میں صحافت کے چند طلبا نے ممتاز دانشور ڈاکٹر مہدی حسن سے سوال کیاکہ کیا شعبہ صحافت کا اِنتخاب صحیح فیصلہ تھا؟ ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا کہ پاکستان میں صحافت کا مستقل روشن ہے اور طلبا کو کسی عارضی صورتحال کے زِیر اثر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ اِس بات کو اب مدت گزر چکی ہے، لہٰذا خیال آیا کہ شاید دانشوروں کو نئی عالمی صورتحال میں اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنا پڑے۔
دوسری جانب چند صحافی دوست موجودہ حالات میں جونیئر ساتھیوں کو ڈیجیٹل میڈیا اور دیگر شعبوں میں قسمت آزمانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ستم یہ کہ تذبذب کے شکار تجربہ کار افراد خود کسی کی حوصلہ افزائی کرنے کے قابل نہیں۔ میڈیا ہائوسز کو درپیش مالی و نفسیاتی بحران اگرچہ کوئی نئی بات نہیں لیکن فرق یہ ہے کہ اِس بار صحافت میں بے باکی اور سچائی کی علمبردار نامور شخصیات بھی سڑکوں پر نکلنے سے بظاہر کترارہی ہیں۔یعنی معاملہ اَب نظریاتی دیوالیہ پن کی جانب بھی جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
دُنیا کے کسی بھی خطے میں سیاسی نظریات کا فقدان، صحافتی ماحول اور روّیوں پربراہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر طاقتور عناصر قیمت ادا کرنے پر راضی ہیں تو صحافی یا صحافتی اداروں کا دیر سویر، مکمل یا جزوی طور پر گھبرانا اچھنبے کی بات نہیں۔ قانون یا اِس کے نفاذ میں خلل اور سیاسی نظام میں غیر شفافیت اَیسی مصلحت یا سودے بازیوں کا بنیادی پس منظر بنتی ہیں۔ غیر نظریاتی ماحول پیشہ ور حلقوں میں معروضی و غیر معروضی وسوسوں کو بھی جنم دیتا ہے؛ لہٰذا احتجاجی مہمات میں صحافیوں کا روایتی جوش و جذبہ نظر آنا خاطر خواہ ممکن نہیں ہوتا۔ صحافتی حلقوں میں یقیناً ایسے خواتین و حضرات موجود ہیں جو بے چارے اگر بادل نخواستہ کسی احتجاجی ریلی میں شریک ہو بھی جائیں تو تمام وقت کیمروں کی آنکھ سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ کہیں کسی دیکھنے والے کی ناراضی اُن کی نوکری پرکلہاڑی نہ چلادے۔ نوکری بچانا اگرچہ ہر فرد کا بنیادی حق ہے لیکن اِس مقصد کے لئے کی جانے والی ’’مشقتوں ‘‘کے اِنتخاب کا تعلق براہ راست پیشہ ورانہ کردار سے ہوتاہے۔سیاست و صحافت میں کردار، بلاشبہ نظریاتی دیوالیہ پن کا سب سے بڑا ہدف بنتا ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں میں ملک کے سیاسی منظرنامے پر رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی اِسی نظریاتی دیوالیہ پن کا پیش خیمہ ہیں۔ گزشتہ ماہ حیدر آباد میں جام ساقی کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں اظہار خیال کے لئے صرف یہی بات اَہم تھی کہ جام جیسے محب وطن، اِیماندار اور نظریاتی سیاست دان کا اَب زندہ حالت میں ملنا مشکل ہے۔ بے نظیر کے پہلے دَور میں انہوں نے بادِل نخواستہ ایک عہدہ قبول تو کرلیا تھا لیکن ’’سازگار ماحول‘‘ کی دستیابی کے باوجود اُنہوں نے پیسہ کمانے کے بجائے رواداری، مساوات اور اَمن کے لئے اپنی جدوجہد کو ترجیح دی۔
جام ساقی کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے سا بق رہ نما مسرور احسن بھی شاہی قلعہ میں طویل قید اور تشدد کی صعوبتیں جھیل چکے ہیں۔ وہ بھی اپنے پختہ نظریات کے سبب پارٹی سے دور ہو گئے۔ پھر دہشت گردی کا شاید ہی کوئی واقعہ ہو جو مسرور احسن کے سر نہ تھوپا گیا ہو! میں خود گواہ ہوں کہ اِن کے خلاف سرکاری ذرائع ابلاغ کا اِستعمال کرنے والوں کو آخرکار کس طرح شرمندہ ہونا پڑا! لیکن اِن کے ساتھیوں کو آج بھی کوئی شرمندگی نہیں۔حالیہ ملاقات میں پوچھنے پر مسرور احسن نے صرف یہی کہا کہ نظریاتی سیاست کی قیمت بہت بھاری ہوتی ہے۔ یہ بھی غلط نہیں کہ اگر کوئی سیاسی پارٹی کسی کاروباری کمپنی کی صورت اختیار کرجائے تو جام ساقی اور مسروراحسن جیسے لوگوں کا گھر پر بیٹھنا ہی بہترہے۔
اَب سوال بنتا ہے کہ کیا نظریاتی نعرے اورعالمی انقلاب کا تمام تر فلسفہ، تبدیلی کے عارضی بہانوں سے بڑھ کر اور کچھ نہیں؟ عالمی سیاست کی موجودہ صورتحال کا اثر پیشہ ور صحافیوں کیلئے معاشی عدم تحفظ کا براہ راست سبب ہے۔ نیوز چینلز میں ڈائون سائزنگ اور نیوز ٹریٹمنٹ(News Treatment) میں احتیاط کے عملی اور نفسیاتی رجحانات فروغ پارہے ہیں۔