• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ ترقیوں میں کئی سینئر بیوروکریٹس کو نظرانداز کیا گیا

اسلام آباد (طارق بٹ) بیوروکریسی میں حالیہ ترقیوں میں کئی سینئر بیوروکریٹس کو نظرانداز کیا گیا جبکہ ریٹائرڈ افسران کو 22ویں گریڈ میں ترقی دی گئی۔ دو بیوروکریٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد گریڈ 22میں ترقی انہیں یقینی طور پر کچھ فائدے دے گی تاہم وہ حکومتی ملازمت والی آسائشوں ، اثر رسوخ اور سہولیات سے محروم رہیں گے۔عمران احمد کا تعلق ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ سے ہے اور شفیق الرحمن رانجھا حال ہی میں 60سال کی عمر پوری ہونے پر ریٹائر ہوئے جنہیں دیگر افسران کے ساتھ ترقی دی گئی۔ ایک سینئر بیوروکریٹ نے دی نیوز کو بتایا کہ ایک بڑا فائدہ جو ریٹائرمنٹ کے بعد ترقی پانیوالے ان افسران کو ملے گا وہ اسلام آباد میں 500گز کا رہائشی پلاٹ ہے۔ اوپن مارکیٹ میں زمین کے اس ٹکڑے کی مالیت کروڑوں روپے ہے جبکہ اسے انتہائی کم قیمت میں الاٹ کیا جاتا ہے۔ جب سینئر افسر کو بتایا گیا کہ نئی حکومت شاید ان افسران کو پلاٹ نہ دے تو ان کا کہنا تھا کہ پلاٹ دینے کی پالیسی تاحال برقرار ہے اگرچہ ممکن ہے کہ انتظامیہ سادگی مہم کے تحت اسے جاری نہ رکھے۔ دوسرا بڑا فائدہ ان افسران کو یہ ہوگا کہ انہیں 22ویں گریڈ کے حساب سے بڑھی ہوئی پنشن ملے گی۔ تیسرا فائدہ اگرچہ مالی نہیں لیکن اس کا تعلق عزت اور رتبے کے وقار سے ہے جو انہیں 22ویں گریڈ میں ریٹائر ہونے پر ملے گا۔ افسر کا کہنا تھا کہ بعد از ریٹائرمنٹ ترقی شاذو نادر ہی اس صورت میں دی جاتی ہے جب یہ حقیقت واضح ہو کہ یہ افسران ترقی کے مستحق تھے لیکن سلیکشن بورڈ کا اجلاس منعقد نہ ہوسکااور وہ پنشن کی عمر کو پہنچ گئے۔ موجودہ آئی جی موٹر وے اے ڈی خواجہ کو حالیہ دور میں ترقی دی گئی اگرچہ انہیں بطور آئی جی سندھ ہمیشہ سپریم کورٹ سے تعریف سننے کو ملی۔ صوبائی حکومت کی اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کی شدید خواہش کے باوجود عدالتی حکم پر ہی وہ اپنے عہدے پر برقرار رہے۔ 2اپریل 2017کو ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹانے پر شدید تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں اس لئے ہٹایا گیا کیوںکہ انہوں نے کرپشن میں سہولت کار بننے سے انکار کیا تھا۔ ان کے بجائے ایک اور سینئر افسر نعیم خان کو ترقی دی گئی تھی۔ نواز شریف نے بطور وزیراعظم دو مرتبہ انہیں نظرانداز کیا اورانٹیلی جنس رپورٹس اور کارکردگی کی بنیاد پر 22ویں گریڈ میں ترقی نہیں دی۔ پنجاب اینٹی کرپشن کے موجودہ ڈی جی حسین اصغر جن کی دیانت شک و شبہ سے بالا تر ہے اور جنہیں بلاخوف و خطر میگا کرپشن کیسز کی تفتیش کا اعزاز حاصل ہے، کو سول سروس کے اعلیٰ ترین گریڈ میں رکھا گیا ہے۔ وہ اگلے تین ماہ میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ انہیں موجودہ حکومت نے پنجاب اینٹی کرپشن کا سربراہ مقرر کیا تھا اور یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ سابق حکمراں جماعت کے چیدہ چیدہ رہنماوں کی کرپشن کا کھوج لگائیں۔ سینئر افسر کا کہنا ہے کہ اگر نعیم خان اور حسین اصغر کو کسی وجہ سے ترقی دینی ہی تھی تو اے ڈی خواجہ کیلئے 22ویں گریڈ میں کوئی جگہ بناتی پڑتی کیونکہ وہ مطلوبہ اہلیت پر پورا اترتے ہیں۔ بطور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سب سے زیادہ 56بیوروکریٹس کو 22ویں گریڈ میں ترقی دی تھی تاکہ انکا پرنسپل سیکریٹری، جو اس فہرست میں خاصا نیچے تھا، کو بھی فائدہ پہنچایا جاسکے۔ تاہم ان ترقیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھاجس نے انہیں کالعدم قرار دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ 22ویں گریڈ میں ترقی کیلئے 21ویں گریڈ میں کم از کم 2سال نوکری ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ وزیراعظم کو ایسی ترقی دینے کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے لیکن یہ قطعی نہیں۔ یہ صوابدیدی اختیار معقول، انصاف پر مبنی ہو جسے کا عدالت میں جواز بھی پیش کیا جاسکے۔ سینئر افسر نے مزید بتایا کہ کسٹمز گروپ کے سب سے سینئر افسر زاہد کھوکھر کو بھی ترقی میں نظرانداز کیا گیا ہے اگرچہ وہ اپنی اہلیت اور دیانت میں مشہور ہیں۔ محاصل کا ہدف حاصل کرنے پر انہیں حال ہی میں محکمہ کسٹمز میں سب معتبر پوزیشن دی گئی تھی۔
تازہ ترین