• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرچہ اقتصادی ترقّی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا براہِ راست تعلق ہے، لیکنڈ گزشتہ سوا سو برس کے دوران ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی تیز رفتار ترقّی نے اقتصادی ماہرین کے لیے اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ایک چیلنج بنا دیا ہے، جب کہ آج کرنسی کی ہیئت میں تبدیلی بھی دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ آج ٹیکنالوجی کی بہ دولت کرنسی کی ایک نئی شکل وجود میں آ چُکی ہے، جسے ’’کرپٹو کرنسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس وقت یہ ڈیجیٹل کرنسی اقتصادی ماہرین کی توجّہ کا مرکز بن چُکی ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت دیگر مستند بین الاقوامی مالیاتی فورمز پر تحقیق کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ کرنسی موجودہ مالیاتی نظام کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔ کرپٹو کرنسی کی حمایت کرنے والے افراد کا ماننا ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں رونما ہونے والی نِت نئی تبدیلیوں کی وجہ سے کرنسی کی یہ قسم ناگزیر ہے، جب کہ مخالفین اسے موجودہ مالیاتی و تجارتی نظام کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کرپٹو کرنسی ہے کیا؟ دراصل، کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل یا ورچوئل کرنسی کو لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ کرنسی ڈیٹا بیس کی وہ انٹریز ہیں کہ جن میں اُس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی کہ جب تک مخصوص شرائط یا ضروریات کو پورا نہ کیا جائے۔

ایک زمانے میں کرنسی سونے کی اشرفیوں کی شکل میں ہوا کرتی تھی اور تب مُہم جُو سونے کے ذخائر کی تلاش میں خطرناک مہمات سَر کرتے اور کام یابی کی صُورت میں راتوں رات امیر بن جاتے۔ معروف مصنّف، رائیڈر ہیگرڈ کے ناولز اس قسم کی مُہم جوئیوں سے بَھرے پڑے ہیں، جن میں ایک مُہم جُو، جو کہ ہیرو ہوتا ہے، سونے کے حصول کے لیے اپنی جان تک کی بازی لگا دیتا ہے۔ یہ قصّے کہانیاں آج بھی دِل چسپی کا باعث ہیں اور ان پر کئی بلاک بسٹر فلمز بھی بن چُکی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’انڈیانا جونز‘‘ اور ’’سولومن مائنز‘‘ جیسی مشہورِ زمانہ موویز کے تمام کردار سونے کی تلاش میں تھے کہ اسےحاصل کر کے خوش حال بنا جا سکے۔ گو کہ آج سونے کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے، لیکن اس کے پیچھے بھی سونے کے ذخائر ہی کا ہاتھ ہے اور آج بھی تیل کی بہ جائے سونے کے ذخائر ہی کرنسی کا نعم البدل ہیں۔ کرنسی کا یہ سفر جہاں نہایت دِل چسپی کا حامل ہے، وہیں انسان کے ارتقائی مراحل کا عکّاس بھی ہے۔ اب کرنسی اور مالیات کے معاملے میں ریاست کا کردار بنیادی اہمیت اختیار کر چُکا ہے۔ یعنی اب ریاست ہی یہ طے کرتی ہے کہ کون سی کرنسی میں لین دین کرنا ہے اور اگر ریاست کسی کرنسی پر پابندی عاید کر دے، تو پھر بڑی سے بڑی مالیت کے نوٹ کی حیثیت بھی ایک کاغذ سے زیادہ نہیں رہتی۔

اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ انسان کے رہن سہن میں تبدیلی کے ساتھ کرنسی کی شکل بھی تبدیل ہوتی رہی۔ انسانی زندگی کے آغاز کے وقت روزمرّہ کا لین دین ایک بازار تک محدود تھا اور تب دھاتی سکّے کرنسی کا کام انجام دیتے تھے۔ یہ سکّے ہر قسم کے لین دین میں کام آتے اور انہیں کُھرچ کر، چبا کر یا دیگر ذرایع سے ان کا کھرا پن معلوم کیا جاتا۔ تاہم، جب جہاز رانی کی بہ دولت تجارتی سرگرمیوں نے وسعت اختیار کی اور دُنیا کے مختلف حصّوں میں تجارتی منڈیاں وجود میں آئیں، تو سکّوں کو بڑی تعداد میں ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا مصیبت بن گیا۔ نویں صدی عیسوی میں چین نے کاغذ کا نوٹ متعارف کروایا اور اس کے بعد سے تاجر اپنی تجوری یا اکائونٹ گھر اور منزلِ مقصود پر رکھتے۔ لین دین کے بعد ایک رسیدی نوٹ دے دیا جاتا کہ اتنی رقم مال کے بدلے ادا کر دی جائے۔ یعنی کاروبار کا تمام تر دارومدار تاجروں کے ایک دوسرے پہ بھروسے پر تھا اور ریاست کا اس میں کوئی عمل دخل نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بیش تر معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ ریاست کا کام کاروبار چلانا نہیں، بلکہ قانون سازی کرنا ہے۔ عرب تاجر ان رسیدوں کو ’’ساکس‘‘ کہتے تھے، جن سے لفظ ’’چیک‘‘ وجود میں آیا۔ تاہم، اس وقت تک کوئی بین الاقوامی کرنسی وجود میں نہیں آئی تھی۔ بعد ازاں، اٹلی اور یورپ کے دیگر ممالک کے تاجروں نے اس چیک یا رسید میں تبدیلیاں لاتے ہوئے اسے عالمی اقتصادی نظام کا مستقل حصّہ بنا دیا۔ پھر جب ذرایع آمد و رفت بڑھنے کے نتیجے میں عالمی پیمانے پر تجارت ہونے لگی، تو ریاست نے چیکس اور نوٹوں کی ضمانت دینا شروع کر دی اور جدید مالیاتی نظام اسی ضمانت یا ریاست کی ساکھ پر مبنی بنیاد پہ استوار ہے۔ یعنی اب اربوں ڈالرز ریاست کی ضمانت ہی پر بینکوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ تاہم، دُنیا کو گلوبل ولیج بنانے میں حکومتی پالیسیز سے زیادہ ٹیکنالوجی نے کردار ادا کیا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ حکومتیں ٹیکنالوجی کی ترقّی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیز اور قواعد و ضوابط بناتی رہیں اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ پلاسٹک سے بنا چند انچز کا کریڈٹ کارڈ کروڑوں، اربوں کے کاروبار کا ضامن بن گیا۔ اس سلسلے میں عالمی مالیاتی ادروں نے اہم ترین کردار ادا کیا، لیکن پاکستان جیسے ممالک کے عوام کو اس بات کاذرا بھی ادراک نہیں، کیوں کہ ہمارے ہاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو صرف قرضے اور مالیاتی احکامات دینے والے اداروں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ان پر سیاسی رہنما پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مُلک میں ان اداروں کے مختلف ممالک کے مالیاتی نظام بدلنے میں کردار پر کوئی بحث مباحثہ نہیں ہوتا۔ حالاں کہ ایک زمانے میں ایشیا کے ترقّی پزیر ممالک، چین، جنوبی کوریا، سنگاپور اور ملائیشیا نے ان عالمی اداروں کی منشا کے مطابق اپنی اقتصادی پالیسیز تشکیل دیں اور آج وہ ہمارے لیے ترقّی کا عملی نمونہ بن چُکے ہیں۔ نہ جانے وہ وقت کب آئے گا کہ جب ہم ان سے سبق حاصل کریں گے۔ 

اب دُنیا ڈیجیٹلائزیشن کے دَور میں داخل ہو چُکی ہے اور انٹرنیٹ نے آن لائن سروسز فراہم کر دی ہیں۔ اب کرنسی نوٹ کی بہ جائے کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈاستعمال ہو رہا ہے اور ایک کارڈ سے لاکھوں کی ادائیگی ممکن ہے۔ گرچہ ہمارے مُلک میں ابھی تک کیش کا رواج ہے، لیکن ترقّی یافتہ بلکہ ترقّی پزیر ممالک میں بھی لین دین کے لیے یہی کارڈز استعمال ہو رہے ہیں، جنہیں ’’پلاسٹک کرنسی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقّی کی بہ دولت بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، لہٰذا اب کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی کا ذکر عام ہے۔ آج انٹرنیٹ سے جُڑا ایک چھوٹا سا اسمارٹ فون ،افراد اور اداروں کے درمیان کمرشل میٹنگ پوائنٹ بن چُکا ہے اور اس میں بھی روزانہ ہی جدّت آ تی جا رہی ہے، جو ہمیں ایک نئے مالیاتی نظام کی آمد سے مطلع کر رہی ہے۔ لہٰذا، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے بڑی اقتصادی طاقتیں نئے قوانین اور حدود متعیّن کرنے کے دَور سے گزر رہی ہیں۔ آج اسمارٹ فون اطلاعات کے ساتھ دیگر خدمات کی فراہمی کا بھی اہم ایک ذریعہ بن چُکا ہے، جن میں لین دین یا تجارت بھی شامل ہے۔ آج ’’ای پیسا‘‘ پاکستان کے گوشے گوشے میں پھیل چُکا ہے اور رقوم کی منتقلی کے عمل میں بینکوں کا کردار بہ تدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ اب گلی محلّوں کی دُکانوں سے ’’ڈیٹا‘‘ کی شکل میں رقوم ایک سے دوسری جگہ منتقل ہو رہی ہیں۔ یعنی یہ ڈیٹا ہی اب سونے کی شکل اختیار کر چُکا ہے اور اسی پر کاروبار کا دارومدار ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب نقد رقم کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیوں کہ اس وقت کئی ممالک میں شاپنگ سینٹرز اور چھوٹی چھوٹی دُکانوں پر بھی ’’ یہاںکرنسی نوٹ وصول نہیں کیے جاتے‘‘ لکھا نظر آتا ہے۔ نیز، بینکس میں جمع شدہ رقوم بھی اس نئی ڈیجیٹل کرنسی کی وجہ سے دبائو میں ہیں۔ اب ای کرنسی وجود میں آ چُکی ہے، جس کے نتیجے میں چین میں علی پے اور وی چیٹ، بھارت میں پے ٹی ایم ،جب کہ افریقی مُلک، کینیا تک میں ایم پیسا جیسے لین دین کے جدید ذرایع وجود میں آچُکے ہیں۔ یہ کرنسی ڈیجیٹل فنانس اور دَورِ جدید میں صارف اور تاجر کی خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے وجود میں لائی گئی ہے ۔ آج بِٹ کوائن، ایتھیریم اور رپل جیسی کرپٹو کرنسیز مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے بے چین ہیں اور یہ محفوظ اور جلد ادائیگی کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ گرچہ آج ہیکرز پرائیویسی اور سائبر سیکوریٹی کے لیے ایک چیلنج بن چُکے ہیں، لیکن ان پر قابو پانا ممکن ہے، کیوں کہ انٹرنیٹ کی نکیل حکومتوں اور مستحکم اداروں کے پاس ہے اور وہ اسے اپنی مرضی سے کنٹرول کر سکتے ہیں کہ ان کا مفاد اسی میں ہے۔ آج اسمارٹ فون اقتصادیات کی ایک نئی دُنیا آباد کر رہا ہے اور کرپٹو کرنسی اس کا ایک جُزو ہے۔

ماہرین اس توقّع کا اظہار کر رہے ہیں کہ کرپٹو کرنسی صارفین کے لیے مزید آسانیاں پیدا کرے گی اور چُوں کہ اسے سونے یا ہیرے جواہرات اور کرنسی نوٹ کی طرح کسی تجوری میں نہیں رکھا جائے گا، لہٰذا اس کے چوری ہونے یا لُٹنے کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ تاہم، اب مسئلہ یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کی معیشت میں ریاست کا کیا کردار ہو گا، کیوں کہ اس کرنسی کا انتظام و انصرام نجی اداروں کے پاس ہے۔ وہی صارف کے سرمائے کے ضامن ہوتے ہیں اور وہی اپنے نیٹ ورک کے ذریعے لین دین ممکن بناتے ہیں۔ ماہرین کا استدلال ہے کہ چُوں کہ یہ ادارے ٹیکنالوجی پر حد درجہ بھروسا کرتے ہیں، لہٰذا نِت نئی ٹیکنالوجی سے آگہی رکھنے والے صارفین کے لیے پریشائی کی کوئی بات نہیں۔ البتہ پاکستان جیسے پس ماندہ ممالک کے لیے کچھ مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کہ جہاں معیارِ تعلیم رو بۂ زوال ہے۔ تاہم، ہمارے مُلک کے ناخواندہ افراد میں جس تیزی سے اسمارٹ فونز کا استعمال بڑھ رہا ہے، وہ ایک حوصلہ افزا اَمر ہے اور یہ کرپٹو کرنسی کو اپنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی صرف نجی اداروں پر اعتماد کافی نہیں۔ ماہرین کے مطابق، کرپٹو کرنسی کے ذریعے لین دین کے عمل کو مرکزی بینکس کا پابند بنانا ضروری ہے۔ نیز، صارف کا اعتماد بڑھانے اور اسے ضمانت دینے کے لیے قوانین بھی لازماً بنانا ہوں گے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ گرچہ کاروبار اور تجارت خالصتاً نجی شعبہ ہے، لیکن اب آبادی اتنی بڑھ چُکی ہے اور سرمایہ اس قدر پھیل چُکا ہے کہ قوانین بنائے بغیرکوئی چارہ نہیں۔

بعض ماہرین کی رائے یہ ہے کہ مرکزی بینکس ہی ڈیجیٹل کرنسی جاری کریں اور کئی ممالک میں اس پہلو پر غور بھی شروع ہو چُکا ہے، جن میں چین، سویڈن، یوراگوئے اور کینیڈا وغیرہ شامل ہیں۔ مزید برآں، آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر موجود ایک پیرا گراف میں اندرونِ مُلک مرکزی بینک کے ذریعے ڈیجیٹل کرنسی کے اجرا کے فواید اور نقصانات پر بحث کی گئی ہے۔ اس ضمن میں آئی ایم ایف کی سربراہ، کرسٹیان لیگارڈ نے سنگاپور میں ہونے والی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ڈیجیٹل کرنسی کا اجرا ممکن ہے اور یہ بہت سے عوامی اہداف بھی پورے کر سکتی ہے۔ تاہم، اس اجرا کو ٹھوس شکل دینے سے قبل اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کا نہایت احتیاط سے جائزہ لینا اور صارفین کے تحفّظ، پرائیویسی اور مالیاتی نظام کے استحکام پر غور کرنا ضروری ہے، ورنہ پریشان کُن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاملہ بنیادی طور پر ٹیکنالوجی میں تبدیلی کا ہے۔ ہمیں تبدیلی کا خیر مقدم تو کرنا چاہیے، لیکن مالیاتی ٹیکنالوجی کی دُنیا میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کو محفوظ، شفّاف اور کارگر بھی بنانا چاہیے۔

تازہ ترین