اگرچہ کوئٹہ 1935کے زلزلے میں ہلاک ہونے والے چالیس ہزار لوگوں کا اجتماعی مقبرہ ہے مگر پھر بھی خوابوں کا شہر کہلاتا آرہا تھا۔اکیسویں صدی میں داخل ہواتودہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا۔گلی کوچےلاشیں اگلنے لگے۔نو سو سے زائد پولیس اہلکار شہید کر دئیے گئے۔کئی حکومتیں آئیں، کئی گئیں ۔خود کش جیکٹس چوکوں میں پھٹتی رہیں ۔لوگ مرتے رہے ۔وسیع پیمانے پر ٹارگٹ کلنگ ہوتی رہی ،کئی علاقوں میں پاکستانی پرچم لہرانا مشکل ہو گیا ۔باداموں اور چلغوزوں کی وادی ویران ہو گئی ۔ سیبوں جیسے چہروں پر شعاعوں کی مسکراہٹیں بین کردی گئیں۔خیر ہوافواجِ پاکستان کی جس نےاپنی جرات ،ہمت اور فراست سے خزاں زدہ کوئٹہ کو پھر بہار آفریں بنا دیا۔
مجھےقاسم خان سوری کی والدہ کی فاتحہ خوانی کےلئے کوئٹہ جانا تھا ۔پروگرام بنا رہا تھا کہ ایف سی بلوچستان کے آئی جی ندیم انجم کی طرف سے ایکسی لینس ایوارڈ کی تقریب میں بلا لیا گیا اور پھرہم کوئٹہ ایئرپورٹ پر اترے ، ایف سی کے افسران استقبال کےلئےموجود تھے ۔ پارکنگ میں ایک گاڑی کی کھڑکی پر’’چھوٹی چڑیا ‘ بھی بیٹھی تھی ۔ہم سرکاری گاڑیاں چھوڑ کرنوجوان صحافی بایزید خان کی گاڑی میں بیٹھ گئے جو پورے بلوچستان میں ’’چھوٹی چڑیا ‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔سیدھےقاسم سوری کے گھر پہنچے۔ تنویر حسین ملک ا نتظار میں گیٹ پر کھڑا تھا۔اندر گئے ،فاتحہ خوانی کی ،اظہار افسوس کیا ، مگر ماں کے مرنے کا دکھ کون بٹا سکتا ہے ۔والدہ کے ساتھ قاسم سوری کوبے پناہ محبت تھی ۔والد تو بہت پہلے وفات پاگئے تھے ساری تربیت والدہ نےکی تھی افسوس کہ قومی اسمبلی کےاسپیکر کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ماں اچھی طرح بیٹے کو دیکھ بھی نہیں سکی تھی۔وہاں سے ایف سی لاج میں آ گئے ۔ یہ شہر کے بیچ ایک بہت ہی خوبصورت ریسٹ ہائوس ہےمگر سیکورٹی کو دیکھ کر میں پریشان ہوگیا ۔بیس پچیس فٹ کے فاصلے پر دو چیک پوسٹیں تھیں۔جب تک یقین نہیں کر لیا کہ آئی جی کے ہم ہی مہمان ہیں ،ہمیں اندر نہیں جانے دیاگیا۔یعنی ابھی تک دیواروں پر خوف تحریر ہے۔تھوڑاآرام کیا اور چھوٹی چڑیا کے ساتھ نکل پڑا ،شہر کا چکر لگایا ، نیٹو مارکیٹ کا اچھی طرح جائزہ لیا،وہاں وہ تمام چیزیں بک رہی تھیں جو نیٹو کے فوجیوں کے پاس ہوتی ہیں مگرچھوٹی چڑیا نے خبر دی کہ وہ زمانے گئے جب یہاں سے سچ مچ نیٹو کا مال ملتا تھا۔اب یہاں نوے فیصدچیزیں چین کی ہوتی ہیں ، لوگ نیٹو کی چیزیں سمجھ کر بھاری قیمت پر خرید کرلے جاتے ہیں ۔دس فیصداصلی چیزیں اب بھی مل جاتی ہیں ،وہ افغانی آکر بیچتے ہیں ۔افغان طالبان بھی اور افغان فوجی بھی مگر چمن کے بارڈر سے جاری یہ آمدو رفت بھی اب ختم ہونے والی ہے ۔ تقریباً بارہ سو کلو میٹر لمبی سرحد پر بارڈ رلگانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔کور کمانڈر جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ بلوچستان میں روزانہ تین کلو میٹر باڑ لگائی جارہی ہے ۔دوسال میں پاک افغان بارڈر مکمل طور پر سیل ہوجائے گی ۔ان کی رہائش گاہ پر اُن کے ساتھ بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی ۔رات کا کھانا وہیں کھایا۔آئی جی بلوچستان محسن بٹ نے بھی ایک رات کھانے پر بلایا تھا ، یہ وہی کوٹھی تھی جسے کچھ عر صہ پہلے دہشت گردوں نے تباہ کر دیا تھا۔وہاں حسین حبیب امتیازڈی آئی جی ہیڈکوارٹرزبھی موجود تھے ۔اُن کی گفتگو بڑی متاثر کن تھی ۔بلوچستان کے امن میں پولیس کا کردار بہت ہی اہم رہا ہے۔ وہاں کے امن کےلئے پولیس کو بہت زیادہ قربانیاں دینا پڑی ہیں ۔ابھی چند روز پہلے سابق ڈی آئی جی نعیم اللہ کاکڑ کوئٹہ میں شہید کر دئیے گئے ۔کوئٹہ جہاں دہشت گردی اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی وہاں اب دوچار فیصد رہ گئی ہے ۔ بے شک اس میں ایف سی بلوچستان کا بھی بڑا اہم کردار ہے ۔ جنرل ندیم انجم مبارک باد کے مستحق ہیں ۔مگرا ب ایف سی بتدریج اپنے کام پولیس کے حوالے کرتی جارہی ہے ۔کوئٹہ شہر کی ایف سی چیک پوسٹیں رفتہ رفتہ ختم کی جارہی ہیں ان کی جگہ پولیس لینے والی ہے ۔اس سلسلے میں بلوچستان کی نئی حکومت بھی ستائش کے قابل ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمہ کےلئے پوری طرح کوشش کر رہی ہے ۔نظا م بہتر سے بہتر بنایا جارہا ہے ۔اب پورے بلوچستان میں کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہاں حکومتی رٹ موجود نہیں ،کچھ عرصہ پہلے کوئٹہ شہر سے باہر نکلنا بھی مشکل ہوجاتا تھا ۔محسن بٹ سے پہلی ملاقات ایف سی ہیڈ کوارٹر میں ایکسی لینس ایوارڈ کی تقریب میں ہوئی جہاں انہوں نے جنرل عاصم باجوہ کورکمانڈر کوئٹہ کے ساتھ فوجی افسران میں اعزازات تقسیم کئے تھے ۔
صبح ہمارے لئے انہوں نے پریزنٹیشن کا بندوبست کیا ۔حیرت انگیز کہانیاں سننے کو ملیں ، قربانیوں کی داستانیں سنیں ۔ایک ڈی ایس پی نذر خان سے واقعات سنے ۔مستونگ کاواقعہ عجیب و غریب تھا۔اس میں ایس ایس جی کے پانچ کمانڈو شہید ہوئے اور 26 زخمی ہوئے ۔یہ چالیس کمانڈوز انٹیلی جنس کی رپورٹ پر گئے تھے کہ یہاں دہشت گردوں کا کیمپ تھا۔صبح پانچ بجے آپریشن شروع کیا گیا مگر دو بجے پولیس بھی پہنچ گئی ۔انہیں روکا گیا کہ ہیلی کاپٹر جب تک نہیں پہنچتا تو اس وقت کارروائی شروع نہیں کی جائے مگرنذر خان نے کہا کہ رات ہونے سے پہلے اگر یہ آپریشن مکمل نہ کیا گیا تو دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر نذر خان نے آر مڈ گاڑی سے دیوار گرائی تو اندر انہوں نے خندقیں کھود کر اس میں پانی بھرا ہوا تھا ۔ اور دہشت گرد اتنے زبردست نشانہ باز تھے کہ آر مڈگاڑی کے وہ سوراخ جس میں سے فائر کیا جاتا ہے دہشت گردوں نےاسی میں سے آرمڈ گاڑی کے اندر فائر کئے جس میں خود نذرخان اور اے ایس آئی خادم حسین زخمی ہوئے مگر انہوں نے زخمی حالت میں آپریشن جاری رکھا اور اُن تین دہشت گردوں کو اپنے انجام تک پہنچایا جنہوں نے افغانستان سے ایسی ٹریننگ حاصل کی ہوئی تھی کہ ایس ایس جی کے چالیس جوان اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔
ابھی ایک مہینے پہلے کی بات ہے کہ کوئٹہ سے تیرہ میل کے فاصلےپر ایک مکان میں اسلحہ کی مخبری ہوئی جب پولیس پہنچی تو کچھ نہیں ملا ۔بڑی تلاش کے بعد کھدائی کرائی گئی اور انتہائی گہرائی سے اتنا اسلحہ برآمد ہوا جو ایک بریگیڈ کےلیےبھی کافی تھا ۔زمین کی گہرائی میں اسلحہ کا ایک پورا ڈپو موجود تھااس میں اینٹی ایئر کرافٹ گنیں بھی تھیں ، امریکن ٹینک شکن میزائل بھی ۔ سینکڑوں کلاشنکوفیں برآمد ہوئیں ۔راکٹ لانچر ملے ۔بڑی تعداد میں ان کے گولے ملے ۔لانگ ریچ وائرلیس سیٹ ملے ،بارود کی بے شمار بوریاں تھیں ۔پتہ نہیں کیا کچھ تھا۔
خیر بخش مری کے بیٹے گزین مری سے بھی میں دو مرتبہ ملا۔وہ طویل عرصہ کی جلاوطنی کے بعد واپس آیا ہے۔توقع کے برعکس انتہائی کٹر پاکستانی نکلا۔اس سے ناراض بلوچوں کے مسائل سمجھنے کا موقع ملا۔پتہ چلا زیادہ تر ناراض بلوچ انڈیا کے شدید مخالف ہیں ۔وہ آزاد بلوچستان نہیں صرف اپنے حقوق مانگتے ہیں ۔ایک ترقی یافتہ بلوچستان کے خواب دیکھتے ہیں ۔