• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی کی لہر نے ایک بار پھر وطن عزیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ چار سال قبل دہشت گردی کے خلاف شروع ہونیوالے ملک گیر اور غیر معمولی آپریشن کے بعد بھی دہشت گردوں کا مکمل صفایا نہیں ہو سکا ہے اور وہ آج بھی اپنی مذموم کارروائیاں کر رہے ہیں ۔ اس صورتحال کا ازسر نو جائزہ لینے اور نئی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات ہو رہے ہیں ۔ سندھ خصوصاً کراچی میں کافی عرصے سے حالات قابو میں تھے لیکن گزشتہ جمعہ کو کراچی کے پوش علاقے کلفٹن میں واقع چین کے قونصل خانے پر دہشت گردوں کے حملے سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ سندھ سمیت پورا ملک دہشت گردی کے خطرات سے دوچار ہے ۔ چین کے قونصل خانے کے واقعہ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت جوابی کارروائی سے تین دہشت گرد مارے گئے اور وہ قونصل خانے کے اندر نہیں جا سکے لیکن اس واقعہ میں 2 پولیس اہلکار اور 2 شہری شہید ہو گئے جبکہ متعدد افراد زخمی ہیں ۔ اس سے قبل کراچی کے علاقے قائد آباد میں بم دھماکا ہوا ، جس میں 2 شہری شہید اور متعدد زخمی ہوئے تھے ۔ جمعہ کے روز ہی اورکزئی ایجنسی کے علاقے کلایا بازار میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکا ہوا ، جس میں 30 سے زائد افراد شہید اور 40 سے زائد زخمی ہوئے ۔ دہشت گردی کے اس طرح کے واقعات کے درمیانی وقفوں میں آپریشن کی وجہ سے جو اضافہ ہوا تھا ، اب یہ درمیانی وقفے سے کم ہو گئے ۔

آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے ۔ 16 دسمبر 2014 ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والی دہشت گردی کے ہولناک واقعہ نے پوری پاکستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اس کے بعد دہشت گردوں کے خلاف قومی اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان وضع کیا گیا تھا اور جدید تاریخ کا سب سے بڑا کثیر الجہتی آپریشن شروع کیا گیا تھا ۔ 16دسمبر 2014ء کے واقعہ میں معصوم بچوں کی شہادت نے پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد کر دیا تھا ۔ اس طرح آپریشن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قوم کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ بھرپور قومی جذبے کے ساتھ یہ آپریشن آج بھی جاری ہے ۔ اس آپریشن میں بڑی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں ۔ نہ صرف دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم ہوئیں بلکہ دہشت گردی کے نیٹ ورک بھی توڑے گئے ۔ اس کے باوجود دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ۔ بحیثیت قوم یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان سمیت پوری قومی سیاسی قیادت اس بات پر متفق ہے کہ کراچی کے قونصل خانے پر حملہ پاک چین معاشی اور اسٹرٹیجک تعاون کے خلاف سازش ہے۔ خصوصاً پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے ۔ قومی سیاسی قیادت کی یہ بات درست ہے لیکن اس حقیقت کا صرف ادراک کر لینا کافی نہیں ہے ۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ایک بار پھر پوری قومی سیاسی اور عسکری قیادت کو مل بیٹھ کر صورتحال کا جائزہ لینا ہو گا تاکہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے مزید موثر حکمت عملی وضع کی جا سکے ۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے موجودہ صورت حال کو بین السطور بہتر انداز میں بیان کر دیا ہے ۔ اگلے روز جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ’’ ہائبرڈ وار ‘‘ کا سامنا ہے ۔ پروپیگنڈے کے ذریعہ صورت حال کا رخ مذہبی ، فرقہ ورانہ اور سماجی بغاوت کی طرف ہو رہا ہے۔ لہٰذا اس معاملے پر مشترکہ قومی جواب کی ضرورت ہے ۔ ہمارے عوام خصوصاً نوجوانوں کو منفی اور جارحانہ پروپیگنڈے سے آگاہ رہنا ہو گا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب ہمیں آگے بڑھنا ہے اور ترقی کرنی ہے ۔ بے بہا قربانیوں کے بعد ہمیں اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے ۔ پاک فوج کے سربراہ کا تجزیہ بالکل درست ہے ۔ اس ’’ ہائبرڈ وار ‘‘ کی صورت حال میں ہمیں ترقی کا جو موقع میسر آیا ہے ، وہ تاریخ میں کبھی کبھی کسی قوم کو میسر آتا ہے ۔ بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات میں پاکستان نئی صف بندیوں میں اپنی پوزیشن لے رہا ہے ۔ یہ بات کچھ طاقتوں کو پسند نہیں آئے گی کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ اس خطے کا انتہائی اسٹرٹیجک اہمیت رکھنے والا ملک پاکستان ان کے کیمپ سے نکل جائے اور اس مرحلے پر خطے میں ان طاقتوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑے یا ان کا اثرو رسوخ ختم ہو جائے ۔

پاکستان کو اب تک دہشت گردی ، بدامنی اور عدم استحکام کے جس عذاب کا سامنا رہا ، وہ پاکستان کی عالمی طاقتوں کی پالیسیوں کی سزا بھگت رہا ہے ۔ گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان میں بہت بربادی ہوئی ۔ یہاں منصوبہ بندی کے تحت ان چار دہائیوں سے دہشت گردی جاری ہے ۔ مگر اس عرصے میں پاکستانی سماج میں دہشت گردی کے پنپنے کیلئے زمین موجود نہیں تھی ۔ کسی بھی جگہ لوگوں کی دہشت گردوں کو نہ حمایت حاصل تھی اور نہ ہی لوگوں نے دہشت گردوں کو پناہ دی ۔ لیکن اب صورت حال بہت مختلف ہے ۔ ایک طرف ’’ پروپیگنڈا وار ‘‘ ہے اور دوسری طرف غربت ، مہنگائی ، کرپشن اور خراب حکمرانی کی وجہ سے لوگوں میں ہیجان بڑھتا جا رہا ہے۔ یہی بات بہت زیادہ تشویش ناک ہے ۔ یہ ہیجان بغاوت یا انتشار میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔ ہمیں نہ صرف پروپیگنڈا وار میں قوم کو ایک بیانیہ پر لانا ہو گا بلکہ غربت اور مہنگائی میں اضافے کو فوری طور پر روکنا ہے ۔ کرپشن کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ طرزِ حکمرانی کو بہتر بنانا ہے ۔ اس ہیجان کو اطمینان میں تبدیل کرنا ہے ۔ اس کے بغیر دہشت گردی کیخلاف ہتھیاروں کی جنگ میں کامیابی بہت مشکل ہو گی ۔ اس قدر کڑے آپریشن کے بعد دہشت گردی کی کارروائیاں ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین