عائشہ فرقان
’’کتاب انسان بہترین دوست ہوتی ہے‘‘یہ مقولہ ہم نے بارہا سنا ہے، لیکن موجودہ دور میں جیسے جیسے نوجوان دن بہ دن جدید ٹیکنالوجی سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں، کتب دوستی دم توڑتی جا رہی ہے۔کتابوں کی جگہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن معلومات کا فوری ذریعہ بن چکے ہیں۔،تفریح کے جدید ذرائع کی موجودگی میں کتب بینی صرف لائبریریوں یا چند اہل ذوق تک محدود ہو گئی ہے، جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ خاص طور پہ نوجوان نسل اور بچوں میں کتب بینی سے لا تعلقی اور غیر سنجیدہ رویہ پایا جاتا ہے ،اکثر خیال آتا ہے کہ کیا نسل نووقت کی کمی کے باعث اس لا تعلقی کا شکارہے یا کتابوں سے دوری بھی اقدار سے دوری کی طرح ہمارا رویہ بنتا جا رہا ہے،آج کل بک شاپس یا لائبریریوں میںنہیں بلکہ برانڈڈ کپروں کی دکانوں میں رش دیکھنے میں آتا ہے۔ماضی میں کتاب پڑھنے والوں کے ذوق کا یہ عالم تھا کہ رات کو بنا مطالعہ کیے نیند نہیں آتی تھی اور آج کے نوجوان نصابی کتب تک کھولنے کی زحمت نہیں کرتے۔اب تو حال یہ ہے کہ طلبہ کتاب خریدنے یا لائبریری جانے تک کی تکلیف نہیں کرتے۔یہاں تک کہ نصاب کی کتابوں کےبہ جائے نوٹس پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے۔ علم کی روشنی کو جب تک سماج میں پھیلا یا ہی نہیں جائے گا، جہالت کے اندھیرے کیسےختم ہوں گے۔کتاب کو انسان کا سب سے اچھا دوست قرار دیا جاتا ہے،مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ خود اس دوست سے دشمنی کی جارہی ہے۔کسی پڑھے لکھے شخص سے پوچھیں کہ اس نے آخری کتاب کب خریدی تھی یا اس نے آخری کتاب کب پڑھی تھی۔کچھ نوجوان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وقت کی کمی کے باعث ہم مطالعہ نہیں کر پاتے،اتنے کام جو کرنے پڑتے ہیں ، کالج، یونیورسٹی، کوچنگ سینٹر یا دفترکی مصروفیات میں الجھے رہتے ہیں، جب کہ کچھ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ کتابیں مہنگی بہت ہیں۔زندگی بہت فاسٹ ہوگئی ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم کسی چیز میں خود کفیل ہیں تو وہ وقت ہی ہے۔ہم وقت کی دولت سے مالامال ہیں اور اتنے ہی سخی کہ اس قیمتی چیز کو لٹاتے پھرتے ہیں۔گھنٹوں انٹرنیٹ، موبائل فون اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر برباد کرنے کے بعد بھی وقت کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں۔دنیا کی ترقی یافتہ اور مصروف ترین اقوام نے ابھی تک کتابوں سے رشتہ نہیں توڑا، بس اسٹاپ،ریل اسٹیشن، ہوائی اڈوں پر بک اسٹالز لگے ہوتے ہیں جہاں کتابوں کے شیدائی مطالعے میں مصروف نظر آتے ہیں۔اس بات کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ ہم یہ بحث کریں کہ کتب بینی کیااتنی ضروری ہے ،کتاب تو سماج میں نئی سوچ کو لے کر آتی ہے۔ہم ہرفورم پر تبدیلی کی بات کرتے ہیں مگر تبدیلی کیسے آئے گی جب نوجوان شعور سے عاری ہوں گے۔مصیبت یہ ہے کہ شعور تو علم کا محتاج ہوتا اور علم کتاب میںپنہا ہے،مگر شعور کی جستجو کسے ہے۔ہم تو بس مادہ پرستی کی بھیڑ میں ایک دوسرے کوپچھاڑ کر،کہنیاں مار مار کرآگے بڑھنا چاہتے ہیںسب سے آگے۔مطالعے کی روایت اخلاقی، تہذیبی، معاشی ،معاشرتی، ثقافتی، نفسیاتی،سائنسی اور دیگر تمام علوم و فنونِ لطیفہ کو سنوار نے کی خدمات انجام دیتی ہیں۔کتب سے ذہن کی آبیاری ہو تی ہے، یہ معاشرے کو پروان چڑھانےمیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔یہ بہترین تہذیب کی موجد اورذہن کے ارتقاء کا موثر ذریعہ ہے۔کوئی بھی ترقی کتب بینی بغیر ناممکن ہے۔زندگی میں ہر لمحہ معاون و مددگار رہتی ہیں۔کتابوں نے ہر دور میں مثبت و منفی کردار ادا کیے ہیں،تمام اقوام و تہذیبیں کسی نہ کسی کتاب کے تابع رہی ہیں،کسی بھی قوم ، ملک وملت کی تہذیب کا نکتہ نظر متعین کرنے میں اہم خدمات انجام دیتی ہیں۔کتابیں کسی بھی قوم کا ورثہ ہوتی ہیں،یہ نسل نو کونئے خیالات سے روشناس کرواتی ہیں، دوسروں کے فہم و ادراک کوسمجھنے میں مدد گار ہوتی ہیں۔ کتابوں سے ہی طاقت ورر معاشرہ بنتا ہے،خواندہ معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتی ہیں ۔کتابوں میں علوم وفنون کےلازوال خزانے ہیں، بلا امتیاز رنگ و نسل ، مذہب و ملت ہر انسان کی زندگی کے نشیب و فراز میں ساتھ دیتی ہیں۔
آج کل جدید تقاضوں کے پیش نظر انٹرنیٹ پر بھی کتابیں موجود ہوتی ہیں، جو مطالعے کو فروغ دینے کا انتہائی موثر ذریعہ ہیں،آن لائن میسر کتابوں کو ای لائبریری کہا جاتا ہے، جہاں ہر موضوع پر بآسانی کتابیں مل جاتی ہیں۔ان وسائل سے بہت کم نوجوان ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں، کیوں کہ ان کا تو زیادہ تر وقت سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ہی گزر جاتا ہے۔مگر مہذب معاشرے کی نسل نو میں ای لائبریری اور ای لرننگ بہت تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔کتب بینی کی عادت کو نسل نو میں پروان چڑھانے کے لیے جہاں اساتذہ کو محنت کرنے کی ضرورت ہے ، وہیں والدین کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ ابتداہی سے بچوں میں مطالعے کی عادت پروان چڑھائیں، تاکہ بڑے ہوکر یہ عادت پختگی اختیار کر جائے۔