• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نسل نو کی رگوں میں سرائیت کرتا میٹھی پڑیا میں ’’سلوپوئزن‘‘

پروفیسر شاداب صدیقی، حیدرآباد

کسی بھی قوم یا ملک کی بنیاد اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے، اس ملک کو بدلنے یا آگے لے کرجانے میں نسل نو بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔اگر کسی ملک کی بنیاد کو کھوکھلا کرنا ہو، تو اس کے نوجوانوںکو منشیات کا عادی بناکر اسے بآسانی کمزور کیا جاسکتا ہے۔منشیات نے نہ صرف نسل نوکی زندگی مفلوج بناکررکھ دی ہے، بلکہ انہیں اپنے حلقہ احباب اور معاشرتی ذمے داریوں سے بھی دور کردیا ہے۔جس زندگی کی انہیں قدر کرنی چاہیے، جسے ملک و ملت کو سنوارنے ، اسے بام عروج پر پہنچانے میں صرف کرنا چاہیے، اسے نشے کا شکار ہو کر برباد کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت ، تو اس بات تک سے انجان ہے کہ چند لمحوں کے سکون کے لیے جس زہر قاتل کا استعمال وہ کر رہے ہیں، وہ ان کی زندگی اور مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ پہلے زمانے میں کم از کم اتنی تہذیب تو تھی کہ، نوجوان اپنے بڑوں، اساتذہ وغیرہ کے سامنے تمباکو نوشی تک کرنے سے گریز کرتے تھے لیکن آج تو حال یہ ہے کہ نوجوان کھلے عام تمباکو نوشی اور منشیات کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسے یہ کوئی معیوب عمل نہیں بلکہ قابل فخر کام ہے،ان کی اکثریت مغربی طور طریقوں سے متاثر ہوکر نشے کی عادی ہورہی ہے،جب کہ چند نوجوان محض دوستوں کے سامنے ’’کول‘‘ یا دلیر بننے کے لیے ان کے کہنے پر منشیات کا استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں، کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں، جواپنی پریشانیوں سے بھاگنے اور ذہنی سکون حاصل کرنےکے لیےاس زہر کو گلے لگالیتے ہیں۔منشیات میں مبتلا نوجوان معاشرے کے لیے ناسورہوتےہیں ، ہمارے ملک میں نشے کی لت میں مبتلا افراد میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔

نشے کا آغاز عام طور پر تفریحاً کیا جاتا ہے،پہلے پہل دوستوں کے ساتھ مل کر یا کسی پارٹی وغیرہ میں کرتے ہیں،پھر رفتہ رفتہ یہ شوق ،عادت اور پھر نہ ختم ہونے والی ضرورت بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوانوں کا جسم تیزی سے نشےکا عادی ہوجاتا ہے،جس کے بعد مختلف قسم کے نشوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، یہ لت اتنی شدت اختیار کر لیتی ہے کہ نشئی ،منشیات کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے، غیراخلاقی وغیرقانونی سرگرمیوں تک میں ملوث ہوجاتے ہیں۔، کیوں کہ انہیںاپنے اردگرد کے حالات کا شعور نہیں ہوتا۔

نوجوان دوستو! ذرا سوچیے کہ آپ کے چند دن یا محض دوستوں کے کہنے میں آکر کیے گئے نشے کی خبر جب آپ کے والدین کو ملے گی، توان پر کیا گزرے گی؟اس کی لت ایسا روگ ہے ،جو لگتی ایک فرد کو ہے، مگر تباہ پورے خاندان کوکرتی ہے،جس سےخوشیاں اور سکون بربادہوجاتا ہے۔ منشیات کے عادی نوجوان زیادہ عرصے تک اپنے والدین سے یہ عادت نہیں چھپا پاتے، کیوں کہ اسے خریدنے کے لیے انہیں پیسوں کی ضرورت پڑتی ہےیا ان کی صحت رفتہ رفتہ خراب ہونے لگتی ہے، جو گھر والوں کو شک میں مبتلا کر دیتی ہے۔

ہمارے ملک کا اثاثہ 64 فیصد نوجوان آبادی ہے،جس کے کاندھوں پراپنا ہی نہیں ملک کے مستقبل کو سنوارنے کی ذمے داری بھی عائد ہے، لیکن نشے میں ڈوبی یہ قوت کیسے مستقبل روشن بنا سکے گی؟یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے ملک میں منشیات استعمال کرنے والےنوجوانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جس میںدن بہ د ن تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اکثریت 21 سال سے 30 سال کی ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ، منشیات فروشی اور نشہ آور چیزوں کی جانب تعلیم یافتہ نوجوان تیزی سے مائل ہو رہے ہیں، ایک اندازے کے مطابق تقریباً 70 فی صد طالب علم سگریٹ اور گٹکے کا استعمال کرتے ہیں۔اس سے بھی کہیںحیران کن،افسوس ناک بات یہ ہے کہ اکثر اسکول کےبچے بھی سگریٹ نوشی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر نوجوان دوستوں پر سبقت لے جانے یا ان کے سامنے اپنا رعب و دبدبہ قائم کرنے کے لیے تمباکو نوشی، گٹکا مین پوری اور دیگر چیزوں کا استعمال کرتے ہیں، جو وقت کے ساتھ ان کی عادت اورپھر ضرورت بن جاتی ہے، جس کا انجام سوائے تاریکی کے اور کچھ نہیں ۔ یقیناً نوجوان نسل اس بات سے ناواقف ہے کہ، تمباکونوشی ، نشے کی بنیاد بنتی ہے۔ کیا فائدہ ایسے عارضی سکون کا جس سے زندگی بھر کی تکلیف مقدر بن جائے۔تحقیق کے مطابق منشیات کے عادی 60 فی صد سے زائد نوجوان تعلیم یافتہ ہیں۔ اگر غور کیا جائے، تویہ ایک انتہائی تشویش ناک بات ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ فیشن کے دھوکے میں اپنی ہی بربادی کا سامان کر رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ ان کےاردگرد کا ماحول اوردوست نما دشمن ہیں۔جہاں تعلیمی ادارے اتنی بھاری بھر کم فیسیں وصول کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ یہ بھی نظرمیں رکھیں کہ ان کے ادارے میں زیر تعلیم نوجوان کن سرگرمیوں میں مشغول ہیں ،تعلیمی ادارے تو نسل نوکی تربیت کرنے اورذہنی شعور بلند کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، لیکن جب ان اداروں میں نوجوان کو منشیات استعمال کرنے لگیںتو سمجھ جانا چاہیے کہ قوم کا سرمایہ خطرے میں ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی لڑکیوں میں شیشہ اور دیگر منشیات کا استعمال فیشن کے طور پر اپنا یاجارہا ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے ،کہ لڑکیاں زیادہ تر نشہ ذہنی دبائو، ڈپریشن اور احساس کمتری کی وجہ سے کرتی ہیں۔ جب نشے کی عادت میں مبتلا نوجوانوں کو پیسے نہیں ملتے، تووہ اپنے مقصد کےحصول کے لیے منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں، اسٹریٹ کرائم میں اضافہ بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت نے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی تین بنیادی باتیں بتائی ہیں۔ وہ نشے میں اپنے آپ کو اچھا اور مطمئن محسوس کرتے ہیں ، اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرتے ہیں اور اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔قومیں اپنے کردار، گفتار، عادات سے مقبولیت پاتی ہیں والدین اور اساتذہ کوپرائمری سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے بچوں پر بطور خاص توجہ دینا ہوگی، کیوں کہ جو باتیں اس وقت ان کے ذہنوں میں بیٹھ جائیں گی وہ ہمیشہ ان کے دل و دماغ پر نقش ر ہیںگی۔ منشیات کے مسئلے سے لڑا جاسکتا ہے،اس میں تعلیم اور آگہی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور انہیں نشے جیسی لعنت سے بچانے کے لیے میدان عمل میں آئیں، تاکہ خاندان کسی بھی بڑی اذیت کا سامنا کرنے بچ جائیں۔سختی صرف اسکول ، کالج کے دنوں تک ہی نہیں بلکہ یونیورسٹی کی سطح پر بھی ضروری ہے۔سگریٹ نوشی، شیشہ اور دیگر منشیات کی برائیوں کی روک تھام کے لیے درسگاہوں کے سربراہوں، والدین اور سماجی تنظیموں کو مل کر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔طلباء و طالبات کو منشیات کے حوالے سے باضابطہ طور پر گائیڈ لائن دی جائے اور اس کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے ،جہاں نوجوانوں کو معاشرتی برائیوں سے دور رکھنا والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے، وہیںاہم ذمہ داری حکومت وقت کی بھی ہے، حکام منشیات فروشی کے رجحان کو روکنے کے لیے ہر ممکن وسائل بروئے کار لائیں۔ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ،نوجوانوں کے درمیان نشہ کے بڑھتےہوئے رجحان ،غیر اخلاقی دوستوںکا ساتھ، خاندانی دبائو ، ماں باپ کے جھگڑے ، انٹرنیٹ پر گھنٹوں وقت صرف کرنا اور خاندانی تضادات ہیں۔اس ضمن میں والدین اور اساتذہ کی ذمے داری ہے کہ نوجوانوں سے ان کے مسائل دریافت کریں ، ان کے لئے مسائل حل کریں، پیار و محبت سے سمجھایا اور منشیات کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔ایک انگریزی مقولہ ہے کہ ’’اگر تم نے دولت کھو دی تو کچھ نہ کھویا، اگرصحت کھو دی تو کسی حد تک کھویا، لیکن اگرکردار کھو دیا، تو سب کچھ کھو دیا‘‘۔ نشہ ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کے کردار پر سب سے پہلے اثر انداز ہوتا ہے اور اچھے سے اچھے انسان کو برائی کی طرف راغب کر دیتا ہے۔ نوجوان نسل ہی ہمارے مستقبل کا اثاثہ ہے۔بے روزگار یا ذہنی تناؤ کا شکار نوجوان ، کسی نہ کسی تعمیری سرگرمی میں مصروف رہنے کی کوشش کریں، مطالعہ کریں،اچھے دوستوںاور اساتذہ کے ساتھ وقت گزاریں ۔ کھیلوں میں دلچسپی لیں ،اقبال کے شاہین بنیں اور پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے کی ٹھانیں، مایوسی یا ناامیدی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، ان سے وقتی فرار حاصل کرنے کے لیے منشیات کا استعمال نہ کریں۔ منشیات میں مبتلا نوجوانوں کو پیار و محبت اور شفقت سے گھر لوٹنے کی دعوت دیں ۔برے کو برا کہہ کر اس کے حال پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ ہر وقت اصلاح اور برائیوں کی نشاندہی کرتےرہنا چاہیے، واپسی کے لیے دروازے ہمیشہ کھلے رکھیں اور کھلی بانہوں سے قوم کے معماروں کا استقبال کریں ۔

تازہ ترین