• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25 جولائی 2018 کو عام انتخابات کے ساتھ قسمت عمران خان کے ساتھ ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے بلکہ انہیں بجلی اور ایندھن کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے کے غیرمقبول فیصلوں پر بھی کوئی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ وفاق اور پنجاب دونوں جگہوں پر مضبوط اپوزیشن ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کو اس کے اول 100 دنوں میں کوئی چیلنج کرنے والا نہیں رہا۔ حکومت یا اپوزیشن دونوں میں دراڑیں پڑتی کیوں دکھائی دے رہی ہیں؟ بدھ کو 100 دنوں کی تکمیل پر وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت کا رخ طے کریں گے۔ اپوزیشن کے پاس اس موقع پر بظاہر کوئی جوابی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ بات ایسی ہے جو حکومت کے حق میں جاتی ہے۔ گزشتہ 100 دنوں میںحکومت خود اپوزیشن کے مقابلے میں میں بڑے جارحانہ اور مخالفانہ موڈ میں دکھائی دی۔ مولانا فضل الرحمٰن کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود اپوزیشن جماعتیں یکجا نہیں ہو سکیں۔ جے یو آئی (ف)کے سربراہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان سرد تعلقات کی برف پگھلانہ سکے۔ اب ان کی متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے کاوشوں کو بھی عوامی پذیرائی نہ مل سکی۔ اپوزیشن جماعتوں کے لئےآئنے والے 100 دن بھی بڑےاہم ہیں۔ آئندہ سہ ماہی میں کلیدی اپوزیشن رہنما ئوں کی قسمتوں کے فیصلے ہونے والے ہیں جن میں نواز وشہباز شریف، مریم، کیپٹن (ر) صفدر، اسحاق ڈار اور خواجہ سعد رفیق ایک طرف تو دوسری طرف آصف علی زرداری، فریال تالپور، شرجیل انعام میمن، ڈاکٹر عاصم حسین اور دیگر شامل ہیں۔ ایم کیو ایم کے کچھ اہم رہنما ئو ں کے خلاف مقدمات کے بھی فیصلے ہونے والے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے کچھ کلیدی رہنمائوں کے خلاف مقدمات کے آئندہ 100 دنوں میں فیصلے ہوں گے۔ اس پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ لہٰذا تحریک انصاف کی حکومت کے لئے سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اسے بعض معاملات میں شرمندگی کا بھی سامناکرنا پڑا۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ چیئرمین سینیٹ وزیراطلاعات فواد چوہدری کے ایوان بالا میں داخلے پرپابندی لگانے کے بعد حکومت کی ’’گڈ بک‘‘ میں نہیں رہے۔ وزیراعظم خود سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپنی باقاعدہ شرکت کو یقینی بنانے میں ناکام رہے۔ سپریم کورٹ نے پہلے ہی وفاقی وزیراعظم سواتی، فواد چوہدری اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو مختلف مقدمات میں طلب کر رکھا ہے۔ 100 دنوں میں اپنی سمت کا تعین کرنے میں ناکامی کا الزام خود حکومت کے اپنے سر جاتا ہے۔ جنونی کیفیت کا الزام میڈیا کو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان 100 دنوں میں خود میڈیا کو بڑی ابتلا کا سامنا ہے۔

تازہ ترین