اسلام آباد (نمائندہ جنگ) وزیر خزانہ اسحق ڈارنے واضح کیا کہ پاکستان کو چاہے کھربوں ڈالرز کی پیشکش بھی کی گئی تو ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے اور چاہے پاکستان پر کھربوں ڈالر کے قرضے بڑھ جائیں ایٹمی پروگرام رول بیک نہیں ہو گا، پروگرام بند کرنے کیلئے نہیں بنایا، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا ، پاکستان کی خاطر ہمیں سب کو ساتھ ملکر چلنا ہے معاشی استحکام برقرار رکھنے کیلئے ملکر دہشت گردی کا مقابلہ اور توانائی کے بحران کو حل کرنا ہوگا ۔قبائلی بے گھر خاندانوںکی بحالی آباد کاری اور آپریشن ضرب عضب کی تکمیل حکومت پاکستان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے ان دونوں معاملات پر مالیاتی وسائل کو کم نہ ہونے دیں گے۔بدھ کے روز ایوان بالا کے اجلاس میں ملک کی اقتصادی صورتحال اور سرکاری قرضوں کے حوالے سے پالیسی بیان دیتے ہوئےکہا کہ یاکستان پر غیر ملکی قرضہ کا بوجھ 68ارب ڈالر 50کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔پاکستان قرضوں کی وجہ سے ڈیفالٹ نہیں کر سکتا۔ ڈھائی سالوں میں ملکی و غیر ملکی قرضوں میں 4149ارب روپے کا اضافہ ہوا، زرمبادلہ کے ذخائر 20ارب23کروڑ ڈالر ہیں۔ پاکستان کی برآمدات کم ہو گئیں ہیں۔ آئی ایم ایف سے 5ارب 27کروڑڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ وزیر خزانہ نے سینیٹ کو آگاہ کیا کہ رواں مالی سال میں مالیاتی خسارہ 4.3فیصد متوقع ہے۔ رواں سال کے پہلے ماہ میں ترسیلات زر 11ارب 20کروڑ ڈالر ہیں سال کے آخر تک 20ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گی۔ برآمدات میں 6فیصد کمی ہے۔ مہنگائی کی شرح اضافہ 2.48فیصد ہے حدف 5.45تک برقرار رکھنا ہے ۔ تجارتی خسارہ 10ارب 97کروڑ 90لاکھ ڈالر ہے۔ گزشتہ سال کے پہلے ماہ میں یہ 10ارب 87کروڑ 40لاکھ ڈالر تھا ۔قرضے مصنوعات کی تیاری کے لیے 300ارب روپے حا صل کیے گئے 600ارب روپے کے زرعی قرضے جاری ہونگے۔ 247ارب روپے کے زرعی قرضے جاری ہو چکے ہیں۔ 238ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری ہو چکے ہیں۔ جی ڈی پی کا ہدف 5.5فیصد ہے اگلے دو سالوں میں اسے 7فیصد تک لے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قرضے پارلیمنٹ کے قانون کی حد میں ہیں۔مالیاتی خسارے کو 8.8 فیصد سے 4.3 فیصد پر لانا حکومت کی بڑی کامیابی ہے پاکستان نے معاشی ترقی شروع کر دی ہے۔شرح نمو میں اضافہ نہیں ہوا ۔ انھوں نے بتایا کہ رواں سال کے پہلے سات ماہ کے دوران ترسیلات زر میں چھ فی صد کا اضافہ ہوا ہے وزیر خزانہ نے کہاکہ سزائے موت کے قانون پرعمل درآمدکے باعث حکومت کو یہ خدشہ تھا کہ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو دیا جانے والا جی ایس پی پلس کا درجہ واپس نہ لیا جائے تاہم پاکستانی ٹیم کے دورہ یورپ کے موقع پر یورپین حکام کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ خدشہ بھی دور ہوگیا ہے۔ پاکستان سے جی ایس پی پلس کا درجہ واپس نہیں لیا جا رہا۔اور یورپی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی کیلئے مذید اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران تجارتی خسارہ 874 . 10 ارب ڈالر ہے جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوراان 979.10 ارب ڈالر تھاموجودہ حکومت کے تییس ماہ کے دوران بیرونی خسارے میں پانچ اعشاریہ تئیس فیصد اضافہ ہوا ہے آئی ایم ایف سے کل پانچ اعشاریہ ستائیس ارب ڈالر لئے گئے جن میں سے چار اعشاریہ چار ارب ڈالرمالیت کے گزشتہ حکومتوں کے قرضے ادا کئے گئے جبکہ حکومت کے پاس آٹھ سو چھپن ملین ڈالر آئے انہوں نے کہاکہ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دورا ن براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 9 ۔ 647 ملین ڈالر ہیں جو کہ گزشتہ سال کے ِ اسی عرصے کے دوران 6 ۔ 619 ملین ڈالر تھیں گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران صارفین کے لئے قیمتوں کے حساس اشارئیے میں 48 ۔ 2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ رواں مالی سال کے لئے مجموعی قومی پیداوار کا ہدف پانچ اعشاریہ پانچ فیصد ہے انہوں نے کہا کہ ٹاک شوز میں باتیں کرنے والے کس دنیا میں رہتے ہیں ،یہ ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہیں جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ایٹمی اثاثے کسی اور کے پاس چلے جائیں گے۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ ادوار میں لیے گئے تمام قرضے شیڈول کے مطابق ادا کیے۔کوئی قرضہ ری شیڈول نہیں کرایا ۔انھوں نے کہا کہ معیشت جب تک ٹھیک نہیں ہوگی پیداور نہیں بڑ ھ سکتی، تاہم ہمارا فوکس پیداوار پر ہے۔ پاکستان کی معیشت بہتر ہو رہی ہے۔210ارب ریفنڈ بزنس کمیونٹی کے دینے تھے تاہم ریفنڈ میں تیزی نہیں آئی50 لاکھ روپے کے ریفنڈ15 مارچ تک کلیئر کریں گے۔ صوبوں کا 1200سے 1700ارب روپے اضافہ کیا ہے، صوبوں کو بھی کچھ کرنا ہوگا۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہنڈی کے کاروبار بند ہونے سے ریزور بڑھے ہیں۔ تیل کی قیمتیں کمی ہوئی ہیں فائدہ بھی عوام کو دیں۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، ریلیف بھی دیا ہے۔اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر خزانہ نے محنت اور تفصیل کے ساتھ اپنا نظریہ معیشت پیش کیا۔ اتفاق سے ان کی اچھی تقاریر پہلے بھی سن چکے ہیں ہر دفعہ یہ سنتے ہیں، باتیں ٹھوس کرتے ہیں اس معاملے پر اور اعداد وشمار پر بحث کی ضرورت ہے۔ اعداد و شمار میں ابہام رکھا جاتا ہے۔ وزیر خزانہ کے بیان پر بحث ہونی چاہئے۔ چیئر مین سینٹ نے کہا کہ وزیر خزانہ کی تقریر کا تمام متن ارکان کو مہیا کردیاجائے،اگلے ہفتہ میں اس پربحث کرالیں گے۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ پاکستان ایک اکنامک سپرپاور بن گیا ہے، ہم ایک مقروض قوم نہیں رہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ وزیر خزانہ نے اعداد وشمار دے دئیے ہیں، اس پر بحث ضروری ہے۔ درآمدات گر رہی ہیں۔ ٹریڈ پر ایک جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ ٹریڈ پالیسی تاحال منظور نہیں کی جارہی۔ وزیراعظم کی ٹیبل پر منظوری کیلئے پڑی ہے، ہم کیسے توقع کریں کہ جو آپ نے کہا ہے وہ صحیح ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ جی ایٹ کی میٹنگ بھی ہوئی ہے۔ ایکسپو ر ٹ8.4 فیصد تھی اور 5فیصد کمی کی ہے۔ لانگ ٹرم فنانس پالیسی10.3 فیصد تھی۔5.3فیصد کمی کی ہے،13بلین ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ کو صحیح کہا ہے۔ ٹریڈ پالیسی فائنل سٹیج پر ہے اس میں بہتری کر رہے ہیں، دنیا کی معیشت میں فرق پڑا ہے، اس لئے ٹریڈ پالیسی میں بہتری لارہے ہیں جلد ہی اس پالیسی کو منظور کرالیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں گزشتہ سال 10فیصد اضافہ کیا گیا، صوبوں کے ترقیاتی پلان پر فوکس کیا ہے۔ وفاقی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر خیبر پختونخوا کیلے فنڈز کو بڑھایا۔ صوبوں کو چاہئے کہ جو رقم انہیں دی جاتی ہیں وہ ان پر خرچ کریں۔ گرین لائن کا منصوبہ سندھ کے عوام کیلئے ہے۔ وفاقی حکومت کو 35 فیصد ملتا ہے، اس میں تمام امور چلاتی ہے۔ فاٹا کیلئے 230ارب روپے کی گرانٹ دی ہے ۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ دلفریب تقریر سے ہم متاثر نہیں ہوتے۔ آج پاکستان کا غریب اور غریب ہو رہا ہے حقیقت میں کوئی جامع پروگرام فاٹا میں نہیں نظر آتا ۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ غریب علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ایف بی آر کوجب تک ٹھیک نہیں کریں گے، لوگ ٹیکس کلچر میں شامل نہیں ہوں گے۔