وہ آیا ، اس نے گایا اور زمانہ فتح کرگیا۔
کہا جاتا ہے کہ وہی آوازدلوں پر راج کرتی ہے جو سچے دل سے نکلتی ہے، جس آواز میں اپنے سُر کو پانے کی تمناہو، اپنے ساز کی تلاش ہو، وہی کائنات کا راز بن کر ہماری سماعتوں سے ٹکراتی ہے اور سیدھا دل میں اترجاتی ہے۔ ایسی ہی ایک آواز عاطف اسلم کی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی آواز دلوں کی دنیا میں ہلچل مچا دیتی ہے۔
کتنے ہی دل، ان کے ہونٹوں سے نکلنے والے گیتوں پر دھڑکتے ہیں،ان گیتوں میں ایک پیاس ہے، ایک تلاش ہے، ایک جستجو ہے، ایک کھوج ہے، ایسا لگتا ہے جیسے سارا سمندر ہی اس کے پاس ہے لیکن شاید ایک بوندپانی اس کی پیاس ہے اور اتنے بڑے سمندر میں اس بوند پانی کو تلاش کرنا،عاطف اسلم جیسے مسافروں کیلئے زادِ راہ ہے ۔
عاطف اسلم اگر آج سنگر نہ ہوتا تو بالی ووڈ میں اپنی آواز کا جادو جگانے کے بجائے کرکٹ گرائونڈ میں روہیت شرما یا ویرات کوہلی کو بائونسر ماررہا ہوتا۔ لیکن اس کی قسمت میں شہرت ہاتھ میں بال کے بجائے مائیک کے ذریعے لکھی ہوئی تھی۔ شاید بحیثیت ایک کرکٹر لوگ اس کے اتنے دیوانے نہ ہوتے جتنے بحیثیت سنگر اس کے دیوانے ہیں ۔
وزیر آباد، جو آلات ِ جراحّی یا کٹلری سیٹس کے حوالے سے جانا جاتا ہے مگر اب یہ عاطف اسلم کے حوالے سے بھی جانا جائے گاکیونکہ آ ج کاروکنگ اسٹار12مارچ1982ء کواسی شہر میں پیدا ہوا تھا۔ تعلیم حاصل کرنے کیلئے لاہور اور راولپنڈی کا رُخ کیا۔ PAFکالج لاہور میںFScکے دوران عاطف کے اندر میوزک کی چنگاری جلنے لگی اور جب بیچلر اِن کمپیوٹر سائنس کیلئے پنجاب انسٹیٹیوٹ آ ف کمپیوٹر سائنس گیا تو یہ چنگاری ایک شعلے میں تبدیل ہوگئی۔ عاطف کے بڑے بھائی کے پاس 8000سے زیادہ گانوں کا ذخیرہ تھا اور عاطف میوزک کے ان دریچوں میں بھٹکنے کے ساتھ ساتھ اپنے من میں پاکستانی ٹیم میں شامل ہونے کی جدوجہد میں لگا رہا۔ اسے شاید اس وقت تک سمجھ نہیں آئی تھی کہ اسے کس گلی جانا ہے اور کس گلی سے نکل کر اسے اپنی منزل نظر آجائے گی۔
پی اے ایف کالج میں اس کے ایک دوست نے بہت اصرار کیا کہ وہ یوم آزادی کے پروگرام میںگانا گائے اور جب عاطف نے وہاں گایا تو جیسے منظر پر چھاگیا۔ پھر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کمپیوٹر سائنس میں مقابلہ موسیقی ہوا تو اپنی شرمیلی عادت کی وجہ سے عاطف اس میں حصہ نہیں لینا چاہتا تھا۔لیکن آخری وقت پر اس کا نام مقابلے میں شامل ہوا اور پھر اسے جیتنے سے کوئی نہ روک سکا۔ یہی وہ دور تھا، جب عاطف نے اپنے آپ کو کھوجنا شروع کیا ۔ عاطف نے ہر سیمسٹر کا مقابلہ جیت لیا۔ پھر اس کی ملاقات ایک ہونہار گٹارسٹ گوہر ممتاز سے ہوئی اور دونوں نے مل کر کنسرٹ شروع کیے۔ میکال حسن کے اسٹوڈیو میں ان کی پہچان بننے والا گانا’عادت‘ تخلیق ہوا، پھر ان کا بینڈ’’جل‘‘ کے نام سے وجود میں آیا۔ لیکن پھرکچھ عرصے بعد عاطف نے اپنا راستہ الگ کرلیا۔ اپنی ساری کشتیا ں جلا نے کے بعد عاطف نے اپنا البم نکالنے کا فیصلہ کیا اور جل پری کے نام سے سولو البم کے ساتھ میوزک کی دنیا میں دھماکہ کردیا۔ اس کے گیت ’’ دل ہارے‘‘ پر لڑکیاں اپنا دل ہار گئیں۔
دوسری طرف اسی البم کے گیت عادت، وہ لمحے، اور دل ہارے گوہر کے البم ’جل‘ میں بھی شامل ہوئے اور اس طرح ایکجنگ کا آغاز ہوا۔ عاطف کے گیتوں کے ساتھ ساتھ اس سرد جنگ کے چرچے بھی لوگوں کی زبان پر تھے۔ تاہم موسیقی کے شائقین نے خود ہی عاطف کو اس جنگ میں فاتح قرار دے دیا ۔’’ وہ لمحے‘‘ کی گونج پڑوسی ملک میں گئی تو مہیش بھٹ نے اس گانے کو اپنی فلم ’’ زہر‘‘میں شامل کیا اور پھر عاطف کی زندگی میں وہ لمحے آ ہی گئے، جب وہ اپنی آواز کا جادو ہر جگہ جگانے لگا۔
6سے8مہینے تک یہ گیت یعنی’’وہ لمحے‘‘انڈیا کے ہر ایف ایم ریڈیو پر چلتا رہا۔ پھر اس کے ریمکس ورژن نے عاطف کو انڈین مارکیٹ میں Hotبنادیا۔ عاطف کے سائونڈ ٹریک ’عادت‘ کو تھوڑا سا تبدیل کرکے فلم Kalyugمیں ’جدا ہو کے بھی‘ کے لفظو ں کے ساتھ گایا گیا، جو ہندوستانی اور پاکستانی فضائوں میں گونجنے لگا۔مطلب کہ وہ انڈیا جاکے بھی ہم سے جدا نہیں ہوا۔
یہ بس ایک پل کی بات نہیں تھی، اب تو ہر پل عاطف کیلئے تھا۔ اسی لئے تو عاطف کو فلم ’بس ایک پل‘ کیلئے بلایا گیا کیونکہ عا طف کے گانے کے بن یہ فلم مکمل نہیں ہوگی اور پھر ہر کوئی ’’تیرے بن‘‘ گنگنانے لگا۔
عاطف کی آواز میں ایک اضطراب ہے، ایک بے چینی ہے اور اس کی آواز ہر حساس دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ عاطف اسلم کی آواز جب فضائوں میں گونجتی ہے تو آپ بھی اپنی آواز اس کی آواز میں ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔