اے آر رحمان کا پیدائشی نام اے ایس دلیپ کمار تھا۔ اب ان کا نام اللہ رکھا رحمان یعنی اے آر رحمان ہے۔ نام کی تبدیلی کے پیچھے بھی ایک داستان ہے۔ اے ایس دلیپ کمار بھارت کے شہر چنئی میں 6جنوری1967ء کو ایک غریب ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد آر کے شنکر کیرالا فلم انڈسٹری میں تامل اور دیگر زبان کی فلموں میں موسیقار تھے۔ دلیپ اس وقت 9سال کے تھے، جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی والدہ نے اپنے شوہر کے موسیقی کے آلات کو کرایہ پر دے کر گزر بسرکا سامان کیا۔ باپ کے انتقال کے بعد جب دلیپ کمار کی طبیعت خراب رہنے لگی تو ماں نے لوگوں کے کہنے پر ایک پیر کے مزار پر حاضری دی اور منت مانی، جس کے بعد دلیپ کی طبیعت ٹھیک ہوگئی۔ ان کی ماں کا عقیدہ پختہ ہو گیا اور وہ اپنے پورے گھرانے کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوگئیں، دلیپ کا نام اللہ رکھا رحمان رکھا گیا۔
گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اے آر رحمان نے کم عمری میں ہی کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ کی بورڈ پلیئر بنے، کچھ عرصہ بعد پیانو اور پھرگٹار بجانا بھی سیکھ لیا۔ اس دوران چنئی کے چند نوجوانوں کے ساتھ مل کر انہوں نے اپنا ایک مقامی بینڈ ’نمیسیس ایونیو‘ بنایا۔ رحمان کی زندگی کا سفر آسان نہیں تھا، گھر کی ذمہ داری بھی تھی اور ساتھ موسیقی سیکھنے کا جنون بھی۔ خوش قسمتی سے انہیں ایک تیلگو میوزک ڈائریکٹر کے ساتھ ورلڈ ٹور پر جانے کا موقع ملا۔ یہاں سے ان کا فن نکھرکردنیا کے سامنے آیا اور پھر انہیں آکسفورڈ کے ٹرینیٹی کالج کی اسکالر شپ مل گئی، جس نے اے آر رحمان کی موسیقی کی تشنگی کو پورا کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ انھوں نے موسیقی میں گریجویشن کیا۔
اے آر رحمان نے شروع میں ٹی وی پروگراموں اور اشتہارات کے لیے موسیقی دی۔ یہ ان کے لیے جدوجہد کا دور تھا۔ آخرکار 1992ء میں فلمساز منی رتنم نے ان کے ہنر کو پہچانا اور اپنی فلم ’روجا‘ میں موسیقی دینے کا موقع فراہم کیا۔ اے آر رحمان کی موسیقی نے پہلی ہی فلم میں وہ جادو دکھایا کہ انہیں اپنی اس فلم کے لیے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بالی وڈ فلموں کی لائن لگ گئی۔ ان کی فلموں کے گیتوں نے بھارت سمیت دنیا بھر میں ہنگامہ مچا دیا۔ گلزار صاحب کے ساتھ ان کی جوڑی جم گئی۔
رنگیلا، تال، سودیس، رنگ دے بسنتی، گرو اور جودھا اکبر وہ فلمیں ہیں، جن کی موسیقی نے اے آر رحمان کو بلندیوں پر پہنچا دیا۔ انہوں نے صرف بالی ووڈ میں موسیقی دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہالی ووڈ فلم ’لارڈز آف دی رنگز‘ اور پھر براڈ وے اسٹیج ڈرامہ ’بومبے ڈریمز‘ کا میوزک دیا۔ 2005ءمیں جدید آلات سے لیس اسٹوڈیو بنایا، جو اس وقت ایشیا کا سب سے بڑا سٹوڈیو مانا جاتا ہے۔ اے آر رحمان کی موسیقی میں مغربی دھن، کلاسیکی میوزک اور صوفی سنگیت سب کچھ موجود ہے۔
وہ صوفی ازم پر یقین رکھتے ہیں، پیروں اور ولیوں کے مزاروں پر حاضری دینا ان کی زندگی کا معمول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی موسیقی میں روحانیت ’ولیوں‘ کی دین ہے۔ پاکستانی لیجنڈ موسیقار اور قوال نصرت فتح علی خان کے بہت بڑے مداح ہیں اور انہیں اپنا حقیقی گرو مانتے ہیں۔
رحمان کی موسیقی کسی ایوارڈ کی محتاج نہیں لیکن انہیں جتنے ایوارڈز ملے ہیں، وہ شاید کسی بھی ہندوستانی موسیقار کو نہیں مل سکے۔ اے آر رحمان کو بافٹا،گولڈن گلوب، سیٹلائٹ اور کریٹکس چوائس ایوارڈز مل چکے ہیں جبکہ ہندوستان میں انہیں4نیشنل ایوارڈز اور 7فلم فیئر ایوارڈز ملے ہیں۔ تامل فلموں میں بھی اے آر رحمان کی موسیقی بہت مقبول ہے اور اس انڈسٹری نے انہیں ایک دو نہیں بلکہ12ایوارڈز سے نوازا ہے۔ 2009ء میں ان کو فلم ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ کے لیے موسیقی دینے پر اکیڈیمی ایوارڈ (آسکر) سے نوازا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی موسیقار ہیں۔ کئی ممالک کی یونیورسٹیاں انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند بھی دے چکی ہیں۔
آسکر اور گریمی ایوارڈیافتہ اے آر رحمان اپنے مذہبی عقیدے کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے انہیں اپنے کیریئر کی تشکیل کرنے اور اسے متعارف کروانے میں مدد ملی ہے۔ اے آر رحمان نے1989ء میں23سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ اللہ رکھا رحمان کہتے ہیں کہ ان کے لیے اسلام کا مطلب سادہ طریقے سے زندگی جینا اور انسانیت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک سمندر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ زندگی میں ایسے تکلیف دہ لمحات سے بھی گزرے ہیں کہ جب وہ ہر روز خودکشی کے بارے میں سوچتے تھے۔ ’’12سے 22سال کی عمر تک میں اپنی زندگی سے تنگ آچکا تھا، تاہم بطور موسیقار اپنا کیریئر شروع کرنے سے قبل ہی فیملی کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا اور اپنی پچھلی زندگی کے ساتھ اپنے نام دلیپ کمار کو بھی اللہ رکھا رحمان کے ساتھ تبدیل کرلیا۔ مجھے اپنا پُرانا نام دلیپ کمار بالکل بھی پسند نہیں تھا، پتہ نہیں کیوں مجھے اس نام سے نفرت تھی۔ مجھے لگتا تھا یہ نام میری شخصیت کے مطابق نہیں ہے، میں کوئی اور شخصیت بننا چاہتا تھا اور اپنی پچھلی زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا‘‘۔
’خواجہ میرے خواجہ‘ ہو یا پھر ’عرضياں ساری‘ ،اے آر رحمان کی موسیقی میں صوفی موسیقی کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلی بار جو صوفی موسیقی سنی وہ نصرت فتح علی خان کی تھی۔ ’’نصرت صاحب کی صوفی موسیقی جب میں نے سُنی تو میرا نظریہ ہی بدل گیا۔ مجھے ان سے صوفی موسیقی کے ساتھ ساتھ قوالی سیکھنے کا موقع بھی ملا‘‘۔